عالمی طاقتوں کے نرغے میں گھِرا ’’یوکرین‘‘ تقسیم کی جانب گامزن

یوکرین میں روس اورامریکا کے مابین سردجنگ برسوں سے جاری ہے لیکن کریمیا میں روس کی مداخلت نے بحران کو شدید کردیا ہے۔


امریکا اور روس یوکرین میں اپنی من پسند کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں فوٹو: فائل

یوکرین میں روس اورامریکا کے مابین سردجنگ برسوں سے جاری تھی لیکن جزیرہ نما کریمیا میں روس کی مبینہ فوجی مداخلت نے اس علاقے میں بحران کو شدید کردیا ہے۔

22 فروری کو روس نواز یوکرینی صدر ویکٹر یانوکووچ کی عوامی احتجاج کے نتیجے میں صدارتی محل سے فرار کے بعد امریکا اور روس کے درمیان یوکرین کے مستقبل کے حوالے سے سخت اختلافات سامنے آئے تھے۔ دونوں ملک یوکرین میں اپنی من پسند کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ روس نے اپنی سرحد سے متصل یوکرین کی مشرقی نیم خود مختار ریاست ''کریمیا'' میں فوج داخل کر دی ہے جہاں پہلے روسی فوج کا ایک بحری اڈہ بھی موجود ہے۔ اگرچہ روسی قیادت ان خبروں کی تصدیق نہیں کررہی تاہم مختلف تصاویر میں منہ چھپائے فوجیوں کو کریمیا میں نقل وحرکت کرتے دکھایاگیا۔ امریکی دفاعی ادارے پینٹا گان کے اندازے کے مطابق روس کے تقریبا 20000 فوجی کریمیا میں موجود ہیں۔ مغربی ممالک روس کے اس بارے میں دعووں سے متفق نہیں ہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما جزیرہ نما کریمیا میں روسی فوج کی مداخلت کے بعد ماسکو پر اقتصادی پابندیوں کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔اسی اثنا میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی امریکی صدر اوباما سے ایک گھنٹہ طویل ٹیلی فونک گفتگو بھی ہوئی۔ انھوں نے اوباما سے کہا کہ امریکا اور روس کے تعلقات کو یوکرین تنازعے کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ امریکا اور روس کے غیر معمولی تعلقات سے عالمی امن اور استحکام وابستہ ہے اس لیے ان تعلقات کو انفرادی سطح کے اختلاف کی وجہ سے قربان نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس موقع پر پیوٹن نے اوباما سے کہا کہ یوکرین کی نئی حکومت دستور کے خلاف بغاوت سے آئی ہے، روسی رہنما کے مطابق کریمیا کے مشرقی، اور جنوب مشرقی علاقے میں مکمل طور پر غیر قانونی اور ناجائز طریقے سے فیصلے کیے گئے ہیں۔

واضح رہے جمعرات کے روز یوکرینی پارلیمنٹ نے یوکرین کے جنوبی علاقے کو روس کے ساتھ ملانے کے لیے ووٹ دیا ہے ، اس سلسلے میں 16 مارچ کو ریفرنڈم کرانے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ مغرب کے حامی یوکرینی رہنماوں نے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی قرار دیا ہے۔تاہم پیوٹن نے کہا ماسکو کریمیا کی صورت حال کے پیچھے نہیں ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مغربی ملکوں کے ان الزامات کو مسترد کیا کہ روسی افواج نے کریمیا میں سرکاری عمارات کو قبضہ میں لے لیا ہے۔ روسی صدر نے کریمیا میں فوجیوں کی موجودگی کے حوالے سے وضاحت کی کہ وہ روسی فوجی نہیں بلکہ مقامی خود حفاظتی یونٹس تھے۔ انہوں نے مغربی طاقتوں کے ساتھ یوکرین کے مسئلے کے حل کے لیے تعاون کرنے کا کہا تاہم انہوں نے زور دیا کہ یانوکووچ ہی یوکرین کا قانونی ور جائز حکمران ہے۔ اس لیے جو بھی معاہدہ ہو 21 فروری کے معاہدے کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین کی عمرابھی 24 سال ہے لیکن اس دوران ملک میں انقلاب کی دو بڑی تحریکیں برپا ہوچکی ہیں۔ سنہ 2004ء میں''زرد انقلاب'' کے نام سے عوامی بغاوت کی تحریک اس وقت اٹھی جب وقت کے وزیراعظم ''ویکٹور فیڈرو وچ یانوکووچ'' نے صدارتی منصب سنبھالنے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کوشش عوامی طاقت نے ناکام بنادی اور یوکرینی سپریم کورٹ نے صدر ویکٹور اینڈرو وچ یوشنکو'' کو ان کے عہدے پربحال کردیا۔ صدر یوشنکو نے معاشی اصلاحات کیں اور کافی حد تک ملک کو معاشی دباؤ سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے لیکن بدعنوانی کا پھنکارتا اژدھا مسلسل طاقت ور ہوتا گیا۔2010ء کے صدارتی انتخابات میں روس نواز ویکٹو ایف یانوکووچ'' صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے روس اور یورپی یونین دونوں سے معاشی بحران کے حل کے لیے امداد مانگی ۔ روس نے اپنے مفادات کے لیے یوکرین کو کھل کرامداد فراہم کی۔

یوکرین کے بیرونی قرضے بڑھتے بڑھتے 20 ارب ڈالرتک جا پہنچے اور ملک میں نوبت فاقہ کشی تک آ پہنچی ۔ یورپی ہمسائیوں نے ''قرض اتارو ملک سنوارو'' سکیم کے تحت 838ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ 2012ء میں یورپی یونین نے معاہدے سے قبل یوکرین پرچند شرائط عائد کیں اور کیف پر زور دیا کہ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے فروغ کی ٹھوس یقین دہانی فراہم کرے۔ امداد کے اعلان کے بعد یوکرین اور یورپ میں معاہدہ ہونے جا رہا تھا کہ روس نے یوکرین کو نہ صرف سستی گیس کی فراہمی کی پیش کردی بلکہ اسے 15 ارب ڈالر کی امداد دینے کا بھی اعلان کردیا۔ یورپی یونین کی جانب سے امداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ مشروط بھی تھی جبکہ روسی صدر پیوٹن کی جانب سے اعلان کردہ امداد غیر مشروط تھی۔روس کی غیرمعمولی امداد کا اعلان '''کیف ''کے لیے حیران کن نہیں لیکن یورپ کے لیے باعث تشویش ضرور تھا۔ یورپ اور امریکا نواز حلقوں نے روس کی آفر ٹھکرادی اورماسکو سے ڈیل کرنے والے صدرکو ہٹانے کی تحریک برپا کردی۔ روس مخالف حلقوں نے اپنی اس تحریک کو Uromaidan کا نام دیا''یورو ۔ میڈین'' اصطلاح کا آغاز سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹیوٹرپر اس نام کے ایک اکاؤنٹ سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ نام حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک کی علامت بن گیا۔



یہ یوکرین میں دوسری بغاوت کی تحریک تھی اور اس بار بھی عوامی مخالفت کا نشانہ حسب سابق ماسکو نواز صدر''ویکٹور یانوکووچ'' تھے۔ عوامی غم وغصے کی بڑی وجہ روس سے ڈیل نہیں بلکہ کرپشن بتائی جا رہی ہے کیونکہ بیرون ملک سے ملنے والی امداد صدر ویکٹور اور ان کے نو رتنوں کے اللے تللوں پرخرچ کی جا رہی تھی۔بیرون ملک سے ملنے والی امداد کا 60 فی صد صرف ایوان صدر پرصرف کیا جاتا ۔ صدارتی محل میں دنیا کی نایاب اور بیش قیمت چیزیں موجود تھیں لیکن اس سے چند کلو میٹر دورلوگ بھوکے مررہے تھے۔ماضی میں جرائم پیشہ شخص کی شہرت رکھنے والے صدر ویکٹورنے عوامی بغاوت کی تحریک کو طاقت کے ذریعے دبانے کی پالیسی اپنائی۔ اس ضمن میںانہیں عوامی بغاوت روکنے کے لیے روس نے بھرپور معاونت کی جبکہ یورپی یونین کی طرف سے باغیوں کی پشتیبانی نے بھی جلتی پے تیل کا کام کیا۔ آج ویکٹور یانووکوچ کو اگراقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں تو انہیں روس کی وفاداری کی قیمت چکانا پڑی ہے۔

