ہم اور ہمارا معیار زندگی
ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہوا؟ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمارا وطن عزیز پاکستان ماشاء اللہ75 برس کا ہوچکا ہے، ہم اگرچہ اس کی پیدائش کے وقت کم سن تھے لیکن اُس وقت کی کچھ یادیں ایسی ہیں جو ہم زندگی بھر بھلا نہیں سکتے۔
ہمارے چشم تصور میں وہ ہولناک مناظر ابھی تک محفوظ ہیں جو ہم نے اس وقت دیکھے تھے جب یہ وطن معرضِ وجود میں آیا تھا۔اس وطن کی تخلیق کی خاطر جو عظیم قربانیاں دی گئی تھیں انھیں الفاظ میں بیان کرنا ناممکن کی جستجو ہے۔
ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہوا؟ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ آئیے 75ویں سالگرہ مناتے ہوئے ذرا اِس پر غور کریں اور جائزہ لیں کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور اب کہاں کھڑے ہوئے ہیں؟جن آدرشوں کو پیش نظر رکھ کر اِس وطن کے لیے جدوجہد کی گئی تھی وہ نہ صرف مِیلوں کوسوں دور ہیں بلکہ ہمارا رخ بھی اُس جانب نہیں۔سچ پوچھیے تو ہمارا حال یہ ہے کہ:
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
ہمارے عظیم قائد نے جو راستہ دکھایا تھا ہم اُس ڈگر سے ہٹ گئے ہیں اور ارضِ پاک کے اصل مسائل کو حل کرنے کے بجائے اِس کے وسائل کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کررہے ہیں جو سراسر زیادتی اور خیانت ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو ہم سے بعد آزاد ہوئے تھے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہم ہیں کہ باہمی اختلافات کے نرغہ سے باہر نہیں نکل پا رہے۔
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کی ترقی میں ہماری کارکردگی بہت زیادہ قابل ستائش ہو لیکن اِس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ہمارے پاس افرادی قوت بھی ہے اور جوہر قابل بھی۔ قدرت نے بھی ہمارے ساتھ کچھ کم فیاضی نہیں کی ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اہل اور مخلص قیادت میسر نہیں آرہی۔ہمارے سیاستدان اور ارباب بست و کشاد کو سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ سے ہی فرصت نہیں۔
عوام پر کیا گزر رہی ہے اِس سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ہمارا سیاسی نظام ناقص اور ناکارہ ہے اور ریاست و سیاست کی باگ ڈور اُن ہاتھوں میں ہے جنھیں عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی نسبت اور دلچسپی نہیں ہے۔بیچارے عوام کو تو محض کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں پر بہلایا اور ٹرخایا جاتا ہے۔
ہمارے عوام کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آئیے اُس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ پاکستان بیورو برائے شماریات نے اپنے ایک سروے میں بڑی تفصیل سے گھریلو حالات اور معاملات کا جائزہ لیا ہے۔گھر پیارا گھر جنت ہوتا ہے۔ہمارے 52 فیصد مکانات ایک کمرے پر مشتمل ہیں لیکن صورتحال اتنی بھی خراب اور افسوس ناک نہیں ہے۔ 2014-2015 کے اعداد و شمار کے مطابق یہ 28 فیصد تھی۔
زیادہ تر مکانات (69 فیصد) دو سے چار کمروں پر مشتمل ہیں۔پانچ اور اِس سے زیادہ کمروں کے مکانات کا حصہ 6 فیصد ہے۔شہید بینظیر آباد ڈسٹرکٹ میں سب سے زیادہ(78 فیصد) مکانات ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔سندھ کی صورتحال بدترین ہے جہاں ایک کمرے کے مکانات کی تعداد (35.6 فیصد) سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد بلوچستان(23.3 فیصد)، پنجاب(22.6 فیصد) اور کے پی کے (16.3 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ ہمارے تقریباً آدھے مکانات صابن سے ہاتھ دھونے کی جگہ سے محروم ہیں۔54 فیصد گھروں میں یہ جگہ موجود ہے۔
