امام مساجد اورخطیبوں کی تنخواہ مزدورسے بھی کم
مساجد سمیت مختلف عبادت گاہوں میں خدمات انجام دینے والوں نے تنخواہیں انتہائی کم ہونےپرآج تک احتجاج نہیں کیا
امام مساجد اورخطیبوں کی تنخواہیں مزدورسے بھی کم ہیں،اس حوالے سے خدمات انجام دینے والوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔
مہنگائی نے معاشرے کے تمام طبقات کومتاثرکیا ہے ،لوگ مہنگائی کیخلاف احتجاج بھی کرتے ہیں تاہم مساجد سمیت مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں میں خدمات سرانجام دینے والوں کی تنخواہیں / اعزازیہ انتہائی کم ہونے کے باوجود اس طبقے نےآج تک احتجاج کیا ہے اورنہ ہی کبھی ہڑتال کی ہے، مساجد کے امام اورخطیب کی تنخواہ ایک مزدورسے بھی کم ہے۔
قاری عبدالرحمن لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کی ایک مرکزی مسجد کے خطیب امام ہیں، وہ گزشتہ 17 برس سے یہاں یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ان کی رہائش بھی مسجد سے متصل ہے جو مسجد انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے، وہ اپنی اہلیہ اورتین بچوں سمیت یہاں مقیم ہیں۔
قاری عبدالرحمن نے بتایا کہ انہوں نے لاہورکی ایک معروف جامعہ سے درس نظامی کاامتحان پاس کیا ہے جب کہ قرآت میں کئی ایوارڈجیت چکے ہیں۔ درس وتدریس کے دوران ہی انہیں اس مسجد میں بطور خطیب وامام ذمہ داری سونپی گئی ،اس وقت ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا ماہانہ اعزازیہ 12 ہزار روپے مقرر کیا گیا تھا ،مسجد انتطامیہ نے رہائش اورتین وقت کا کھانا فراہم کرنا تھا۔ کھانا مسجد کمیٹی کے ذمہ داران کے گھرسے آتا تھا لیکن جب ان کی شادی ہوگئی توپھرکھانا گھرمیں ہی تیارہونے لگا، انتظامیہ ان کا اعزازیہ بھی 15 ہزار روپے کردیا اوراب سترہ برس بعد انہیں 25 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے۔ رہائش ،بجلی اورگیس کا بل مسجد انتطامیہ ادا کرتی ہے۔
قاری عبدالرحمن کہتے ہیں وہ مسجد میں پانچ وقت نمازپڑھانے کے علاوہ صبح اوردوپہر کے وقت بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتے ہیں، اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا ہے تاہم چند مخیرحضرات اپنی خوشی سے ان کی ماہانہ خدمت کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ عیدین اوررمضان المبارک کے دوران مقامی نمازی ان کی خدمت کرتے ہیں۔ اللہ کا شکرہے ان کا گزارہ ہوجاتا ہے۔
قاری عبدالرحمن نے ہنستے ہوئے بتایا عیدین پرتنخواہیں توپہلے مل جاتی ہیں لیکن ہمارے ساتھ الٹا ہوتا ہے۔ جب لوگ عید کی نمازپڑھنے آتے ہیں تواس وقت ہرکوئی اپنی حیثیت کے مطابق خدمت کرتا ہے۔
پنجاب میں محکمہ اوقاف کے زیرانتظام مساجد میں تعینات خطیب،نائب خطیب ، موذن اوردیگرملازمین کو ان کے اسکیل کے مطابق تنخواہ دی جاتی ہے۔
صوبائی خطیب 18 ویں سکیل جبکہ ڈویژنل خطیب 17 ویں ، ضلعی خطیب 16 ویں اورعام خطیب کو 12 ویں اسکیل کے مطابق تنخواہ ملتی ہے۔ نائب خطیب امام 9 ویں اسکیل کا ملازم ہوتا ہے جبکہ موذن درجہ چہارم اورپنجم کے مطابق تنخواہ لیتے ہیں۔ مقامی لوگ عیدین پران کی جوخدمت کرتے ہیں وہ الگ ہے
