شرح سود میں کمی نہ کیے جانے پر کاروباری برادری مایوس
معاشی بہتری کے ثمرات عوام کومنتقل کیے جائیں،پالیسی سازوںکوسودمیں ایک تا ڈیڑھ فیصدکمی کرنی چاہیے تھی
تجارتی وصنعتی حلقوں نے اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کم نہ کرنے پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود10 فیصد پر برقراررکھنے کے فیصلے سے تاجروں و صنعت کاروں کوزبردست مایوسی ہوئی ہے۔
وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان کے صدرزکریا عثمان نے کہا کہ گزشتہ 8 ماہ میں معیشت کی بہتری، ملکی پیداوار اورریونیو میں اضافے اورڈالر کی قدر میں کمی کے ثمرات کو عام آدمی تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے، کم شرح سود پر قرضوں سے تجارت و صنعت کاری کو فروغ ملے گا جبکہ پیداواری لاگت میں کمی سے اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی ہوسکے گی، ان زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازوں کو چاہیے تھا کہ وہ شرح سود میں کم ازکم ایک تا ڈیڑھ فیصد کی کمی کا اعلان کرتے۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبداللہ ذکی نے کہاکہ اب جبکہ ملکی معیشت میں بہتری آرہی ہے اور معاشی اشاریے بھی مثبت نظر آرہے ہیں ایسے میں مرکزی بینک کو شرح سود میں کمی کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور شرح سودمیں کم از کم ایک فیصد کمی کرتے ہوئے اسے 9فیصد کی سطح پر لایا جائے۔
تاکہ کاروباری لاگت میں کمی واقع ہو اور تاجر برادری کوبھی ریلیف حاصل ہو کیونکہ وہ پہلے ہی ڈالر کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے شدیدپریشانی کا شکارہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مجموعی طور پر جو پالیسیاں اختیار کی ہیں اس کے مثبت نتائج سامنے آناشروع ہو گئے ہیں خاص طورپر پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کم ہو کر 100روپے کے قریب آگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح بھی سنگل ڈیجٹ پر ہے، ایسے میں مرکزی بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کوئی ردوبدل نہ کرنا انتہائی مایوس کن ہے۔ انہوںنے نشاندہی کی کہ گزشہ 3ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں کمی حوصلہ افزا ہے جبکہ کنزیومرپرائس انڈیکس بھی نومبرمیں ڈبل ڈیجٹ سے کم ہو کر دسمبرمیں 9.2فیصد، جنوری میں7.91فیصد اورفروری میں 7.93فیصد رہا، اسی طرح جنوری سے اب تک روپے کی قدر میں 7فیصدبہتر ی آئی، اس کے باجود زری پالیسی میں تاجر برادری کو ریلیف نہیں دیاگیا۔
وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان کے صدرزکریا عثمان نے کہا کہ گزشتہ 8 ماہ میں معیشت کی بہتری، ملکی پیداوار اورریونیو میں اضافے اورڈالر کی قدر میں کمی کے ثمرات کو عام آدمی تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے، کم شرح سود پر قرضوں سے تجارت و صنعت کاری کو فروغ ملے گا جبکہ پیداواری لاگت میں کمی سے اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی ہوسکے گی، ان زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازوں کو چاہیے تھا کہ وہ شرح سود میں کم ازکم ایک تا ڈیڑھ فیصد کی کمی کا اعلان کرتے۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبداللہ ذکی نے کہاکہ اب جبکہ ملکی معیشت میں بہتری آرہی ہے اور معاشی اشاریے بھی مثبت نظر آرہے ہیں ایسے میں مرکزی بینک کو شرح سود میں کمی کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور شرح سودمیں کم از کم ایک فیصد کمی کرتے ہوئے اسے 9فیصد کی سطح پر لایا جائے۔
تاکہ کاروباری لاگت میں کمی واقع ہو اور تاجر برادری کوبھی ریلیف حاصل ہو کیونکہ وہ پہلے ہی ڈالر کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے شدیدپریشانی کا شکارہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مجموعی طور پر جو پالیسیاں اختیار کی ہیں اس کے مثبت نتائج سامنے آناشروع ہو گئے ہیں خاص طورپر پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کم ہو کر 100روپے کے قریب آگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح بھی سنگل ڈیجٹ پر ہے، ایسے میں مرکزی بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کوئی ردوبدل نہ کرنا انتہائی مایوس کن ہے۔ انہوںنے نشاندہی کی کہ گزشہ 3ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں کمی حوصلہ افزا ہے جبکہ کنزیومرپرائس انڈیکس بھی نومبرمیں ڈبل ڈیجٹ سے کم ہو کر دسمبرمیں 9.2فیصد، جنوری میں7.91فیصد اورفروری میں 7.93فیصد رہا، اسی طرح جنوری سے اب تک روپے کی قدر میں 7فیصدبہتر ی آئی، اس کے باجود زری پالیسی میں تاجر برادری کو ریلیف نہیں دیاگیا۔