ہمارے دس فیصد گھر بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں، جب کہ بغیر فلش والے بیت الخلاء 7 فیصد ہیں۔بلوچستان میں 17فیصد مکانات میں بیت الخلاء ناپید ہے۔ کے پی کے میں اِس کی شرح گیارہ فیصد اور سندھ اور پنجاب میں نو فیصد ہے۔زیادہ تر گھروں میں گندے پانی کی نکاسی کی سہولت میسر نہیں ہے جو کہ 73فیصد ہے۔
صرف 27 فیصد کو یہ سہولت حاصل ہے۔36 فیصد گھر نکاسی آب کے نظام سے محروم ہیں جب کہ 35 فیصد گھر کھلی نالیوں کے نظام سے منسلک ہیں اور 6 فیصد ڈھکی ہوئی نالیوں سے ملحق ہیں۔صرف 18 فیصد گھروں کا کچرا اور فضلہ میونسپلٹی اٹھاتی ہے۔زیادہ تر(28 فیصد) گھر اپنا کوڑا کرکٹ کھلی جگہوں، سڑکوں، گلیوں اور کچرا کنڈی میں پھینکتے ہیں۔
ہم اپنے پیارے وطن کی صورتحال کو کیسے بیان کریں؟ہر جگہ جا بجا کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔(53 ملین) 6.8 فیصد گھرانوں کو کچرا گلیوں میں پھینکنے کی عادت ہے۔اس کا سب سے بڑا حصہ (اکیاون فیصد) صوبہ سندھ میں پایا جاتا ہے۔زیادہ تر (93 فیصد)گھروںکی چھتیں لوہے اور گارڈر سے بنی ہوئی ہیں۔جب کہ لکڑی اور بانس کی چھتیں(بتیس فیصد) اور شیٹ اور دوسرے لوازمات سے بنی چھتیں پانچ فیصد ہیں۔
صوبہ سندھ میں لکڑی اور بانس سے بنی چھتوں کا حصہ 28.7 فیصد ہے۔ زیادہ تر گھروں کی دیواریں (80 فیصد) اینٹوں سے بنی ہیں جب کہ مٹی کی دیواریں (اکیاون فیصد) اور لکڑی سے بنی دیواروں کی شرح پانچ فی صد ہے۔زیادہ تر گھرانے پینے کا پانی پمپ (موٹر پمپ تیس فیصد، ہینڈ پمپ بتیس فی صد) کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔
صرف بائیس فی صد کو نل کا پانی میسر ہے۔دس فیصد گھروں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے جب کہ 4 فیصد پانی ٹینکر سے، کنوئیں سے تین فیصد اور دریاؤں اور جوہڑ سے دو فی صد گھرانے پانی حاصل کرتے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ ترقی کے ساتھ ہینڈ پمپ کی ضرورت کم ہوجائے گی لیکن سندھ میں اِس کی شرح 2014 - 2015 میں 34 فیصد سے بڑھ کر 2019-2020 میں 36 فیصد ہوگئی۔اس کے علاوہ سندھ میں نل کے پانی کے ذرایع 41 فیصد سے کم ہوکر ۵۳ فیصد ہوگئے ہیں۔
صفائی ستھرائی کے ابتر معیار اور حفظان صحت کے اصولوں کی مایوس کن صورتحال دیکھتے ہوئے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ہمارا ملک صحت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ہماری متوقع عمر 67 سال ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال اور سری لنکا میں متوقع عمر بالترتیب 73, 70,71 اور 77 سال ہے۔پاکستان میں بچوں کی شرح اموات 35 فی صد ہے جو کہ کافی زیادہ ہے۔ انڈیا میں یہ شرح 93، بنگلہ دیش میں 23، ترکی میں 18 اور ایران میں 16 ہے۔
غذائی تحفظ کے معاملے میں سب گھر خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ کورونا کی پہلی لہر کے دوران 40 فیصد گھرانے غذائی طورپر غیر محفوظ ہوگئے کیونکہ اُن کو صحت مند اور معیاری غذا تک رسائی حاصل نہ تھی۔مالیاتی سال 2019-2020 کے دوران 16 فیصد گھرانوں کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا تھا جب کہ 84 فیصد غذائی طور پر محفوظ رہے۔
ہماری تعلیمی کارکردگی ہمارے معیارزندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ہماری شرح خواندگی 60 فیصد ہے۔ دیگر ممالک کے شرح خواندگی میں انڈیا 74 فیصد، بنگلہ دیش 75 فیصد، ایران 86 فیصد اور چین میں 97 فیصد ہے۔ہمارے شرح خواندگی کے کم ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے 32 فیصد بچوں کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں۔یہ کم شرح خواندگی بلوچستان میں 47 فیصد، سندھ میں 44 فیصد، کے پی کے 30 فیصد اور پنجاب 24 فیصد ہے،دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کی صورتحال بہتر ہے۔