گلوکارہ نیرہ نور کا انتقال
2005ء میں انھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا
ستر کی دہائی کی معروف گلوکارہ نیّرہ نور ہفتے کے روز کراچی میں انتقال کر گئی ہیں۔ وہ کچھ دنوں سے علیل تھیں، ان کی عمر 72 برس تھی۔ ان کی گائیکی کا الگ ہی انداز تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے وقت کی نامور گلوکاراؤں کے سامنے اپنے فن کا لوہا منوایا۔
2005ء میں انھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ برسوں پہلے انھوں نے گلوکاری چھوڑ دی تھی اور گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہی تھیں لیکن ان کے گائے گیت، ملی نغمے اورغزلیں ہر دور میں مقبول و معروف رہیں۔
تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا،
روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا،
آج بازار میں پا بجولاں چلو،
کہاں ہو تم چلے آؤ،
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
وطن کی مٹی گواہ رہنا
جیسے خوبصورت نغمے انہیں کے گائے ہوئے ہیں۔نیّرہ نورکا کرئیر 70 کی دہائی سے شروع ہوا اور 2022 تک جاری رہا، اس دوران انھوں نے نغمے، غزلیں اور گیت گانے کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پلے بیک سنگنگ بھی کی۔ نیرہ نور 1950 کی دہائی میں ہندوستان کی ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں پیدا ہوئیں۔ 1958میں یہ خاندان پاکستان کی طرف ہجرت کر آیا جبکہ ان کے والد بعد میں پاکستان آئے۔نیرہ نور کا تعلق کسی فنکار گھرانے سے نہیں تھا ، اس کے باوجود انہوں نے موسیقی کو سمجھا ۔ان کی وفات سے موسیقی کی دنیا کا ایک اور باب بند ہوگیا۔
2005ء میں انھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ برسوں پہلے انھوں نے گلوکاری چھوڑ دی تھی اور گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہی تھیں لیکن ان کے گائے گیت، ملی نغمے اورغزلیں ہر دور میں مقبول و معروف رہیں۔
تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا،
روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا،
آج بازار میں پا بجولاں چلو،
کہاں ہو تم چلے آؤ،
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
وطن کی مٹی گواہ رہنا
جیسے خوبصورت نغمے انہیں کے گائے ہوئے ہیں۔نیّرہ نورکا کرئیر 70 کی دہائی سے شروع ہوا اور 2022 تک جاری رہا، اس دوران انھوں نے نغمے، غزلیں اور گیت گانے کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پلے بیک سنگنگ بھی کی۔ نیرہ نور 1950 کی دہائی میں ہندوستان کی ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں پیدا ہوئیں۔ 1958میں یہ خاندان پاکستان کی طرف ہجرت کر آیا جبکہ ان کے والد بعد میں پاکستان آئے۔نیرہ نور کا تعلق کسی فنکار گھرانے سے نہیں تھا ، اس کے باوجود انہوں نے موسیقی کو سمجھا ۔ان کی وفات سے موسیقی کی دنیا کا ایک اور باب بند ہوگیا۔