خواتین کو درپیش تفکرات
ملک اور خصوصاً کراچی کو درپیش بدامنی کے حالات میں خواتین کی ابتدا صبح سویرے ہی اس وقت تفکرات سے ہوتی ہے
ملک اور خصوصاً کراچی کو درپیش بدامنی کے حالات میں خواتین کی ابتدا صبح سویرے ہی اس وقت تفکرات سے ہوتی ہے جب وہ اپنے بچوں کو اسکولوں کے لیے تیار کرتی ہیں جس کے بعد انھیں شوہروں اور نوجوان اولاد کی فکر لاحق ہوجاتی ہے جنھیں ملازمتوں، کاروبار اور کالج یونیورسٹی کے لیے گھر سے نکلنا ہوتا ہے اور ہر ماں اپنے بچوں اور بیویاں اپنے شوہروں کو ان دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی ہیں کہ جانے والے شام یا رات کو خیریت سے اپنے گھر واپس آجائیں۔ گھروں کو بہ خیریت آجانے والے خوش نصیبوں کو دیکھ کر ان کے اہل خانہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں اور اگلے روز یہی تفکرات پھر لاحق ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے اور خواتین کے تفکرات ہیں کہ ختم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
صبح سویرے اٹھ کر فجر کے بعد سے خواتین کو اپنے چھوٹے بچوں کو ان وینوں کے ذریعے اسکول بھیجنا پڑتا ہے جو پرانی و شکستہ ہونے کے ساتھ بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح لے کر جاتی ہیں اور جن کے گیس سلنڈروں کا پتہ نہیں ہوتا کہ کب وہ پھٹ پڑیں یا جلد باز وین ڈرائیور حادثے نہ کر بیٹھیں۔ دوپہر کو صبح گئی وین جب تک بہ خیریت واپس نہیں آجاتی مائیں انتظار کی سولی پر لٹکی رہتی ہیں۔ بچوں کی بہ خیریت واپسی کے بعد خواتین کا باقی دن اپنے شوہروں ، بیٹے بیٹیوں کے انتظار میں گزرتا ہے اور انھیں ہر لمحے ٹی وی پر کسی بھی بری خبر سننے کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اچانک ہوجانے والی ہڑتالیں۔ مطالبات کی منظوری کے لیے کیے جانے والے دھرنے، بڑے شہروں میں آئے دن ہونے والے ٹریفک جام کے معمولات، سر عام ڈکیتیاں، اچانک ہونے والی فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ نہ دینے کے مضمرات، موبائل اور پرس چھینے جانے کے اسٹریٹ کرائم گھروں میں موجود خواتین کے لیے درد سر بنے رہتے ہیں اور انھیں کچھ نہ کچھ ہوجانے کے جو تفکرات جو لاحق رہتے ہیں انھوں نے اکثر خواتین کے چہروں سے مسکراہٹ تک چھین لی ہے اور ان کی تشویش اور کچھ ہو نہ جائے کا خوف تو ان کے چہروں پر عیاں رہتا ہے جب کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ الگ سے خواتین کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے۔اپنے نوجوان بچوں کی بے روزگاری، شوہروں کے کاروبار کے نشیب و فراز، روزانہ بڑھنے والی مہنگائی اور محدود تنخواہوں میں گھر کے اخراجات پورے کرنا اب شوہروں سے زیادہ ان کی بیویوں کے لیے اہم ترین مسائل بن چکے ہیں۔
احتیاط کے باوجود بجلی و گیس کے بھاری بل، اسکولوں میں اچانک بڑھادی جانے والی فیسیں، گوشت اور مرغی، مچھلی کو پر لگی قیمتیں، دال اور سبزیوں کے روز بڑھتے نرخ، چاول، آٹے، گھی اور روز مرہ استعمال میں آنے والی اشیا کے روزانہ بڑھتے نرخ بھی مردوں سے زیادہ خواتین کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں کیونکہ گھر کے اخراجات کی ذمے داری خواتین پر عائد ہوتی ہے اور محدود ذرائع آمدنی اور ہوش ربا گرانی میں گھر چلانا اور اخراجات پورے کرنا خواتین کا مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے خواتین کے تفکرات بڑھ رہے ہیں۔
