ریاست ٹیکسوں کا منصفانہ نظام نافذ کرنے میں ناکام

رواں بجٹ میں سپر ٹیکس، فکسڈ ٹیکس، تخفیف غربت ٹیکس سمیت کئی متنازع ٹیکس عائد

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسیشن پاکستان میں جبری ٹیکس وصولی میں بدل گئی ہے۔ فوٹو: فائل

ٹیکسیشن (محصول کاری) ممکنہ طور پر ریاست اور شہریوں کے درمیان سب سے اہم واسطہ یا تعلق ہے۔

شہری ریاست کو ٹیکس ادا کرتے ہیں جس کے عوض ریاست انھیں مختلف خدمات جیسے تعلیم و صحت، انفرا اسٹرکچر وغیرہ فراہم کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسیشن پاکستان میں جبراً وصولی میں بدل گئی ہے۔ اس کی ایک مثال سپرٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس کسی نہ کسی شکل میں لیا جارہا ہے۔


موجود فنانس ایکٹ میں یہ ایک ہی بار 10 فیصد کی شرح سے لیا جانیوالا ٹیکس ہے جو سوشل سیکیورٹی ٹیکسوں کے ساتھ مل کر 39فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ اس ٹیکس کا اطلاق سگریٹ، کیمیکل، مشروبات کی صنعتوں، ایل این جی ٹرمینلز، ایئرلائنز، ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، شوگرملز، آئل اینڈ گیس ، فرٹیلائزر، اسٹیل، بینکنگ اور سیمنٹ پر ہوتا ہے۔ اب چونکہ ٹیکس کا بوجھ بڑھ کر 50 فیصد تک پہنچ جائے گا تو ان صنعتوں کو سال کے 6مہینے حکومت اور 6مہینے اپنے شیئرہولڈرز کے لیے کام کرنا ہوگا۔

اسی طرح موجودہ بجٹ میں اور بھی کئی متنازع ٹیکس عائد کیے گئے ہیں ان میں متصور انکم ٹیکس ( deemed income tax) ، تخفیف غربت ٹیکس، فکسڈ ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ حکومتی ٹیکس پالیسیاں مفید ثابت نہیں ہوسکیں۔ بجٹ میں ان بینکوں پر انکم ٹیکس 37 فیصد سے بڑھا کر 49 فیصد کردیا گیا جن کا ایڈوانسڈ ٹو ڈپازٹ تناسب 50 فیصد سے کم ہے۔

بینک اس اضافی ٹیکس کا بوجھ صارفین کو منتقل کردیں گے، جس سے زر کی گردش بڑھے گی اور افراطِ زر میں اضافہ ہوگا۔ اس نوع کی پالیسیاں ناکام ثابت ہوں گی۔ اس تناظر میں ریاست ٹیکسوں کا منصفانہ نظام نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ملک میں کم از کم 11ملین ٹیکس دہندگان ہونے چاہیئں مگر یہ تعداد اس وقت صرف 3 ملین ہے۔
Load Next Story