روس یوکرین جنگ عالمی غذائی بحران کا خطرہ
روس یو کرین جنگ کے منفی اثرات سے عالمی معیشت بری طرح متزلزل ہوگئی ہے
اقوام متحدہ نے خبردارکیا ہے کہ دنیا بھر میں اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور عالمی سطح پر مہنگائی میں کمی کے لیے روس سے اجناس کا منڈیوں تک پہنچنا ضروری ہے۔
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے ترکی کے دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو میں روس اور یو کرین جنگ کے باعث اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ یو کرین اور روس سے زیادہ خوراک اور کھاد حاصل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ اجناس کی منڈیوں میں مزید سکون آئے اور صارفین کے لیے ان کی قیمتیں کم ہوسکیں ، جب کہ گزشتہ برس ترکیہ اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جو معاہدہ طے پایا تھا،اس کے تحت یوکرین سے پہلی کھیپ ترکیہ پہنچ گئی ہے۔
رواں برس چوبیس فروری کو جب روسی فوج نے یو کرین پر دھاوا بولا ، اس وقت روس کو یقین تھا کہ عسکری کارروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائے گی ، لیکن چھ ماہ گزر جانے کے باوجود یہ خونریز جنگ جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
روس یو کرین جنگ کے منفی اثرات سے عالمی معیشت بری طرح متزلزل ہوگئی ہے ، جس کا اثر صرف ایشیا یا افریقہ کے غریب ممالک پر ہی نہیں پڑ رہا ہے بلکہ دنیا کے سامنے ایک مثال سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں سامنے آچکی ہے اور یورپی ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد وہاں کے عوام کی مشکلات بڑھ چکی ہیں ۔
دنیا گزشتہ دو سال تک کورونا جیسی عالمی وبا سے نبرد آزما ہوکر لاک ڈاؤن کے باعث بد ترین معاشی بحران کا شکار ہونے کے بعد دوبارہ معاشی استحکام کی طرف لوٹ رہی تھی کہ رواں سال کے آغاز میں روس یوکرین جنگ نے اس معاشی بحران کو دوچند کر دیا ہے، دنیا بھر میں بڑھتے مہنگائی کے رجحان نے اس کرہ ارض پر غذائی قلت کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔
یورپی شہریوں نے فالتو اخراجات سے بھی ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا ہے ، جس کے بعد اب وہ صرف ضروری اشیا کی خریداری پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ افراطِ زر میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اب اشیائے خورونوش کی منڈیوں اور تیل کے ساتھ ساتھ کارسازی اور تعمیرات کے شعبوں میں بھی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے اور اب امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں برس 27 رکنی یورپی یونین کو مجموعی طور پر 7 فیصد سے زائد افراطِ زر کا سامنا ہوگا۔ مختلف یورپی ممالک میں مچھیروں اور کسانوں نے مجموعی مہنگائی کے تناظر میں اپنی پیداوار میں اضافہ کر دیا ہے تو دوسری جانب پٹرول کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے مال بردار ریل گاڑیوں اور سامان بردار ٹرکوں کی نقل و حرکت میں بھی کمی آئی ہے۔
خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے روزمرہ استعمال کے لیے روٹی کی مختلف اقسام بھی مہنگی ہوچکی ہیں اور خاص طور پر پولینڈ سے بیلجیم تک اشیائے خورونوش کی دکانوں پر بریڈ مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ، پولینڈ میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 150 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے جس کے بعد بعض یورپی حکومتوں نے ٹیکسوں کی مد میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی امداد کے اشارے بھی دیے ہیں۔
اس جنگ نے توانائی اور خوراک کے حوالے سے ساری دنیا کو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک جہاں امریکا نواز حکومتیں قائم ہیں وہاں روسی تیل حزب اختلاف کے لیے ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اپنے دورہِ ماسکو میں وہ روسی خام تیل رعایتی دام پر خریدنے کا معاہدے کرچکے تھے لیکن نئی حکومت نے امریکی دباؤ پر یہ سودا منسوخ کردیا۔ یہ بحث اس قدر شدت اختیار کرگئی کہ روس کے قونصل جنرل آندرے فیڈروف کو اس کی وضاحت کرنی پڑی۔ انھوں نے اخباری نمایندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس میں تیل کی خریداری پر گفتگو تو ہوئی لیکن پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں سرکاری خط و کتابت نہیں ہوئی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب روس اور یوکرین سے ایکسپورٹ ہونے والی دیگر اشیا کی طلب و رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ایسی صورت حال میں پاکستان کے صنعت کار بھی پریشانی کا شکار ہیں۔
تیل ، گندم اورا سٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں خام مال کی قیمت میں اضافے سے کئی شعبے براہ راست متاثر ہوئے ہیں، یوکرین سے اسٹیل آئٹمز درآمد ہوتی ہیں ، روس یو کرین کی جنگ سے پاکستان کی مقامی کئی صنعتوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں یوکرین سے اسٹیل درآمد کیا جاتا ہے، جو معیار کے اعتبار سے اچھا اور قیمت کے حساب سے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے۔ موجودہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ پاکستان کے لیے یو کرین کی مارکیٹ ایک اچھی مارکیٹ ہے۔ جہاں سے اشیائے خورونوش اورا سٹیل سمیت دیگر خام مال اچھے دام میں مل جاتا ہے۔
یہ دو بڑی قوتوں کی جنگ ہے لیکن اس کے اثرات نہ صرف یو کرین کو برداشت کرنا پڑرہے ہیں بلکہ کئی اور ممالک بھی متاثر ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، فارما، آئرن، اسٹیل، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کار پیٹ ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ یو کرین سے درآمد اسٹیل تعمیراتی شعبے کے علاوہ بھی اسٹیل شیٹس کئی شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ شیٹس پائپ بنانے میں کام آتی ہیں، اس کے علاوہ آٹو پارٹس میں بھی یہ شیٹس استعمال ہوتی ہیں۔ اب یہ یوکرین کے بجائے کسی اور ملک سے درآمد کی جارہی ہیں، اس سے تیار سامان کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔
جس سے براہ راست عام آدمی متاثر ہوگا۔ پاکستان کی معیشت میں اس وقت تعمیراتی صنعت ایک اہم مقام رکھتی ہے اور اس جنگ کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، وہیں یو کرین سے برآمد ہونے والی کئی اشیا کی قلت کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں اسٹیل کی مانگ بہت ہے۔ یو کرین اسٹیل سپلائی میں ایک نمایاں ملک ہے۔ یو کرین میں جنگ کے باعث سامان کی ترسیل کا عمل متاثر ہوا ہے۔ طلب و رسد کا توازن بگڑنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت ملک کی صورت حال ایسی نہیں کہ تعمیراتی صنعت پر مزید بوجھ ڈالا جا سکے۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تیسری دنیا اور غریب ممالک کے ساتھ امریکا بہادر بھی پریشان ہے اور وہاں بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر بائیڈن دنیا کو لاحق تمام پریشانیوں کا موردِ الزام اپنے روسی ہم منصب ولادیمر پوٹن کو قرار دے رہے ہیں، جنھوں نے جنگ چھیڑ کر تمام عالم کو مشکل میں مبتلا کردیا ہے۔ اب امریکی صدر نے امریکی تیل کمپنیوں کو بھی نشانے پر رکھ لیا ہے۔
جوبائیڈن نے تیل کمپنیوں کو حالیہ بحران کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارے منافع کمانے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانے سے گریز کررہے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اسرائیل توانائی کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ اور لبنان کے علاقوں سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس یورپ کو بیچنے کی تیاری کر رہا ہے۔
اگر یوکرین سے اشیائے خورونوش کی برآمدگی کو جنگ سے پہلے کی سطح پر بحال نہیں کیا گیا تو کچھ ممالک کو طویل مدت تک بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جنگ کے سبب یوکرین کی بندرگاہوںسے فراہمی میں تخفیف ہوئی ہے، جو کبھی بڑی مقدار میں کھانا پکانے کے تیل کے ساتھ ساتھ مکئی اورگیہوں جیسے اناج کی برآمدگی کرتا تھا۔ اس سے عالمی فراہمی کم ہو گئی ہے اور قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق عالمی غذائی قیمتیں گزشتہ سال کی یکساں مدت کے مقابلے میں تقریباً 30فیصد زیادہ ہیں۔ جنگ اور وبا کے سبب لاکھوں لوگوں کو غذائی بحران سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس اور یوکرین دنیا کی 30 فیصد گیہوں کی پیداوار کرتے ہیں۔ جنگ سے پہلے یوکرین کو دنیا کی روٹی کی ٹوکری کی شکل میں دیکھا جاتا تھا۔ وہ اپنے بندرگاہوں کے ذریعہ سے ماہانہ 45 لاکھ ٹن زرعی مصنوعات برآمد کرتا تھا۔ جب سے روس نے فروری میں اپنا حملہ شروع کیا تو برآمدگی گرگئی ہے اور قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کوچاہیے کہ وہ روس اور یوکرین کو مذاکرات کی میز پر بٹھائے ، جنگ بندی کروا کر مستقل اور پائیدار امن کے لیے کام کا آغاز کرے ، جب تک دنیا یہ مسئلہ حل نہیں کرلیتی ، آنے والے مہینوں میں عالمی غذائی بحران کے خطرے کا سامنا رہے گا۔
