ایک ارب ڈالراورہماری بے چارگی
ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے کیا کچھ نہیں مان لیا
موجودہ حکومت نے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے مئی کے مہینے میں تقریباً 380 لگژری اشیاء کی درآمد پر پابندی لگادی۔
ہمارے لوگوں نے اس پابندی کاخیرمقدم کیا، لیکن اسی حکومت نے اپنا یہ فیصلہ صرف تین ماہ میں ہی واپس لے لیا، حالانکہ جن مشکلات کو سامنے رکھ کر ملکی مفاد میں یہ فیصلہ کیاگیاتھاوہ تاحال جوں کی توں ہیں،لیکن آئی ایم ایف کی کڑی شرائط جس کاسلسلہ ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا لگژری اشیاء کی درآمد پر پابندی کو واپس لینے کافیصلہ بھی انہیں شرائط کاشاخسانہ ہے۔
ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے کیا کچھ نہیں مان لیا، پیٹرولیم مصنوعات کی تاریخی قیمتیں بھی اِسی IMF کی وجہ سے بڑھائی گئی تھیں اور تو اورجب عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمتیں کم ہورہی ہیں اورہمارا روپیہ بھی پہلے کی نسبت کچھ مستحکم ہوا ہے تو ہماری اس مہرباں حکومت نے عوام کو اس کا فائدہ اورریلیف پہنچانے کی بجائے اُلٹا مزید مہنگا کردیاہے ۔ ہمارے لوگ سمجھ رہے تھے کہ اس بار پیٹرول سستاہوگا۔ پیٹرول مہنگاکرنے کا اعلان ہم سب کے لیے حیران کن تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی ذمے داری دار شخص اس اضافہ کی اصل وجہ نہیں بتارہا۔وزیر خزانہ صاحب یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ کوئی ٹیکس اورلیوی نہیںلگایاہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ پھر تیل کی قیمتیں کیوں بڑھائی گئیں۔کہاگیاکہ اس بارے میں پارٹی کے اندر جو میٹنگ ہورہی تھی بڑے میاں صاحب اس تجویز سے بہت ناراض اورخفا بھی ہوئے اور وہ اجلاس سے اُٹھ کر چلے بھی گئے۔
یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ کیونکہ حکومت کے کہنے پر بعض کمپنیوں نے ضرورت سے زیادہ پیٹرول امپورٹ کرکے اپنے گوداموں میں ذخیرہ کردیاتھا اور وہ بھی اس قیمت پرجب عالمی سطح پر یہ سب سے زیادہ تھی،لہذا خسارے سے بچنے کے لیے عوام کوملنے والاریلیف نہ صرف ہڑپ کرلیاگیا بلکہ پیٹرول مزید مہنگاکر دیا گیا۔
پی ڈی ایم کی یہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے عوام پر مہنگائی کے زبردست پہاڑتوڑے گئے اورکہایہ گیاکہ یہ سب کچھ ریاست کو بچانے کے لیے کیاجارہاہے۔ سابقہ عمرانی حکومت نے IMF سے جس معاہدے کو توڑاتھااس میں بھی پیٹرول پر مجوزہ لیوی کی آخری حد تیس روپے فی لٹر تھی جسے ہر مہینے چار روپے کی شکل میں لگایاجاناتھالیکن اس حکومت نے اس معاہدے سے بھی بڑھ کر کچھ ایسی شرائط اوربھی مان لی ہیں جن کا اس معاہدہ میں کوئی ذکربھی نہیں تھا۔ تیس روپے لیوی کو اب پچاس روپے تک لے جایاگیاہے۔
تجارتی خسارہ کو کم کرنے کی اپنی ساری کوششوں پر پانی پھیر کرتمام لگژری آئٹمز پر پابندی بھی فوری طور پرواپس لے لی ہے۔اس کے علاوہ اور بھی ایسی شرائط مان لی گئی ہیں جن کا ابھی عوام کو شاید پتابھی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ صرف ایک ارب ڈالر کی اس قسط کے لیے کیاجارہاہے جس کا حصول مسلسل ٹلتابھی جارہاہے اورمشکل بھی ہوتاجارہاہے اورہم اس کے ملنے سے پہلے ہی سرشار ہوکرعوام کوخوشخبریاں سناتے پھر رہے ہیں۔ڈالر کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیاگیاہے۔
