کریں تو کریں کیا
اس کے قتل کی کہانی تاریخ کی انتہائی ڈرامائی داستانوں میں سے ایک ہے یہ شخص آخر ی زار روس نکولس دوئم تھا
یورپ کی تاریخ کا امیر ترین شخص جس کا شمار دنیا کے مشہور ترین لوگوں میں ہوتا تھا ، جب مرا اس وقت وہ تقریباً پچاس ملین ڈالرزاورآٹھ ملین ڈالرکے ہیروں اور جواہرات کا مالک تھا اس کی ماہوار آمدنی ایک ملین ڈالر یا چوبیس ڈالر فی سیکنڈ تھی ۔ قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ دنیا کے اس قدر با اثر شخص کو 16 جولائی 1918 کو نصف شب سے تھوڑی دیر بعد اس کے خاندان سمیت ایک غلیظ تہہ خانے میں دھکیل کر گولیوں سے اڑا دیاگیا۔
اس کے قتل کی کہانی تاریخ کی انتہائی ڈرامائی داستانوں میں سے ایک ہے یہ شخص آخر ی زار روس نکولس دوئم تھا۔ وہ شخص جو تقریباً ایک چوتھائی صدی تک دنیا کے چھٹے حصے پر آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتا رہا۔ 1917 میں تقریباً تین سال تک بے نتیجہ قتل و غارت کے بعد اس کی فوجوں نے بغاوت کردی اور مزید لڑنے سے انکار کر دیا ۔ لہذا 14 مارچ 1917 کو نصف شب سے چند منٹ قبل جرنیلوں کی ایک کمیٹی نے زار روس کی ذاتی ٹرین میں واقع اس کے ڈرائنگ روم میں ملاقات کی اور اسے بتایا کہ اب اسے اپنے اقتدار اور تخت کو چھوڑنے کا اعلان کر نا پڑے گا۔اسے اس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ ادھر ادھر جھولنے لگا اور اس کے چہرے پر موت کی زردی چھا گئی ۔ کمیٹی کے ارکان کو خدشہ گزرا کہ وہ بے ہوش ہو کر فرش پر گرجائے گا۔ وہ اپنی خواب گاہ میں گیا لیکن سو نہ سکا۔لہذا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور باقی ماندہ رات شیکسپیئر کا مشہورناول '' جولیس سیزر '' پڑھتے ہوئے گزار دی ۔اگلی صبح ٹھیک سواگیار ہ بجے اس نے ایک عام سکے کی پینسل سے دستخط کرتے ہوئے تخت سے دستبرداری کا اعلان کردیا ۔زار اور اس کے خاندان نے اپنی زندگی کے آخری مہینے شہر سے باہر کوہ ارل کے دامن میں ایک دوکمروں کے پرانے سے گھر میں بسر کیے ۔
وہاں انقلابیوں نے انھیں قیدی بناکر رکھا ہوا تھا اور انھیں کھانے کو وہی کچھ دیاجاتا تھا جو عام کسان کھاتے تھے ۔ انھیں چینی،کافی،کریم،نمک اور مکھن استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ انھیں چوکر ملے آٹے کی روٹی اور سبزی کے گاڑھے شوربے کے علاوہ کچھ بھی کھانے کو نہیں دیاجاتا تھا ۔گھر کی کھڑکیوں کے شیشوں پر رنگ کر دیاگیا تھا تاکہ وہ باہر نہ دیکھ سکیں اور انھیں کھڑکیاں کھولنے کی اجازت نہیں تھی ۔ایک دن سب سے چھوٹی شہزادی نے تازہ ہواکے جھونکے کے لیے ایک کھڑکی کھول دی ۔ ایک سپاہی نے اسے گولی ماردی ۔انھیں چھوٹے سے باغیچے میں پورے دن میں صرف پانچ منٹ گھومنے کی اجازت تھی ۔چھوٹا زار اس قدر بیمار تھا کہ چل نہیں سکتا تھا لہذا اس کا باپ اسے گو د میں اٹھا کر باہر لاتا تھا۔ 16 جولائی1918 کی شب کو آدھی رات سے تھوڑی دیر بعد پہرے داروں کے کپتان نے زار اور اس کے خاندان کو جگایا اور بتایا کہ شہر میں فسادات پھوٹ نکلے ہیں ، لہذا وہ جلدی سے کپڑے پہن کر نیچے تہہ خانے میں چلے جائیں اور وہاں انتظار کریں ، تھوڑی دیر بعد گاڑیاں آئیں گی انھیں کسی محفوظ مقام پر لے جائیں گی ۔ جب ملکہ تہہ خانے میں پہنچی وہ خوف سے کانپ رہی تھی اور کھڑے ہونے کے قابل نہ تھی ۔ لہذا اس کے لیے ایک کرسی لائی گئی اور وہ اس پر بیٹھ گئی ۔گود میں اس نے اپنے چھوٹے بیمار بچے کو اٹھا رکھا تھا۔
