ڈالر کی قیمتیں برآمدکنندگان کیا کریں…

ڈالر کا اتنی تیزی سے نیچے آنا بظاہر تو بہت اچھی بات معلوم ہوتی ہے، اگر یہ وقتی نہیں، حقیقی ہے اور حکومت کی دیرپا پالیسی کا نتیجہ ہے تو اس کا مطلب ہے ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے، اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ اس سے ہماری امپورٹس کی لاگت کم ہو گی، قیمتوں میں کمی آئے گی، ہماری امپورٹس کا بڑا حصہ خام مال کا ہوتا ہے۔ جب خام مال سستا ہوگا تو تیار اشیا کی قیمتیں بھی کم ہوں گی، عوام کو ریلیف ملے گا، لیکن یہ سب اسی وقت ہوگا جب ڈالر کی یہ تنزلی برقرار رہے، مگر ماضی کا مشاہدہ یہ ہے ایسی تبدیلیاں وقتی طور پر کچھ لوگوں کو کھل کھیلنے کے لیے کی جاتی رہی ہیں۔ اس وقت بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اندرون خانہ مارکیٹ سے سستے داموں ڈالر خرید رہے ہیں۔ اگرچہ عوام کی اکثریت گھبراہٹ میں اور مزید گرنے کے خوف سے ڈالر فروخت کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ دبائو کا شکار ہے۔ حکومت کو اعلان کرنا چاہیے کہ ڈالر کی کیا قیمت رکھنا چاہتی ہے۔ روز روزکا اتنا اتار چڑھائو کچھ کو مالا مال اور کچھ کو کنگال کر سکتا ہے۔ ایک دلچسپ مکالمہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔

مدینہ منورہ میں میرے بیٹے نے سنایا، جو ایک عرصہ سے سعودی عرب میںقیام پذیر ہے۔ شروع کا دور تھا، ایک دن منی چینجر سے ڈالر بدلوانے گیا، اس سے ریٹ معلوم کیا۔ 3.70 ریال فی ڈالر اپنی عادت کے مطابق پوچھا، کچھ بڑھنے کا امکان ہے تو کل تک انتظار کر لوں۔ کرلو،20 سال سے میں بیٹھا ہوں، آج تک تو بڑھا نہیں۔ اس کو کہتے ہیں استحکام اورحکومت کا کنٹرول۔ وہاں پر آج بھی ڈالر 3.70 ریال میں جتنے چاہو بیچ لو اور 3.75 ریال میں جتنے چاہو خرید لو۔ پانچ حلالے کا فرق تو کبھی اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہاں پر دور تک کوئی منی چینجر کی دکان نہ ہو۔ اسی لیے ایک عرصہ تک وہاں پر قیمتوں میں استحکام رہا۔ جو کولڈ ڈرنک کا ڈبہ بیس سال پہلے ایک ریال کا تھا وہ گزشتہ سال تک بھی ایک ریال کا تھا۔ ہمارے ہاں بیس سال پہلے کی قیمتیں اپنے پوتوں یا نواسوں کو سنائیں تو ان کو یقین ہی نہیں آتا۔ ظاہر ہے جب انھوں نے چند برسوں میں یوں قیمتیں دگنی، تگنی ہوتی دیکھیں تو اتنے عرصے تک قیمتوں کا یوں مستحکم رہنا ان کے لیے کسی خواب سے زیادہ بھلا کیوں کر ہوسکتا ہے۔


اب ہم آتے ہیں اس کے دوسرے پہلو کی طرف۔ اس کے ایکسپورٹ اور ایکسپورٹر پر کیا اثرات ہوں گے۔ اس وقت ہماری نظر چھوٹے اور درمیانے ایکسپورٹر کی طرف ہے، جو چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں ملبوسات وغیرہ بنا کر مختلف ممالک کو برآمد کرتے ہیں۔

وہ کاروباری جو ایک ماہ میں چار پانچ کنٹینر ایکسپورٹ کرتے ہیں، ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ان کی حیثیت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے، جن کا سرمایہ محدود ہے۔ ان کے تین چار مہینے کے سودے پیشگی فروخت ہوئے ہوتے ہیں۔ انھوں نے 105 روپے کے ڈالر کے حساب سے مال بیچا ہوا ہے۔ اس کا منافع 5 سے 7 فیصد ہے۔ اس وقت پاکستانی برآمد کنندگان کو کتنے مقامی مسائل کا سامنا ہے، ان کا بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ اس پر اپنے ریجن کے ممالک سے مسابقت اور مقابلہ۔ خریدار سے ذرا سی قیمت بڑھانے کی بات کریں تو بھارتی اور بنگلہ دیشی تاجر ہم سے کم قیمت میں مال دینے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنی قیمت پر اصرار کرنا خریدار کو کھو دینا ہوتا ہے۔ یہ ایکسپورٹر کیسے چل پائیں گے۔ حکومت کی جانب سے فوری طور پر ان کے لیے کسی رعایت کا اعلان نہ کیا گیا تو یقینی طور پر وہ اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بے شک ان کا خام مال بھی ڈالر کے گرنے سے سستا ہونا چاہیے، مگر ان کی قیمتیں فوری کم نہیں ہوں گی، کیوں کہ جو خام مال موجود ہے، وہ تو پرانے ڈالر کے بھائو آیا ہوا ہے اور پھر ہمارے ملک میں قیمتیں کم کرنے کا رجحان بہت کم یا بہت سست ہے، کیوں کہ خام مال درآمد کرنے والے یا بنانے والے سب بڑے بڑے دیو ہیں۔

یہ سب ایک ہوکر چھوٹے برآمدکنندگان اور تاجروں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومت نے ایک عرصہ سے جنرل سیلز ٹیکس کا ریفنڈ بھی روکا ہوا ہے۔ اس طرح اس طبقہ کو تو بے حد مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اگر یہ کارخانے بند ہوگئے تو بے روزگاری میں کتنا اضافہ ہوگا۔ حکومت کے ریونیو میں کتنی کمی آئے گی۔ حکومت کا ٹریڈ ڈیفسٹ مزید بڑھ جائے گا۔ ایک دفعہ دبئی میں ایک بھارتی تاجر سے بات ہو رہی تھی کہ و ہ کس طرح اتنی کم قیمت پر مال برآمد کر لیتے ہیں، تو انھوں نے بتایا جو حکومت ریبیٹ (Rebate) دیتی ہے، وہی ہمارا نفع ہوتا ہے۔ یہ مال تو ہم خرید کے خرید یا اس سے بھی کم پر بیچ دیتے ہیں، ورنہ تو چائنا سے مقابلہ کیسے کرتے۔ پوری دنیا ہی چین سے خوف زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی حکومتیں اپنی برآمد کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ہماری حکومت کو بھی اس پر بھرپور طریقے سے غور کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری معیشت سنبھلنے کے بجائے بگڑ جائے، کیوں کہ معیشت برآمد (Export) بڑھنے سے اچھی ہوتی درآمد (Import) بڑھنے سے نہیں۔
Load Next Story