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے ترکی کے دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو میں روس اور یو کرین جنگ کے باعث اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ یو کرین اور روس سے زیادہ خوراک اور کھاد حاصل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ اجناس کی منڈیوں میں مزید سکون آئے اور صارفین کے لیے ان کی قیمتیں کم ہوسکیں ، جب کہ گزشتہ برس ترکیہ اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جو معاہدہ طے پایا تھا،اس کے تحت یوکرین سے پہلی کھیپ ترکیہ پہنچ گئی ہے۔
رواں برس چوبیس فروری کو جب روسی فوج نے یو کرین پر دھاوا بولا ، اس وقت روس کو یقین تھا کہ عسکری کارروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائے گی ، لیکن چھ ماہ گزر جانے کے باوجود یہ خونریز جنگ جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
روس یو کرین جنگ کے منفی اثرات سے عالمی معیشت بری طرح متزلزل ہوگئی ہے ، جس کا اثر صرف ایشیا یا افریقہ کے غریب ممالک پر ہی نہیں پڑ رہا ہے بلکہ دنیا کے سامنے ایک مثال سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں سامنے آچکی ہے اور یورپی ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد وہاں کے عوام کی مشکلات بڑھ چکی ہیں ۔
دنیا گزشتہ دو سال تک کورونا جیسی عالمی وبا سے نبرد آزما ہوکر لاک ڈاؤن کے باعث بد ترین معاشی بحران کا شکار ہونے کے بعد دوبارہ معاشی استحکام کی طرف لوٹ رہی تھی کہ رواں سال کے آغاز میں روس یوکرین جنگ نے اس معاشی بحران کو دوچند کر دیا ہے، دنیا بھر میں بڑھتے مہنگائی کے رجحان نے اس کرہ ارض پر غذائی قلت کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔
یورپی شہریوں نے فالتو اخراجات سے بھی ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا ہے ، جس کے بعد اب وہ صرف ضروری اشیا کی خریداری پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ افراطِ زر میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اب اشیائے خورونوش کی منڈیوں اور تیل کے ساتھ ساتھ کارسازی اور تعمیرات کے شعبوں میں بھی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے اور اب امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں برس 27 رکنی یورپی یونین کو مجموعی طور پر 7 فیصد سے زائد افراطِ زر کا سامنا ہوگا۔ مختلف یورپی ممالک میں مچھیروں اور کسانوں نے مجموعی مہنگائی کے تناظر میں اپنی پیداوار میں اضافہ کر دیا ہے تو دوسری جانب پٹرول کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے مال بردار ریل گاڑیوں اور سامان بردار ٹرکوں کی نقل و حرکت میں بھی کمی آئی ہے۔
خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے روزمرہ استعمال کے لیے روٹی کی مختلف اقسام بھی مہنگی ہوچکی ہیں اور خاص طور پر پولینڈ سے بیلجیم تک اشیائے خورونوش کی دکانوں پر بریڈ مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ، پولینڈ میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 150 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے جس کے بعد بعض یورپی حکومتوں نے ٹیکسوں کی مد میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی امداد کے اشارے بھی دیے ہیں۔
اس جنگ نے توانائی اور خوراک کے حوالے سے ساری دنیا کو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک جہاں امریکا نواز حکومتیں قائم ہیں وہاں روسی تیل حزب اختلاف کے لیے ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اپنے دورہِ ماسکو میں وہ روسی خام تیل رعایتی دام پر خریدنے کا معاہدے کرچکے تھے لیکن نئی حکومت نے امریکی دباؤ پر یہ سودا منسوخ کردیا۔ یہ بحث اس قدر شدت اختیار کرگئی کہ روس کے قونصل جنرل آندرے فیڈروف کو اس کی وضاحت کرنی پڑی۔ انھوں نے اخباری نمایندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس میں تیل کی خریداری پر گفتگو تو ہوئی لیکن پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں سرکاری خط و کتابت نہیں ہوئی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب روس اور یوکرین سے ایکسپورٹ ہونے والی دیگر اشیا کی طلب و رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ایسی صورت حال میں پاکستان کے صنعت کار بھی پریشانی کا شکار ہیں۔