وہ جب چاہتا ہے مہنگاہونے لگتاہے اورجب چاہتاہے کم ہوجاتاہے ، کوئی مانیٹرنگ نہیں ہورہی ہے۔ اسی طرح کاحال کچھ اسٹاک مارکیٹ کا بھی ہے۔ وہ چند بڑے بروکروں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے ۔جو جب چاہتے ہیں کسی شیئرکی قیمت کو یکدم بڑھادیتے ہیں اورجب چاہتے ہیں بڑی تعداد میں فروخت کرکے اپنا منافع سمیٹ لیتے ہیں۔ کہنے کو اسٹاک مارکیٹ حکومت کے فیصلوں یابدلتے سیاسی حالات کی عکاسی کرتی ہے، لیکن ہمارے یہاں ایساکچھ بھی نہیں ہے۔
یہ جب چاہتی ہے بڑھنے لگتی ہے اورجب چاہتی ہے کریکشن کے نام پرمندی کارجحان ظاہرکرنے لگتی ہے۔تھوڑابہت سیاسی منظر نامہ کااثر قبول کرتی ہے لیکن اسکو چلانے کا کنٹرول بڑے بڑے سرمایہ دار، بروکروں کے پاس ہی ہوتا ہے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی معاشی مشکلات اور مجبوریوں کی۔حکومت کے پاس سوائے منت سماجت کے اورکوئی نہ تجویز ہے اورنہ کوئی حل۔ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، چین اورقطر سمیت اپنے تمام دوست ممالک کی منت سماجت کررہی ہے۔ کبھی کسی سے پچھلے قرضوں کی واپسی میں راحت اورسہولت مانگ رہی ہوتی ہے تو کبھی کسی سے مزید امداد کی بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے پیروں پرکھڑاہونے کی کوئی سوچ زیرغور ہے اورنہ کوئی تجویز۔ساری کابینہ صرف اورصرف قرض اورامداد کے حصول کے نئے نئے طریقے سوچنے اور اختیار کرنے میں سرگرداں ہے۔
سعودی عرب کے بعد اب ہمیں ایک نیادوست بھی مل گیاہے ۔ قطر وہ ملک ہے جس کے حکمرانوں کے ہمارے اس وزیراعظم سے بہت اچھے تعلقات ہیں،لہذا ان تعلقات کو اب استعمال کرنے کاسوچا جا رہا ہے۔سمجھ نہیں آرہاکہ مسلم لیگ نون اپنی اقتصادی پالیسیوں پر ہمیشہ جو ناز کرتی تھی، اس ناز کابھرم کہاں گیا۔کیاصرف اسحاق ڈار ہی ایک شخص تھاجس کی وجہ سے ساری مسلم لیگ فخر کیاکرتی تھی، اس کے پاس کوئی اورماہر معاش واقتصاد نہیں ہے کیا۔
اسحاق ڈار کی آمد کے بارے میں بھی مختلف خبریں پھیلاکے عوام کواطمینان دلایاجاتارہا ہے۔ کوئی کہتاہے وہ ستمبر میں پاکستان آرہے ہیں اورکوئی کہتاہے کہ اُن کے سوا پاکستان کی معیشت کو سدھارنے والا کوئی بھی نہیں۔قانوناً مفتاح اسماعیل چونکہ ایک منتخب پارلیمنٹرین نہیں ہیں صرف چھ ماہ ہی وزیر رہ سکتے ہیں۔ چھ ماہ بعد انہیںلامحالہ یہ وزارت چھوڑنا ہی پڑے گی، پھراس حکومت کے پاس ایساکون سادوسراشخص موجودہے جو یہ بھاری بھرکم ذمے داری داری سنبھالے گا۔
حکومت نے IMF کی کڑی شرطیں مان کراگر ایک ارب ڈالرکی قسط حاصل کرلی تو ایساکون سابڑاکارنامہ سرانجام دے ڈالاہے۔ بات تو تب تھی کہIMFسے ڈیل کرتے ہوئے کڑی شرائط کی بجائے کچھ نرم شرائط پرمعاہدہ کیاجاتا اوراپنے آپ کوسابقہ حکومت سے بہتر ثابت کیاجاتا۔ مگر آپ نے توڈیل کرتے ہوئے شوکت ترین کوبھی مات دیدی۔
اس شخص نے کم ازکم پیٹرول پرمجوزہ لیوی کی حد 30روپے مان لی تھی مگر آپ نے تو اسے 50 روپے تک بڑھادیا۔آپکی کامیابی توتب تھی کہ آپ شوکت ترین سے بہتر کوئی معاہدہ کرکے دکھاتے۔ عوام کی بے بسی پرریاست بچانے کاجشن منانااور اس پرناز اورفخر کرناکسی بھی حکومت کوزیب نہیں دیتا۔ خدارا اس غلط فہمی سے باہر نکلیے اور عوام کاکچھ خیال کیجیے اس سے پہلے کہ پانی سرسے گذر جائے۔