پنجاب اوقاف کے ترجمان کے مطابق نجی مساجد میں خدمات سرانجام دینے والے خطیبوں ،امام اورموذن کے لئے کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ اعزازیہ کا کوئی قانون موجود نہیں ہے یہ مقامی لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی مسجد کے امام / خطیب کو کتنا اعزازیہ دیتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہرمحمود اشرفی کا کہنا ہے کہ خطیب امام کو موجودہ حالات کے مطابق کم ازکم اتنا اعزازیہ ضرورملنا چاہیے جس سے اس کے گھرکا گزربسراچھے طریقے سے ہوسکے اوراسےمعاشی مسائل کا سامنا نہ کرناپڑے۔
چیئرمین وفاق المدارس الرضویہ ڈاکٹرمفتی محمد کریم خان کے مطابق ایک خطیب اورامام کو عموما 15 سے 25 ہزار روپے تک ماہانہ وظیفہ دیاجاتا ہے جبکہ موذن اورخادم کی تنخواہ 10 سے 15 ہزار روپے تک ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے یہ لوگ بہت زیادہ متاثرہورہے ہیں ،یہ لوگ کوئی احتجاج کرتے ہیں نہ ہڑتال کرسکتے ہیں۔ اسی طرح مہنگائی کی وجہ سے مساجد کوہونیوالی آمدن میں بھی کمی آجاتی ہے۔
انہوں نے تجویزدی کہ اس طبقے کی معاشی صورتحال بہترکرنے کے لئے ضروری ہے کہ خطیب /امام کی کم ازکم تنخواہ 30 سے 35 ہزار مقررکی جائے،جبکہ موذن اورخادم کی تنخواہ بھی مزدور کی تنخواہ کے برابرہونی چاہیے۔
مساجد کے علاوہ دیگرمذاہب کی عبادتگاہوں میں خدمات سرانجام دینے والوں کی بات کی جائے توپاکستان میں موجود مسیحی برادری کے تمام گرجاگھروں کوکمیونٹی اپنی مدد آپ کے تحت چلارہی ہے ۔
لاہورمیں رومن کیتھولک اور پروٹسنٹ فرقے کے کئی بڑے گرجاگھرہیں جن کی قیمتی جائیدادیں ہیں۔ ان جائیدادوں سے حاصل ہونیوالی آمدن اورکمیونٹی کی طرف سے دیئے جانےوالوں نذرانوں سے گرجاگھروں کے خدمت گاروں جن میں بشپ، فادر، پادری ، پاسٹر اوردیگرلوگ شامل ہیں ان کو ماہانہ اعزازیہ دیا جاتا ہے۔
ڈین آف کیتھڈرل پادری شاہد معراج نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یقینا مہنگائی کی وجہ سے ان لوگوں کومسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے جو گرجاگھروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں کمیونٹی کی طرف سے ہی ان کی ہرممکن خدمت کی جاتی ہے، ان کی بنیادی ضروریات توپوری کی جاتی ہیں لیکن ایسا نہیں کہ یہ لوگ کوئی پرآسائش زندگی گزارتے ہیں۔ ان افراد کوان کی ذمہ داری کی لحاظ سے ان کو ایک قابل قدر وظیفہ دیا جاتا ہے ۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو چرچ میں ذمہ داری سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا کوئی نجی کاروبارکرتے ہیں تواس سے ان کے گھرکا نظام چلتارہتا ہے۔
پاکستان میں چندبڑے مندر اور تمام گورودوارے متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیرانتظام ہیں۔مندروں میں تعینات پجاری اور گورودواروں میں ہیڈ گرنتھی، گرنتھی اوردیگرسٹاف متروکہ وقف املاک بورڈ بھرتی کرتا ہے اورانہیں سرکاری ملازم کے طورپر ہی تنخواہ دی جاتی ہے تاہم جو مندر متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیرانتطام نہیں ہیں وہاں کے پجاری اورپنڈتوں کا خرچہ مندرسے حاصل ہونیوالی آمدن سے پوراکیا جاتا ہے جو بہت معمولی ہوتا ہے۔
پاکستان میں حکومت کے زیرانتظام مندروں اورگورودواروں کے مذہبی معاملات کوچلانے کے لئے الگ الگ کمیٹیاں قائم ہیں ،ان کمیٹیوں میں سکھ اورہندو کمیونٹی کے مخیرحضرات شامل ہوتے ہیں جوکسی معاوضے کے بغیرہی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ پاکستان سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان سردارامیرسنگھ خود کپڑے کے تاجرہیں،انہوں نے بتایا کہ گورودواروں میں جو نذرانے جمع ہوتے ہیں ان سے باآسانی انتطامات چلائے جاتے ہیں۔