تیل ، گندم اورا سٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں خام مال کی قیمت میں اضافے سے کئی شعبے براہ راست متاثر ہوئے ہیں، یوکرین سے اسٹیل آئٹمز درآمد ہوتی ہیں ، روس یو کرین کی جنگ سے پاکستان کی مقامی کئی صنعتوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں یوکرین سے اسٹیل درآمد کیا جاتا ہے، جو معیار کے اعتبار سے اچھا اور قیمت کے حساب سے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے۔ موجودہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ پاکستان کے لیے یو کرین کی مارکیٹ ایک اچھی مارکیٹ ہے۔ جہاں سے اشیائے خورونوش اورا سٹیل سمیت دیگر خام مال اچھے دام میں مل جاتا ہے۔
یہ دو بڑی قوتوں کی جنگ ہے لیکن اس کے اثرات نہ صرف یو کرین کو برداشت کرنا پڑرہے ہیں بلکہ کئی اور ممالک بھی متاثر ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، فارما، آئرن، اسٹیل، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کار پیٹ ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ یو کرین سے درآمد اسٹیل تعمیراتی شعبے کے علاوہ بھی اسٹیل شیٹس کئی شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ شیٹس پائپ بنانے میں کام آتی ہیں، اس کے علاوہ آٹو پارٹس میں بھی یہ شیٹس استعمال ہوتی ہیں۔ اب یہ یوکرین کے بجائے کسی اور ملک سے درآمد کی جارہی ہیں، اس سے تیار سامان کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔
جس سے براہ راست عام آدمی متاثر ہوگا۔ پاکستان کی معیشت میں اس وقت تعمیراتی صنعت ایک اہم مقام رکھتی ہے اور اس جنگ کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، وہیں یو کرین سے برآمد ہونے والی کئی اشیا کی قلت کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں اسٹیل کی مانگ بہت ہے۔ یو کرین اسٹیل سپلائی میں ایک نمایاں ملک ہے۔ یو کرین میں جنگ کے باعث سامان کی ترسیل کا عمل متاثر ہوا ہے۔ طلب و رسد کا توازن بگڑنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت ملک کی صورت حال ایسی نہیں کہ تعمیراتی صنعت پر مزید بوجھ ڈالا جا سکے۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تیسری دنیا اور غریب ممالک کے ساتھ امریکا بہادر بھی پریشان ہے اور وہاں بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر بائیڈن دنیا کو لاحق تمام پریشانیوں کا موردِ الزام اپنے روسی ہم منصب ولادیمر پوٹن کو قرار دے رہے ہیں، جنھوں نے جنگ چھیڑ کر تمام عالم کو مشکل میں مبتلا کردیا ہے۔ اب امریکی صدر نے امریکی تیل کمپنیوں کو بھی نشانے پر رکھ لیا ہے۔
جوبائیڈن نے تیل کمپنیوں کو حالیہ بحران کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارے منافع کمانے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانے سے گریز کررہے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اسرائیل توانائی کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ اور لبنان کے علاقوں سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس یورپ کو بیچنے کی تیاری کر رہا ہے۔
اگر یوکرین سے اشیائے خورونوش کی برآمدگی کو جنگ سے پہلے کی سطح پر بحال نہیں کیا گیا تو کچھ ممالک کو طویل مدت تک بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جنگ کے سبب یوکرین کی بندرگاہوںسے فراہمی میں تخفیف ہوئی ہے، جو کبھی بڑی مقدار میں کھانا پکانے کے تیل کے ساتھ ساتھ مکئی اورگیہوں جیسے اناج کی برآمدگی کرتا تھا۔ اس سے عالمی فراہمی کم ہو گئی ہے اور قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق عالمی غذائی قیمتیں گزشتہ سال کی یکساں مدت کے مقابلے میں تقریباً 30فیصد زیادہ ہیں۔ جنگ اور وبا کے سبب لاکھوں لوگوں کو غذائی بحران سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس اور یوکرین دنیا کی 30 فیصد گیہوں کی پیداوار کرتے ہیں۔ جنگ سے پہلے یوکرین کو دنیا کی روٹی کی ٹوکری کی شکل میں دیکھا جاتا تھا۔ وہ اپنے بندرگاہوں کے ذریعہ سے ماہانہ 45 لاکھ ٹن زرعی مصنوعات برآمد کرتا تھا۔ جب سے روس نے فروری میں اپنا حملہ شروع کیا تو برآمدگی گرگئی ہے اور قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کوچاہیے کہ وہ روس اور یوکرین کو مذاکرات کی میز پر بٹھائے ، جنگ بندی کروا کر مستقل اور پائیدار امن کے لیے کام کا آغاز کرے ، جب تک دنیا یہ مسئلہ حل نہیں کرلیتی ، آنے والے مہینوں میں عالمی غذائی بحران کے خطرے کا سامنا رہے گا۔