سانحہ کراچی دن بھر جنازے اٹھتے رہے ہر طرف کہرام

اورنگی اور بلدیہ ٹاؤن میں ماموں بھانجے، بہن بھائی اور2سگے بھائیوں کے جنازے فیکٹری کے باہر تصویریں لیے ورثا روتے رہے


Staff Reporter September 14, 2012
تقریباً 70 لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے، جمعرات کو کسی بھی سرکاری اسپتال میں بلدیہ ٹائون سے کوئی لاش نہیں لائی گئی۔. فوٹو اے ایف پی

WASHINGTON: بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں ہولناک آتشزدگی کے دوران جان کی بازی ہارنے والے محنت کشوں کی تدفین کا سلسلہ جمعرات کو دن بھر جاری رہا۔

شہر کے مختلف علاقوں سے جاں بحق ہونے والوں کے جنازے اٹھائے جاتے رہے، سپردخاک کیے جانے والوں میں دو سگے بھائی، بہن بھائی اور ماموں بھانجا بھی شامل تھے، اس موقع پر رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے، شہر میں سوگ کی فضا برقرار ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو اورنگی ٹاؤن سیکٹر10حنیف آباد کے رہائشی 2 سگے بھائیوں 26 سالہ عبداﷲ اور 23 سالہ صمد ولد عبدالرحمٰن کی نمازجنازہ بعد نمازظہر جامع مسجد ارباب میں ادا کی گئی جس میں متوفین کے اہلخانہ، دوست احباب، رشتے داروں اور اہل محلہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی بعد نماز جنازہ متوفین کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ حنیف آباد قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

اس موقع پر کئی رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے متوفین کے قریبی رشتے دار ارشاد اﷲ نے بتایا کہ دونوں بھائی غیر شادی شدہ اورگزشتہ2 سال سے مذکورہ فیکٹری میں کام کر رہے تھے، فیکٹری میں آتشزدگی کے دوران جل کر جاں بحق ہونے والے 18 سالہ محمد شبہاز ولد مطیع اﷲ کی میت جب اس کی رہائش گاہ اورنگی ٹاؤن سیکٹر 11 اسلام نگر پہنچی تو علاقے میں کہرام مچ گیا، خواتین شدت غم سے نڈھال ہوگئیں جبکہ پورے علاقے میں سوگ کی فضا چھائی رہی، متوفی نے اپنی والدہ سے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ پائی پائی جوڑ کر انھیں عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھیجے گا تاہم وہ اپنا یہ ارمان دل میں لیے ہی خالق حقیقی سے جا ملا۔

شہباز کی نماز جنازہ بعد نمازعصر جامع مسجد قبا میں ادا کی گئی اور بعدازاں توحیدکالونی کے جنت البقیع قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، متوفی5 بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا ، اورنگی ٹاؤن سیکٹر16گلشن بہارکے رہائشی 36 سالہ بدر محمد ولد نور محمد اور اس کابھانجا 21 سالہ نورعالم ولد شمیم بھی سیکڑوں انسانی جانوں کو نگل جانے والی گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے، ماموں بھانجے کے جنازے اٹھنے پر علاقے میں کہرام برپا ہوگیا اور خواتین دھاڑیں مار مارکر روتے ہوئے بے ہوش ہوگئیں اور موقع پر بھی کئی رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے۔

بعدازاں دونوں کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر گلشن بہار اقصیٰ مسجد میں ادا کی گئی جس کے بعد انھیں گلشن بہار قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ گارمنٹس فیکٹری میں بے بسی کی موت کا شکار ہونے والوں میں اورنگی ٹاؤن سیکٹر ساڑھے گیارہ غازی آبادکے رہائشی 25 سالہ سونی زوجہ شمیم اوراس کا 20 سالہ بھائی فرحان ولد عالمگیر بھی شامل ہیں، اہلخانہ کے مطابق سونی ایک بچی کی ماں ہے اور ایک ہفتہ قبل ہی فیکٹری میں ملازمت اختیار کی تھی ، دونوں بھائی اور بہن کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر جامع مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئی اور بعدازاں انھیں درجنوں سوگواروں کی موجودگی میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ غازی آباد قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

جاں بحق ہونے والے متحدہ قومی موومنٹ اورنگی سیکٹر یونٹ 118-A کے کارکن نبی حسین ولد علی حسین کی بھی نمازجنازہ اورنگی ٹاؤن سیکٹر ساڑھے گیارہ غازی آباد مسجد حضرت علیؓ میں ادا کی گئی اور بعدازاں اورنگی ٹاؤن غازی آباد قبرستان میں تدفین کردی گئی، نماز جنازہ میں متحدہ قومی موومنٹ رابطہ کمیٹی، تنظیمی کمیٹی کے اراکین سمیت عہدیداروں ، کارکنوں ، دوست احباب ، رشتے داروں اور اہل محلہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ اسی گلی کے رہائشی20 سالہ نادرعلی ولد عابد علی کی نماز جنازہ جمال مدینہ مسجد میں ادا کی گئی اور بعدازاں گلشن ضیا قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ، اہلخانہ کے مطابق متوفی گذشتہ 6 ماہ سے مذکورہ فیکٹری میں ملازمت کر کے اپنے بوڑھے والدین اور 5 چھوٹے بھائی و بہنوں کی کفالت کر رہا تھا۔