سوویت یونین کی بحالی کا خواب

روسی شہرقازان میں عیسائی آرتھوڈوکس فرقے کے مرکزی چرچ میں موجود ''بلیک آئیکون'' کی زیارت تبرکات اور فتح و نصرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی جنگ سے قبل روسی حکمران اس مجسمے کی زیارت کو اپنا مذہبی اور ملی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ مجسمہ اصلی نہیں کیونکہ اصلی مجسمہ 1904ء میں ایک جنگ میں تباہ کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک دوسرا مجسمہ اس کی جگہ نصب کیا گیا ہے۔ سابق سوویت یونین کی پولینڈ، سویڈن ، ترکی، ایران ، جرمنی اور فرانسیسیوں کے خلاف جنگوں سے قبل فوج اور سربراہ حکومت باقاعدگی سے اس مجسمہ کی زیارت کرتے تھے۔ سنہ 2008ء میں جارجیاپر حملے سے قبل ولادی میر پوتن نے اس مجسمے کی زیارت کی تھی، جس کے بعد انہوں نے پڑوسی ملک پر چڑھائی کردی۔ گذشتہ مہینے ''سوچی'' میں منعقدہ اولمپک چیمپیئن شپ کے بعد صدر پوتن نے ایک مرتبہ پھر اس''بلیک آئیکون'' کی زیارت کی۔ تب کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ماسکو کا اگلا ہدف کیا ہوگا23فروری کو یوکرین میں برپا ہونے والی بغاوت کے بعد اندازہ ہوا کہ پوتن کی زیارت کا مقصد اب کی بار یوکرین میں فوجیں داخل کرنا تھا۔

انیسویں صدی میں روس نے''عیسائی اقلیت'' کے تحفظ کے نام پر جرمنی، پولینڈ، فن لینڈ، خلافت عثمانیہ اور ایران سمیت کئی دوسرے ممالک کے یومیہ ایک سو کلو میٹر رقبے پر قبضہ کرلیا۔ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ روس نے خود کو''دوسری سلطنت روم'' قرار دے کر عیسائی اقلیت کے تحفظ کے نام پرخوب قبضے جمائے۔ 1917ء میں روس نے مذہبی لبادہ اتار کر کیمونزم کی چادر اوڑھ لی اور کیمونسٹ نظام کے دفاع کے لیے پڑوسی ملکوں کو تاراج کرنے لگا۔ بیسویں صدی کی پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہنگری، پولینڈ اور چیکوسلواکیہ میں ٹینک داخل کرنا اور 1979ء میں افغانستان پرچڑھائی کیمونزم کے دفاع کی جنگیں تھیں۔1991ء میں سوویت کے بٹوارے کے بعد روس نے پڑوسی ملکوں پر چڑھائی کا ایک نیا بہانہ تراشا۔ اب یہ کام ''دوست ملکوں کے دفاع'' اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے نام پرکیا جارہا ہے۔ قریبی ملکوں میں مداخلت کے لیے صدر پوتن کی پالیسی زیادہ نمایاں رہی۔ انہوں نے کئی ملین رُوسی باشندے آذر بائیجان، ترکمانستان، یوکرین، کرغیزستان، لیٹونیا، اسٹونیا، جارجیا حتیٰ کہ ٹرانسنسٹیریا جس کی براہ راست سرحدیں روس سے نہیں ملتیں میں بھیجے تاکہ اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے ان ملکوں میں فوج داخل کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔

پڑوسی ملکوں میں روس نے جبراً اپنے فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں۔ جس ملک نے رضاکارانہ فوجی اڈے کے قیام کی اجازت نہ دی تواس سے طاقت کے ذریعے زمین چھین لی گئی۔ 2000ء میں صدر پوتن نے تاجکستان کے وزیراعظم پر دباؤ ڈال کر انہیں اپنے ملک میں 15000 روسی فوجیوں کیلئے اڈاقائم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ 2008ء میں جارجیا پرحملے کرکے اس کی دو نیم خود مختار ریاستوں اوسیٹیا اور ابخازیا پرقبضہ جما لیا۔ اس وقت ان دونوں ریاستوں میں روس کے 50 ہزار فوجی تعینات ہیں۔ ان کے علاوہ روس کی ایک ڈویژن فوج حال ہی میں یوکرین میں داخل ہوچکی ہے۔ دیگر پڑوسی ملکوں، ترکمانستان اور آذر بائیجان میں پانچ فوجی اڈے موجود ہیں جہاں پرمجموعی طورپر 50 ہزار روسی فوجی موجود ہیں۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ ولادی میر پوتن ایک عرصہ سے سوویت یونین کے پھر سے قیام کا خواب دیکھتے چلے آرہے ہیں،اس غرض سے انھوں نے کافی حد تک اندرون خانہ کام کرلیا ہے۔ نئے اتحاد کا دوسرا مقصد نیٹو کے بالمقابل ایک طاقتور فوج بھی تیار کرناہے۔ کیا ایسا عملاً ممکن ہوگا یا نہیں اور کیا امریکا اور یورپی یونین کسی ایسی متوازی فوج کو برداشت کریں گے؟ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا البتہ روس اپنے طورپر اس کی مکمل تیاری کرچکا ہے۔ یوکرین کا محاذ گرم کرنے کی بنیادی وجہ بھی اسی یونین کی طرف پیش قدمی کرنا ہے۔ لیکن یوکرین کا معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ یوکرین کو متحد رکھنے یا اسے تقسیم کرنے کی ذمہ داری جہاں روس پرعائد ہوگی وہیں پریورپی یونین اور امریکا پربھی عائد ہوگی۔