مہنگائی نے معاشرے کے تمام طبقات کومتاثرکیا ہے ،لوگ مہنگائی کیخلاف احتجاج بھی کرتے ہیں تاہم مساجد سمیت مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں میں خدمات سرانجام دینے والوں کی تنخواہیں / اعزازیہ انتہائی کم ہونے کے باوجود اس طبقے نےآج تک احتجاج کیا ہے اورنہ ہی کبھی ہڑتال کی ہے، مساجد کے امام اورخطیب کی تنخواہ ایک مزدورسے بھی کم ہے۔
قاری عبدالرحمن لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کی ایک مرکزی مسجد کے خطیب امام ہیں، وہ گزشتہ 17 برس سے یہاں یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ان کی رہائش بھی مسجد سے متصل ہے جو مسجد انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے، وہ اپنی اہلیہ اورتین بچوں سمیت یہاں مقیم ہیں۔
قاری عبدالرحمن نے بتایا کہ انہوں نے لاہورکی ایک معروف جامعہ سے درس نظامی کاامتحان پاس کیا ہے جب کہ قرآت میں کئی ایوارڈجیت چکے ہیں۔ درس وتدریس کے دوران ہی انہیں اس مسجد میں بطور خطیب وامام ذمہ داری سونپی گئی ،اس وقت ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا ماہانہ اعزازیہ 12 ہزار روپے مقرر کیا گیا تھا ،مسجد انتطامیہ نے رہائش اورتین وقت کا کھانا فراہم کرنا تھا۔ کھانا مسجد کمیٹی کے ذمہ داران کے گھرسے آتا تھا لیکن جب ان کی شادی ہوگئی توپھرکھانا گھرمیں ہی تیارہونے لگا، انتظامیہ ان کا اعزازیہ بھی 15 ہزار روپے کردیا اوراب سترہ برس بعد انہیں 25 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے۔ رہائش ،بجلی اورگیس کا بل مسجد انتطامیہ ادا کرتی ہے۔
قاری عبدالرحمن کہتے ہیں وہ مسجد میں پانچ وقت نمازپڑھانے کے علاوہ صبح اوردوپہر کے وقت بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتے ہیں، اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا ہے تاہم چند مخیرحضرات اپنی خوشی سے ان کی ماہانہ خدمت کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ عیدین اوررمضان المبارک کے دوران مقامی نمازی ان کی خدمت کرتے ہیں۔ اللہ کا شکرہے ان کا گزارہ ہوجاتا ہے۔
قاری عبدالرحمن نے ہنستے ہوئے بتایا عیدین پرتنخواہیں توپہلے مل جاتی ہیں لیکن ہمارے ساتھ الٹا ہوتا ہے۔ جب لوگ عید کی نمازپڑھنے آتے ہیں تواس وقت ہرکوئی اپنی حیثیت کے مطابق خدمت کرتا ہے۔
پنجاب میں محکمہ اوقاف کے زیرانتظام مساجد میں تعینات خطیب،نائب خطیب ، موذن اوردیگرملازمین کو ان کے اسکیل کے مطابق تنخواہ دی جاتی ہے۔
صوبائی خطیب 18 ویں سکیل جبکہ ڈویژنل خطیب 17 ویں ، ضلعی خطیب 16 ویں اورعام خطیب کو 12 ویں اسکیل کے مطابق تنخواہ ملتی ہے۔ نائب خطیب امام 9 ویں اسکیل کا ملازم ہوتا ہے جبکہ موذن درجہ چہارم اورپنجم کے مطابق تنخواہ لیتے ہیں۔ مقامی لوگ عیدین پران کی جوخدمت کرتے ہیں وہ الگ ہے
پنجاب اوقاف کے ترجمان کے مطابق نجی مساجد میں خدمات سرانجام دینے والے خطیبوں ،امام اورموذن کے لئے کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ اعزازیہ کا کوئی قانون موجود نہیں ہے یہ مقامی لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی مسجد کے امام / خطیب کو کتنا اعزازیہ دیتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہرمحمود اشرفی کا کہنا ہے کہ خطیب امام کو موجودہ حالات کے مطابق کم ازکم اتنا اعزازیہ ضرورملنا چاہیے جس سے اس کے گھرکا گزربسراچھے طریقے سے ہوسکے اوراسےمعاشی مسائل کا سامنا نہ کرناپڑے۔
چیئرمین وفاق المدارس الرضویہ ڈاکٹرمفتی محمد کریم خان کے مطابق ایک خطیب اورامام کو عموما 15 سے 25 ہزار روپے تک ماہانہ وظیفہ دیاجاتا ہے جبکہ موذن اورخادم کی تنخواہ 10 سے 15 ہزار روپے تک ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے یہ لوگ بہت زیادہ متاثرہورہے ہیں ،یہ لوگ کوئی احتجاج کرتے ہیں نہ ہڑتال کرسکتے ہیں۔ اسی طرح مہنگائی کی وجہ سے مساجد کوہونیوالی آمدن میں بھی کمی آجاتی ہے۔
انہوں نے تجویزدی کہ اس طبقے کی معاشی صورتحال بہترکرنے کے لئے ضروری ہے کہ خطیب /امام کی کم ازکم تنخواہ 30 سے 35 ہزار مقررکی جائے،جبکہ موذن اورخادم کی تنخواہ بھی مزدور کی تنخواہ کے برابرہونی چاہیے۔
مساجد کے علاوہ دیگرمذاہب کی عبادتگاہوں میں خدمات سرانجام دینے والوں کی بات کی جائے توپاکستان میں موجود مسیحی برادری کے تمام گرجاگھروں کوکمیونٹی اپنی مدد آپ کے تحت چلارہی ہے ۔
لاہورمیں رومن کیتھولک اور پروٹسنٹ فرقے کے کئی بڑے گرجاگھرہیں جن کی قیمتی جائیدادیں ہیں۔ ان جائیدادوں سے حاصل ہونیوالی آمدن اورکمیونٹی کی طرف سے دیئے جانےوالوں نذرانوں سے گرجاگھروں کے خدمت گاروں جن میں بشپ، فادر، پادری ، پاسٹر اوردیگرلوگ شامل ہیں ان کو ماہانہ اعزازیہ دیا جاتا ہے۔
ڈین آف کیتھڈرل پادری شاہد معراج نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یقینا مہنگائی کی وجہ سے ان لوگوں کومسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے جو گرجاگھروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں کمیونٹی کی طرف سے ہی ان کی ہرممکن خدمت کی جاتی ہے، ان کی بنیادی ضروریات توپوری کی جاتی ہیں لیکن ایسا نہیں کہ یہ لوگ کوئی پرآسائش زندگی گزارتے ہیں۔ ان افراد کوان کی ذمہ داری کی لحاظ سے ان کو ایک قابل قدر وظیفہ دیا جاتا ہے ۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو چرچ میں ذمہ داری سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا کوئی نجی کاروبارکرتے ہیں تواس سے ان کے گھرکا نظام چلتارہتا ہے۔
پاکستان میں چندبڑے مندر اور تمام گورودوارے متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیرانتظام ہیں۔مندروں میں تعینات پجاری اور گورودواروں میں ہیڈ گرنتھی، گرنتھی اوردیگرسٹاف متروکہ وقف املاک بورڈ بھرتی کرتا ہے اورانہیں سرکاری ملازم کے طورپر ہی تنخواہ دی جاتی ہے تاہم جو مندر متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیرانتطام نہیں ہیں وہاں کے پجاری اورپنڈتوں کا خرچہ مندرسے حاصل ہونیوالی آمدن سے پوراکیا جاتا ہے جو بہت معمولی ہوتا ہے۔
پاکستان میں حکومت کے زیرانتظام مندروں اورگورودواروں کے مذہبی معاملات کوچلانے کے لئے الگ الگ کمیٹیاں قائم ہیں ،ان کمیٹیوں میں سکھ اورہندو کمیونٹی کے مخیرحضرات شامل ہوتے ہیں جوکسی معاوضے کے بغیرہی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ پاکستان سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان سردارامیرسنگھ خود کپڑے کے تاجرہیں،انہوں نے بتایا کہ گورودواروں میں جو نذرانے جمع ہوتے ہیں ان سے باآسانی انتطامات چلائے جاتے ہیں۔