ایک سپاہی نے اپنی بندوق سیدھی زار پر تانی اورگولی اس کے دل میں اتاردی ۔ جیسے ہی وہ زمین پرگرا، سپاہیوں نے فوری طور پر خواتین پر گولیاں برسانا شروع کردیں ، لیکن سپاہی اس قدر جوش میں تھے کہ ان کی گولیاں نشانے پر نہیں لگ رہی تھیں ۔ اور وہ گولیوں پر گولیاں چلاتے جا رہے تھے جب کہ خواتین چیختی چلاتی ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں اور ایک دوسرے کے پیچھے پناہ تلاش کررہی تھیں اور پروں والے تکیوں کی مدد سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہی تھیں ۔لیکن محافظوں نے نہ صرف انھیں گولیوں سے بھون دیا بلکہ ان کے جسموں میں سنگینیں بھی پیوست کرتے رہے ۔ تھوڑی دیر بعد اس المنا ک تہہ خانے میں ایک چھوٹے سے کتے کے بھونکنے کی آواز کے علاوہ جو گری ہوئی لاشوں میں اپنی مالکہ کو تلاش کررہاتھا ، تمام آوازیں خاموش ہوچکی تھیں ۔ ایک سپاہی نے اپنی سنگین اس چھوٹے کتے کو گھونپ دی ۔ اس کے بعد سپاہیوں نے شاہی خاندان کی لاشوں کو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ انھیں پیٹرول سے بھگو کرآگ لگا دی اور راکھ کو ایک پرانی لوہے کی کان کے گڑھے میں پھینک دیا۔چند دنوں کے بعد سپاہیوں نے اس راکھ کو کریدا جہاں شاہی لاشوں کو جلایا گیا تھا تو انھیں بہت سے قیمتی ہیرے اور جواہرات ملے جو کہ ملکہ اور اس کی بیٹیوں نے اپنے لباس کے گھیروں میں سی رکھے تھے ۔شاہی خاندان کے جلے ہوئے جسموں کے ٹکڑے اب پیرس میں دفن ہیں جنھیں امریکی ایمبیسی وہاں لے آئی تھی ۔
جنوری 1920ء میں سائبیریا میں امریکن کونسل جنرل اپنے ایک دوست کی درخواست پر لکڑی کا ایک بکس جو رسیوں سے باندھا ہوا تھا ۔ سا ئبیریا سے لے کرآیا اور ہاربن میں برٹش ہائی کمیشن کے سپرد کردیا ۔ امریکن کونسل جنرل کو علم نہیں تھا کہ بکس میں کیا ہے ۔ ٹرین میں بہت ٹھنڈ تھی اور وہ اپنے پائوںگرم کرنے کے لیے اس بکس پر مارا کرتا تھا ۔ جب وہ ہاربن پہنچا تو وہ یہ جان کر بہت حیران ہواکہ بکس کے اندر زار اور ان کے خاندان کی لاشوں کے جلے ہوئے اور کٹے ہوئے حصے تھے ۔ بکس شنگھائی بھجوایا گیا اور وہاں سے پیرس پہنچ گیا ۔ ان میں دیگر اشیا کے علاوہ ملکہ کی کٹی ہوئی انگلی بھی تھی جس پر ابھی تک اس کی شادی کی انگوٹھی بھی موجود تھی ۔زار شیکسپیئر کو پڑھنے کا بہت شوقین تھا اور اس نے لازمی یہ الفاظ بھی پڑھے ہونگے ۔ ''وہ لوگ جو بلند مقام پر کھڑے ہوتے ہیں انھیں بہت سی گرانے والی تند ہوائوں کا سامنا ہوتا ہے، اور اگر وہ گر جائیں تو وہ ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں ۔''
تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہم کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے جب سبق حاصل کرتے ہیں تو ہم خود تاریخ بن چکے ہوتے ہیں اور بات پھر وہی آپہنچتی ہے جہاں سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں غیر مسلم حکمرانوں نے اپنے عوام کے خلاف ظلم و ستم روا رکھا اور خو د عیش وعشرت میں ڈوبے رہے وہاں وہاں بالآخر عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں نیست و نابود کر دیا۔ انقلاب روس ہو یا چین یا فرانس، برطانیہ ، امریکا ،ویت نام، ہو یا جرمنی غرض ہر جگہ عوام نے اپنی ہمت،جرأت،اتحاد اور بہادری سے نئی تاریخ خود رقم کی جب کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان مسلم حکمرانوں کے خلاف جنھوں نے اپنی اپنی ریاست کے اندر ظلم و ستم برپا رکھے۔ آپ کو عوامی انقلاب تاریخ میں دور دور تک نظر نہیں آئے گا البتہ بہت کوششوں کے بعد آپ کو اکا دکا عوامی جدوجہد ضرور نظر آجائے گی ۔ لیکن جب بھی کسی مسلمان ملک میں عوامی جدوجہد ہوئی ۔ تو بات عوامی حاکمیت پر نہیں بلکہ فوجی حاکمیت پر آکر ختم ہوئی۔
بات ذرا سمجھ سے باہر ہے کہ مسلم عوام آخر کیوں ہمیشہ ہی صبر کے ساتھ ظلم و ستم برداشت کرتے آئے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ عقل و دانش میں کسی سے کم نہیں ہیں قربانیاں دینے میں بھی ان کا کوئی مقابلہ نہیں ، دلیری ،بہادری جرأت میں ان کا کوئی ثانی نہیں لیکن آخر کیوں وہ اپنے ملکوں میںعوامی حاکمیت قائم کرنے میں دنیا بھر کے لوگوں سے پیچھے رہے ہیں آج آپ کو خوشحالی، آزادی ، مساوات، میرٹ ، سچ ، عدل و انصاف صرف اور صرف غیر مسلم ریاستوں میں ملے گا جب کہ ہر قسم کی ناانصافی ، زیادتی ، خرابیاں ، برائیاں ، غربت ، افلاس ، انتہا پسندی ، بدامنی، دہشت گردی ، ملاوٹ ، جھوٹ ، اقربا پروری ،آپ کو تمام مسلم ریاستوں میں جابجا ہر جگہ بغیر ڈھونڈے ملے گی ۔ آپ صرف پاکستان کی ہی مثال لے لیں عوام کے لیے یہ ملک دوزخ میں تبدیل ہوچکاہے۔ لیکن عوام اس قدر صابرین ہیں کہ اللہ کی پناہ ہر ظلم ستم و زیادتی کو اپنا نصیب و مقدر سمجھے بیٹھے ہیں احتجاج تو بہت دور کی بات ہے بولنے کو بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ، بس وعدوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں، اس ساری صورتحال پر عقل و دانش رکھنے والے کریں تو کریں کیا ۔
اس کے قتل کی کہانی تاریخ کی انتہائی ڈرامائی داستانوں میں سے ایک ہے یہ شخص آخر ی زار روس نکولس دوئم تھا۔ وہ شخص جو تقریباً ایک چوتھائی صدی تک دنیا کے چھٹے حصے پر آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتا رہا۔ 1917 میں تقریباً تین سال تک بے نتیجہ قتل و غارت کے بعد اس کی فوجوں نے بغاوت کردی اور مزید لڑنے سے انکار کر دیا ۔ لہذا 14 مارچ 1917 کو نصف شب سے چند منٹ قبل جرنیلوں کی ایک کمیٹی نے زار روس کی ذاتی ٹرین میں واقع اس کے ڈرائنگ روم میں ملاقات کی اور اسے بتایا کہ اب اسے اپنے اقتدار اور تخت کو چھوڑنے کا اعلان کر نا پڑے گا۔اسے اس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ ادھر ادھر جھولنے لگا اور اس کے چہرے پر موت کی زردی چھا گئی ۔ کمیٹی کے ارکان کو خدشہ گزرا کہ وہ بے ہوش ہو کر فرش پر گرجائے گا۔ وہ اپنی خواب گاہ میں گیا لیکن سو نہ سکا۔لہذا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور باقی ماندہ رات شیکسپیئر کا مشہورناول '' جولیس سیزر '' پڑھتے ہوئے گزار دی ۔اگلی صبح ٹھیک سواگیار ہ بجے اس نے ایک عام سکے کی پینسل سے دستخط کرتے ہوئے تخت سے دستبرداری کا اعلان کردیا ۔زار اور اس کے خاندان نے اپنی زندگی کے آخری مہینے شہر سے باہر کوہ ارل کے دامن میں ایک دوکمروں کے پرانے سے گھر میں بسر کیے ۔