اب خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ یورپی یونین، نیٹو امریکا اور روس کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں یوکرین کی تقسیم نوشتہ دیوار بنتی جا رہی ہے ۔یوکرین بھی اس وقت روس اور امریکا کے خونی پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس لیے بعید نہیں کہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ یوکرین کو دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دے۔برطانوی اخبار''ڈیلی میل'' نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ یورپی یونین کا حامی مغربی یوکرین اور روس کا وفادار مشرقی حصہ الگ ہوسکتے ہیں۔ اس امر کا خدشہ موجود ہے کہ یوکرین شمالی اور جنوبی کوریا کی شکل اختیار کرلیں، کیونکہ بحران زدہ ملک کا نقشہ کچھ ایسا ہی بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

فطری طورپر یوکرین کا تعلق یورپی یونین اور روس دونوں کے ساتھ ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سات سمندر پار سے انکل سام کس مقصد کے لیے یوکرین میں مداخلت کا مرتکب ہے۔ امریکا نے یوکرین میں مداخلت اس وقت زیادہ شدت کے ساتھ شروع کی جب چین نے یوکرین کے معاملے پر روس کی حمایت کی۔ امریکا کسی صورت میںسوویت ریاستوں کو متحدنہیں دیکھناچاہتا۔ اگر سابقہ سوویت ریاستیں متحد ہو جاتی ہیںتوامکان ہے کہ شمالی کوریا اور چین بھی اس اتحاد میں شامل ہوجائیں گے۔

امریکا اور یورپ کے محدود آپشن

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا اور یورپ یوکرین میں فوج داخل کرنے کی پاداش میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیرماسکو کو سبق سکھانے کو تیار ہیں۔ لیکن روس کے خلاف امریکا اور یورپ کی کوئی کارروائی اتنی آسان نہیں اور نہ ہی عالمی طاقتیں روس پرفوری طورپر کوئی بڑی اقتصادی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں۔ دھمکیوں کی حد تک بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن ماسکو پراقتصادی پابندیاں خود یورپی یونین کے مفاد میں نہیںہیں، کیونکہ یورپ کی گیس کی بڑی ضرورت روس ہی پوری کررہا ہے۔ روس سلامتی کونسل میں''ویٹو پاور'' کا حامل ایک مضبوط ملک ہے جس کی منشاء کے بغیر عالمی ادارہ بھی کوئی قرارداد منظور نہیں کرسکتا ہے۔ یہ اقتصادی پابندیاں ایران، لیبیا، عراق، افغانستان ، شام اور پاکستان جیسے ممالک پرتوعائد کی جاسکتی ہیں لیکن امریکیوں کے لیے روس کو عالمی اقتصادی پابندیوں کے جال میں جکڑنے سے قبل انکل سام اور ان کے حواریوں کو ان کے مضمرات بھی سامنے رکھنا ہوں گے۔ 2008ء میں جب روس نے پڑوسی ملک جارجیا میں فوجیں داخل کیں توامریکا اور یورپ ہی سب سے زیادہ شور مچانے والے ممالک تھے۔ سخت ترین معاشی پابندیوں کی دھمکیوں کے باجود یورپ اورامریکا روس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ موجودہ حالات میں ایران کے جوہری پروگرام اور شام کے تنازعہ کے حل کے لیے امریکا اور یورپ کو روس کی ضرورت بھی ہے۔ روس اور امریکا کی کشمکش اپنی جگہ مگر یوکرین جیسے غیر ترقی یافتہ ملک کو رشوت اور دولت کے بل بوتے پر اپنے پنجوں میں دبوچنے کی کوشش جمہوری' اخلاقی' آئینی اصولوں اور عدل و انصاف کی روح کے بالکل منافی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں