سیاسی اختلافات ذاتی دشمنی کیوں
آئینی طور پر اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد صدر عارف علوی چاہتے تو متوازن کردار ادا کرسکتے تھے
صدر عارف علوی نے ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی خاطر عمران خان اور وزیر اعظم شہباز شریف سے بات کرنے کو تیار ہوں۔ وزیر اعظم شہباز شریف متعدد بار میثاق معیشت پر بات کرنے کی پیشکش کرچکے ہیں۔
وزیر اعظم بننے سے پہلے بحیثیت اپوزیشن لیڈر بھی وہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں وہ یہ پیشکش کرچکے تھے جس پر عمران خان نے مسترد کردیا تھا اور اب نئی پیشکش کے جواب میں فواد چوہدری اور اسد عمر نے حسب سابق یہ پیشکش ٹھکرا دی بلکہ میثاق معیشت کے خیال کو احمقانہ قرار دیا اور کہا کہ امپورٹڈ حکومت خود چند ہفتوں کی مہمان ہے ،اس حکومت کی تباہ کن معاشی پالیسیوں کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔
ایک ٹاک شو میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا ہے کہ میثاق معیشت پر عمل سے ہی موجودہ ملکی مسائل حل ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ عمران خان اس سلسلے میں قدم بڑھائیِں، ہم ان کے ساتھ ہیں، مگر عمران خان نے اپنے اقتدار میں اپوزیشن رہنماؤں کو مسترد کیا تھا اور اب وہ خود اپوزیشن میں ہیں اور حکومت انھیں بار بار میثاق جمہوریت کی پیشکش کر رہی ہے مگر وہ میں نہ مانوں کی اپنی سابقہ پالیسی پر قائم ہیں۔
صدر مملکت نے صرف یہ کہا ہے کہ میں وزیر اعظم شہباز شریف اور عمران خان سے بات کرنے کو تیار ہوں البتہ سیاستدانوں کو کلاس روم کی طرح بٹھایا نہیں جاسکتا۔ صدر کا یہ بیان ان کی مجبوری ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس پوزیشن ہی میں نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے نو منتخب وزیر اعظم شہباز شرف سے حلف نہیں لیا تھا جس سے ان کی مکمل جانبداری ثابت ہوگئی تھی۔
جب کوئی شخص صدر منتخب ہوجاتا ہے تو اس کی غیر جانبداری کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ،کیونکہ وہ اپنی پارٹی کا نہیں ملک کا صدر تصور ہوتا ہے مگر صدر عارف علوی نے خود کو متنازعہ بنالیا تھا۔ سپریم کورٹ واحد ادارہ سمجھا جاسکتاہے جو موجودہ سیاسی صورت حال میں کردار ادا کرکے مسائل کا حل نکال سکتا ہے مگر اب ایسا بھی ممکن نہیں رہا ۔
ایسی صورت حال میں سپریم کورٹ بھی کردار ادا نہیں کرے گی۔ فوج سیاست سے دوری کا اعلان کرچکی اور عمران خان کسی صورت موجودہ حکمرانوں کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں اور وہ حکومت کے ساتھ میثاق معیشت پر بات کرنے سے انکار کرچکے تو باقی کون سا ادارہ رہ جاتا ہے جو ملک کے سیاستدانوں کو ایک جگہ بٹھا سکے؟
عمران خان موجودہ حکمرانوں کو چور، ڈاکو کہنے سے باز نہیں آ رہے اور حکمرانوں کے ذاتی دشمن بنے ہوئے ہیں، ایسے میں یہ بھی حل ہے کہ سپریم کورٹ جلد فیصلے کرائے کہ کون چور ڈاکو ہے یا ان پر جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جو بھی چور، ڈاکو یا جھوٹا ہے اس کا عدالتی فیصلہ ہی ملکی سیاست کے اس اہم مسئلے کو حل کراسکتا ہے۔
چور، ڈاکو کو سزا یا بریت اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کی عدالتی سرزنش سے ممکن ہے کہ سیاست میں ذاتی دشمنی ختم ہو سکے اور سیاست میں جھوٹے الزامات کی روک تھام ہو جائے۔ یہ کام صرف عدلیہ ہی کرسکے گی اور ممکنہ عدالتی فیصلوں میں انصاف نظر آنا ضروری ہوگا ورنہ عدالتی فیصلے متنازع اور جانبدارانہ کہلاتے رہیں گے۔
آئینی طور پر اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد صدر عارف علوی چاہتے تو متوازن کردار ادا کرسکتے تھے مگر انھوں نے نو منتخب وزیر اعظم سے حلف نہ لے کر اپنی پوزیشن خراب کرلی تھی جس کی تائید ان کے اس وقت کے گورنر پنجاب نے کی تھی جس کا بدلہ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ گورنر پنجاب نے پرویز الٰہی سے حلف نہ لے کر کیا جو ان کا نامناسب فیصلہ تھا مگر اس کی ابتدا خود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت اور گورنر پنجاب نے کی تھی۔
ملک میں پہلی بار یہ ہوا کہ چیئرمین سینیٹ نے نو منتخب وزیر اعظم سے جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے گورنر ہاؤس لاہور آ کر نو منتخب وزیر اعلیٰ سے اور گزشتہ ماہ صدر مملکت نے اسلام آباد میں ایوان صدر میں رات کے دو بجے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے سپریم کورٹ کے حکم پر حلف لیا اور پنجاب کا عدالتی حکم پر منتخب قرار دیا جانے والا اپنے ہی صوبے میں حلف نہ اٹھا سکا تھا۔
جہاں ملک میں سیاسی صورت حال اس قدر بدتر ہو جہاں عمران خان اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے نکلنے کے بعد اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں اور موجودہ حکمرانوں سے بیٹھ کر میثاق معیشت تو کیا، ان کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوں تو میثاق معیشت کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ صدر مملکت تو حکومت اور عمران خان کو ساتھ بٹھانے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہیں ۔ پارلیمنٹ اپنا اثر کھو چکی ہو ، وہاں صرف سپریم کورٹ واحد اہم ادارہ رہ جاتا ہے جو معاملات کو ٹھیک کرسکتا ہے۔