مردوں کی مصروفیات کے باعث روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیا کی خریداری، نجی اسکولوں کی طرف سے آئے دن ہونے والے مطالبات، بچوں کی بیماریوں کی صورت میں انھیں اسپتال لے کر جانا اور مارکیٹوں میں کپڑوں اور دیگر اشیا کے بڑھنے والے نرخ مردوں سے پہلے خواتین کے تفکرات بڑھا رہے ہیں کیونکہ ان معاملات سے پہلا واسطہ خواتین کا پڑتا ہے شوہروں کو تو آٹے دال کا بھاؤ اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ کبھی کبھی خریداری کرنے بازاروں اور مارکیٹوں میں جاتے ہیں۔
\وجودہ مصروف زندگی میں گھریلو سامان کی خریداری، بچوں کے معاملات اور یوٹیلیٹی بلز دیکھ کر فوری طور پر فکر خواتین کو لاحق ہوتی ہے اور جب وہ اپنے شوہروں یا گھریلو اخراجات برداشت کرنے والے افراد کو بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کرتی ہیں تو مردوں کے غصیلے ریمارکس انھیں ایسے سننا پڑتے ہیں جیسے وہ خود اس کی ذمے دار ہوں اور حقائق سے بے خبر مردوں کا بس بھی صرف گھریلو خواتین پر ہی چلتا ہے۔ گراں فروشوں اور گرانی روکنے میں ناکام رہنے والی حکومتی انتظامیہ کا مرد کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
خواتین کو ہی گھریلو بجٹ دیکھنا پڑتے ہیں مگر مسلسل بڑھنے والی مہنگائی گھریلو بجٹ بگاڑ دیتی ہے اور یہی وجوہات خواتین میں بیماریاں بڑھا رہی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کی خواتین گھریلو معاملات اور مہنگائی کا ٹینشن مردوں سے زیادہ لیتی ہیں اور یہی ٹینشن خواتین میں شوگر اور بلڈ پریشر بڑھا رہا ہے۔ مرد حضرات تو ان ملنے والی ٹینشنوں میں کمی گھر سے باہر جاکر کرلیتے ہیں مگر خواتین کا زیادہ وقت اپنے گھر بار ہی میں گزرنا ہوتا ہے اور اگر وقت مل جائے تو پڑوسیوں، رشتے داروں اور گھر آئے مہمانوں کو ہی اپنے دکھڑے سناکر خواتین پرسکون ہونے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔ ملک بھر میں بعض ایسے افسوسناک واقعات بھی پیش آرہے ہیں جن میں ماؤں نے اپنے بچوں کو مہنگائی، شوہروں کے نشے اور جوئے کی عادت اور بیروزگاری کی وجہ سے بوجھ سمجھ لیا اور اپنے جگر کے ٹکڑوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کسی ماں نے انھیں نہروں میں پھینک دیا کسی نے ان کے گلے گھونٹ دیے جس میں یہ جرأت نہ ہوسکی وہ بچوں کو لاوارث سمجھ کر کہیں چھوڑ آئی۔
حال ہی میں شوہر کی بیروزگاری اور نشے کی عادت کی وجہ سے ایک ماں کی طرف سے اپنے دو بچوں کو ہلاک کردینے کا واقعہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں وہ شوہر سمیت گرفتار ہوئی ہے۔ ایسی سنگین صورتحال میں ایسا بہت کم ہوا ہے جب کسی باپ نے اپنی اولاد کو ہلاک کیا ہو البتہ متعدد باپ بچوں کو فروخت کرنے ضرور سڑکوں پر آتے ہیں۔
ماں تو وہ ممتا ہے جو خود بھوکی رہ کر بچوں کو کھلا دیتی ہے مگر اب وہ وقت بھی آگیا ہے کہ ماں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی اور ہر طرف سے مایوسی کے بعد بچوں کو بھوکا بلکتے دیکھنے کی بجائے بچوں کو مار کر خود بھی خودکشی کرلیتی ہے۔
مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث ایسے شرمناک واقعات اکثر میڈیا میں بھی آتے ہیں مگر بدقسمتی سے ان واقعات میں مرد کم اور خواتین زیادہ ملوث پائی گئی ہیں جو خواتین کے صبر کا پیمانہ لبریز اور حالت ناقابل برداشت ہوجانے کا واضح ثبوت ہیں۔ ملک میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس سلسلے میں تقریبات منعقد ہوئیں۔ روایتی تقاریر کی گئیں مگر خواتین کو درپیش تفکرات اور ان کی وجوہات کسی کو نظر نہیں آئیں اور خواتین ڈے مناکر سمجھ لیا گیا کہ سب ٹھیک ہے۔ کاش خواتین کی بے بسی مجبوریاں اور تفکرات بھی کسی کو نظر آسکیں۔