وہاں انقلابیوں نے انھیں قیدی بناکر رکھا ہوا تھا اور انھیں کھانے کو وہی کچھ دیاجاتا تھا جو عام کسان کھاتے تھے ۔ انھیں چینی،کافی،کریم،نمک اور مکھن استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ انھیں چوکر ملے آٹے کی روٹی اور سبزی کے گاڑھے شوربے کے علاوہ کچھ بھی کھانے کو نہیں دیاجاتا تھا ۔گھر کی کھڑکیوں کے شیشوں پر رنگ کر دیاگیا تھا تاکہ وہ باہر نہ دیکھ سکیں اور انھیں کھڑکیاں کھولنے کی اجازت نہیں تھی ۔ایک دن سب سے چھوٹی شہزادی نے تازہ ہواکے جھونکے کے لیے ایک کھڑکی کھول دی ۔ ایک سپاہی نے اسے گولی ماردی ۔انھیں چھوٹے سے باغیچے میں پورے دن میں صرف پانچ منٹ گھومنے کی اجازت تھی ۔چھوٹا زار اس قدر بیمار تھا کہ چل نہیں سکتا تھا لہذا اس کا باپ اسے گو د میں اٹھا کر باہر لاتا تھا۔ 16 جولائی1918 کی شب کو آدھی رات سے تھوڑی دیر بعد پہرے داروں کے کپتان نے زار اور اس کے خاندان کو جگایا اور بتایا کہ شہر میں فسادات پھوٹ نکلے ہیں ، لہذا وہ جلدی سے کپڑے پہن کر نیچے تہہ خانے میں چلے جائیں اور وہاں انتظار کریں ، تھوڑی دیر بعد گاڑیاں آئیں گی انھیں کسی محفوظ مقام پر لے جائیں گی ۔ جب ملکہ تہہ خانے میں پہنچی وہ خوف سے کانپ رہی تھی اور کھڑے ہونے کے قابل نہ تھی ۔ لہذا اس کے لیے ایک کرسی لائی گئی اور وہ اس پر بیٹھ گئی ۔گود میں اس نے اپنے چھوٹے بیمار بچے کو اٹھا رکھا تھا۔
ایک سپاہی نے اپنی بندوق سیدھی زار پر تانی اورگولی اس کے دل میں اتاردی ۔ جیسے ہی وہ زمین پرگرا، سپاہیوں نے فوری طور پر خواتین پر گولیاں برسانا شروع کردیں ، لیکن سپاہی اس قدر جوش میں تھے کہ ان کی گولیاں نشانے پر نہیں لگ رہی تھیں ۔ اور وہ گولیوں پر گولیاں چلاتے جا رہے تھے جب کہ خواتین چیختی چلاتی ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں اور ایک دوسرے کے پیچھے پناہ تلاش کررہی تھیں اور پروں والے تکیوں کی مدد سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہی تھیں ۔لیکن محافظوں نے نہ صرف انھیں گولیوں سے بھون دیا بلکہ ان کے جسموں میں سنگینیں بھی پیوست کرتے رہے ۔ تھوڑی دیر بعد اس المنا ک تہہ خانے میں ایک چھوٹے سے کتے کے بھونکنے کی آواز کے علاوہ جو گری ہوئی لاشوں میں اپنی مالکہ کو تلاش کررہاتھا ، تمام آوازیں خاموش ہوچکی تھیں ۔ ایک سپاہی نے اپنی سنگین اس چھوٹے کتے کو گھونپ دی ۔ اس کے بعد سپاہیوں نے شاہی خاندان کی لاشوں کو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ انھیں پیٹرول سے بھگو کرآگ لگا دی اور راکھ کو ایک پرانی لوہے کی کان کے گڑھے میں پھینک دیا۔چند دنوں کے بعد سپاہیوں نے اس راکھ کو کریدا جہاں شاہی لاشوں کو جلایا گیا تھا تو انھیں بہت سے قیمتی ہیرے اور جواہرات ملے جو کہ ملکہ اور اس کی بیٹیوں نے اپنے لباس کے گھیروں میں سی رکھے تھے ۔شاہی خاندان کے جلے ہوئے جسموں کے ٹکڑے اب پیرس میں دفن ہیں جنھیں امریکی ایمبیسی وہاں لے آئی تھی ۔
جنوری 1920ء میں سائبیریا میں امریکن کونسل جنرل اپنے ایک دوست کی درخواست پر لکڑی کا ایک بکس جو رسیوں سے باندھا ہوا تھا ۔ سا ئبیریا سے لے کرآیا اور ہاربن میں برٹش ہائی کمیشن کے سپرد کردیا ۔ امریکن کونسل جنرل کو علم نہیں تھا کہ بکس میں کیا ہے ۔ ٹرین میں بہت ٹھنڈ تھی اور وہ اپنے پائوںگرم کرنے کے لیے اس بکس پر مارا کرتا تھا ۔ جب وہ ہاربن پہنچا تو وہ یہ جان کر بہت حیران ہواکہ بکس کے اندر زار اور ان کے خاندان کی لاشوں کے جلے ہوئے اور کٹے ہوئے حصے تھے ۔ بکس شنگھائی بھجوایا گیا اور وہاں سے پیرس پہنچ گیا ۔ ان میں دیگر اشیا کے علاوہ ملکہ کی کٹی ہوئی انگلی بھی تھی جس پر ابھی تک اس کی شادی کی انگوٹھی بھی موجود تھی ۔زار شیکسپیئر کو پڑھنے کا بہت شوقین تھا اور اس نے لازمی یہ الفاظ بھی پڑھے ہونگے ۔ ''وہ لوگ جو بلند مقام پر کھڑے ہوتے ہیں انھیں بہت سی گرانے والی تند ہوائوں کا سامنا ہوتا ہے، اور اگر وہ گر جائیں تو وہ ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں ۔''
تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہم کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے جب سبق حاصل کرتے ہیں تو ہم خود تاریخ بن چکے ہوتے ہیں اور بات پھر وہی آپہنچتی ہے جہاں سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں غیر مسلم حکمرانوں نے اپنے عوام کے خلاف ظلم و ستم روا رکھا اور خو د عیش وعشرت میں ڈوبے رہے وہاں وہاں بالآخر عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں نیست و نابود کر دیا۔ انقلاب روس ہو یا چین یا فرانس، برطانیہ ، امریکا ،ویت نام، ہو یا جرمنی غرض ہر جگہ عوام نے اپنی ہمت،جرأت،اتحاد اور بہادری سے نئی تاریخ خود رقم کی جب کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان مسلم حکمرانوں کے خلاف جنھوں نے اپنی اپنی ریاست کے اندر ظلم و ستم برپا رکھے۔ آپ کو عوامی انقلاب تاریخ میں دور دور تک نظر نہیں آئے گا البتہ بہت کوششوں کے بعد آپ کو اکا دکا عوامی جدوجہد ضرور نظر آجائے گی ۔ لیکن جب بھی کسی مسلمان ملک میں عوامی جدوجہد ہوئی ۔ تو بات عوامی حاکمیت پر نہیں بلکہ فوجی حاکمیت پر آکر ختم ہوئی۔
بات ذرا سمجھ سے باہر ہے کہ مسلم عوام آخر کیوں ہمیشہ ہی صبر کے ساتھ ظلم و ستم برداشت کرتے آئے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ عقل و دانش میں کسی سے کم نہیں ہیں قربانیاں دینے میں بھی ان کا کوئی مقابلہ نہیں ، دلیری ،بہادری جرأت میں ان کا کوئی ثانی نہیں لیکن آخر کیوں وہ اپنے ملکوں میںعوامی حاکمیت قائم کرنے میں دنیا بھر کے لوگوں سے پیچھے رہے ہیں آج آپ کو خوشحالی، آزادی ، مساوات، میرٹ ، سچ ، عدل و انصاف صرف اور صرف غیر مسلم ریاستوں میں ملے گا جب کہ ہر قسم کی ناانصافی ، زیادتی ، خرابیاں ، برائیاں ، غربت ، افلاس ، انتہا پسندی ، بدامنی، دہشت گردی ، ملاوٹ ، جھوٹ ، اقربا پروری ،آپ کو تمام مسلم ریاستوں میں جابجا ہر جگہ بغیر ڈھونڈے ملے گی ۔ آپ صرف پاکستان کی ہی مثال لے لیں عوام کے لیے یہ ملک دوزخ میں تبدیل ہوچکاہے۔ لیکن عوام اس قدر صابرین ہیں کہ اللہ کی پناہ ہر ظلم ستم و زیادتی کو اپنا نصیب و مقدر سمجھے بیٹھے ہیں احتجاج تو بہت دور کی بات ہے بولنے کو بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ، بس وعدوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں، اس ساری صورتحال پر عقل و دانش رکھنے والے کریں تو کریں کیا ۔