اورنگی ٹاؤن کے علاقے سیکٹر گیارہ توحیدکالونی کا رہائشی27 سالہ بلال احمد بھی گزشتہ2 سال سے اپنی 2 سالہ بیٹی، بیوی اور معذور ماں کی کفالت کے لیے گارمنٹس فیکٹری میں کام کر رہا تھا اور منگل کو وہ اپنی تنخواہ لینے کے لیے گیا تھا کہ فیکٹری میں لگنے والی ہولناک آتشزدگی کے باعث اپنی زندگی کی بازی ہار کر اپنے پیچھے بوڑھی ماں، بیوی اور بیٹی کو روتا چھوڑ کر چلا گیا۔ بلال احمد کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر ادا کیے جانے کے بعد مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے دوران جان بحق ہونے والے10افراد کی میتیوں ایدھی سرد خانے میں غسل اور کفن کے بعد اندرون ملک روانہ کر دی گئیں جس میں سے 2 میتیں بہاولپور جبکہ 8 میتیوں کو مستونگ روانہ کیا گیا۔

علاوہ ازیں بلدیہ ٹاؤن کے رہائشی اقبال گھانچی کی نماز جنازہ بعد نماز عصر بلدیہ ٹاؤن نمبر ساڑھے چار مدینہ مسجد میں ادا کی گئی اور بعدازاں انھیں مواچھ گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا جبکہ گارمنٹس فیکٹری کی آگ میں جھلس کر جاں بحق ہونے والے بلدیہ ٹاؤن کے محنت کشوں کی بھی نماز جنازہ مقامی مساجد میں ادا کی گئی اور بعدازاں انھیں مواچھ گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ دوسری جانب بدترین آگ پر تیسرے روز قابو پاتے ہوئے ریسکیوآپریشن مکمل کر لیاگیا۔ مزید کوئی لاش نہیں ملی تاہم کچھ انسانی اعضا ملے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے عزیز و اقارب کی بڑی تعداد تیسرے روز بھی اپنے پیاروں کی تلاش میں وہاں موجود تھی لوگ اپنے پیاروں کا کچھ پتہ نہ چلنے پر دھاڑیں مارمار کرروتے رہے اس موقع پر انتہائی رقت انگیز مناظر دیکھنے کو ملے۔

فائر بریگیڈ حکام نے فیکٹری کی بیسمنٹ سے بھی تمام پانی نکال دیا تاہم آگ کی حدت کے باعث امدادی کارکن زیادہ دیر تک بیسمنٹ میں نہ ٹھہر سکے۔ دن بھر میں فیکٹری ملازمین کا مختلف سامان چپلیں، جوتے اور دیگر اشیا بھی ملتی رہیں جوکہ وہاں قائم کیمپ میں جمع کی جاتی رہیں، امدادی کاموں میں پاک فوج کے جوانوں اور علاقہ مکینوں نے بھی حصہ لیا۔ لواحقین کی بڑی تعداد جائے حادثہ پر موجود رہی۔ بیشتر خواتین کی حالت غیر ہوگئی ، خواتین کی چیخ و پکار اور ان کے بین سے ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔

ادھر لاشیں ایدھی سرد خانے منتقل کیے جانے پر لواحقین کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی ، متعدد ورثا نے اپنے پیاروں کی لاشیں شناخت کیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث انھیں لاشیں مل نہ سکیں جس کے خلاف انھوں نے سہراب گوٹھ روڈ پر احتجاج کیا اور مظاہرہ کیا ، متحدہ کے رہنمائوں اور عہدیداروں کی جانب سے انتظامات سنبھالنے کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا۔ متعدد ورثا نے جب اپنے پیاروں کو شناخت کرلیا تو انھیں متعلقہ تھانے سے اجازت نامہ لانے کیلیے کہا گیا جس پر شہریوں نے احتجاج کیا اور سہراب گوٹھ سے ناگن چورنگی جانے اور آنے والے دونوں راستے ٹریفک کے لیے بند کردیے۔

بعدازاں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں اور علاقائی عہدیداروں نے فوری طور پر انتظامیہ سے رابطہ کیا جس کے بعد متعلقہ پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر وہاں تعینات کیا گیا۔ پولیس سرجن کمال شیخ نے کہا کہ شناخت نہ کی جانے والی لاشوں کے سیمپلز لے لیے گئے ہیں، اس سلسلے میں جناح اسپتال، سول اسپتال اور عباسی اسپتال میں سینٹرز قائم کردیے گئے ہیں ، تقریباً 70 لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے، جمعرات کو کسی بھی سرکاری اسپتال میں بلدیہ ٹائون سے کوئی لاش نہیں لائی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں