مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث پیٹرول پمپ پر ملازمت کرنے والی 24 سال کی باہمت لڑکی
ہر طرح کے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے، شہریوں کی حوصلہ افزائی پر ہمت اور خوشی بھی ملتی ہے، سمن
شہر قائد سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ سمن ایوب نے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری میں معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے پٹرول پمپ پر ملازمت کر کے خاندان کی کفالت کا بیٹرا اٹھا کر لڑکیوں کے لیے نئی مثال قائم کردی۔
سمن ایوب نے بتایا کہ پیٹرول پمپ پر فلنگ کی ملازمت کرنے پر خاندان کے لوگوں نے بہت تنقید کی مگر میں نے اُن کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر گھر کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کا مصمم ارادہ کیا۔
چوبیس سالہ سومن ایوب پٹرول پمپ پر ملازمت کر کے اپنا گھر چلا رہی ہے کورنگی کروسنگ کاز وے کی رہائشی 24 سالہ سمن ایوب نے بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیروزگاری میں معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کلفٹن کے پٹرول پمپ پر ملازمت کر کے کفالت کا بیٹرا اٹھا کر لڑکیوں کے لیے نئی مثال قائم کی ہے۔
انہوں نے کورونا وبا کے دوران گاڑیوں میں پیٹرول بھرنے کا کام سیکھا اور گزشتہ دو سال سے وہ اپنا کام بہت خوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔ اس حوالے سے سمن نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کووڈ میں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر2 سال قبل ماں باپ کا بیٹا بن کر معاشرتی روایات کو خاطر میں لائے بغیر پمپ پر ملازمت کر کے گھر کا سہارا بنی، ہم 5 بہنیں اور 1 بھائی ہیں، جو گھر میں والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور گھر میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے زمہ داریاں میں نے سنبھالے ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں مردوں کے شانہ بشانہ پٹرول پمپ پر پٹول فلنگ کرتی ہوں۔ سمن نے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ نرس بنیں پر حالات سازگار نہ ہونے کے باعث ان کو اپنے خواب کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔
سمن نے کہا کہ پہلے مجھے ٹریننگ دی گئی کیپ لگانا، فلنگ کرنا، کیش مشین کے زریعے لینا، گاہکوں کی گاڑیوں کو پیٹرول یا ڈیزل سے مطلوبہ سطح پر بھرنا، نقد رقم لینا اور ڈیلنگ کرنا سکھایا اس کے بعد سے میں اب سب کام کر لیتی ہوں۔
سمن کا کہنا تھا کہ تعلیم صرف میٹرک تک حاصل کرسکی خاندان والوں نے بھی کوئی مدد نہیں کی اور ان کٹھن حالات کو دیکھتے ہوئےعزم کیا، میں صبح 9 بجے گھر سے اکیلی رکشہ یا بس سے آکرشام 5 بجے تک گھر واپس چلی جاتی ہوں۔
سمن نے بتایا کہ جو لوگ پمپ پر پیٹرول کے لیے آتے ہیں عجیب باتیں کرتے ہیں سمن نے بتایا ''روز ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں کچھ اچھے تو کچھ برے، ہم خود اچھے ہوں تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا''۔
انہوں نے بتایا کہ پیٹرول پمپ پر ملازمت شروع کرنے کے بعد خاندان والوں نے بھی تنقید کی مگر میں اُن کی باتوں کو خاطر میں نہیں لائی کیونکہ کھاتے ہوئے کو کوئی دیکھ نہیں سکتا اور بھوکے کو کوئی دیتا نہیں ہے۔
سمن کے مطابق لوگ اُن کے والدین کو کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کو کیوں باہر نکالنے کی اجازت کیوں دی جس پر والدین تو نہیں بلکہ میں انہیں خود جواب دیتی ہوں؟
سمن نے بتایا کہ کبھی گاہک غصہ ہوتا ہے تو ہنس کر ٹال دیتی ہوں کیونکہ یہاں جذبات کو قابو کرنے کو کہا جاتا ہے غلطی گاہک کی ہو پھر بھی سننی پڑتی ہے " لوگ کہتے ہیں یہ پمپ پر کھڑے ہوکر کام کرنا مردوں کا کام ہے عورتوں کا اس میں کیا کام ''میں کہتی ہوں کہ محنت سے کماتی ہوں کسی سے مانگ کر گزارا نہیں کرتی''۔
سمن نے کہا کہ خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت لوگوں کو نظر انداز کرتی ہوں وہیں کچھ شہری ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے ہمت ملتی ہے۔
سمن ایوب نے بتایا کہ پیٹرول پمپ پر فلنگ کی ملازمت کرنے پر خاندان کے لوگوں نے بہت تنقید کی مگر میں نے اُن کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر گھر کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کا مصمم ارادہ کیا۔
چوبیس سالہ سومن ایوب پٹرول پمپ پر ملازمت کر کے اپنا گھر چلا رہی ہے کورنگی کروسنگ کاز وے کی رہائشی 24 سالہ سمن ایوب نے بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیروزگاری میں معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کلفٹن کے پٹرول پمپ پر ملازمت کر کے کفالت کا بیٹرا اٹھا کر لڑکیوں کے لیے نئی مثال قائم کی ہے۔
انہوں نے کورونا وبا کے دوران گاڑیوں میں پیٹرول بھرنے کا کام سیکھا اور گزشتہ دو سال سے وہ اپنا کام بہت خوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔ اس حوالے سے سمن نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کووڈ میں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر2 سال قبل ماں باپ کا بیٹا بن کر معاشرتی روایات کو خاطر میں لائے بغیر پمپ پر ملازمت کر کے گھر کا سہارا بنی، ہم 5 بہنیں اور 1 بھائی ہیں، جو گھر میں والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور گھر میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے زمہ داریاں میں نے سنبھالے ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں مردوں کے شانہ بشانہ پٹرول پمپ پر پٹول فلنگ کرتی ہوں۔ سمن نے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ نرس بنیں پر حالات سازگار نہ ہونے کے باعث ان کو اپنے خواب کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔
سمن نے کہا کہ پہلے مجھے ٹریننگ دی گئی کیپ لگانا، فلنگ کرنا، کیش مشین کے زریعے لینا، گاہکوں کی گاڑیوں کو پیٹرول یا ڈیزل سے مطلوبہ سطح پر بھرنا، نقد رقم لینا اور ڈیلنگ کرنا سکھایا اس کے بعد سے میں اب سب کام کر لیتی ہوں۔
سمن کا کہنا تھا کہ تعلیم صرف میٹرک تک حاصل کرسکی خاندان والوں نے بھی کوئی مدد نہیں کی اور ان کٹھن حالات کو دیکھتے ہوئےعزم کیا، میں صبح 9 بجے گھر سے اکیلی رکشہ یا بس سے آکرشام 5 بجے تک گھر واپس چلی جاتی ہوں۔
سمن نے بتایا کہ جو لوگ پمپ پر پیٹرول کے لیے آتے ہیں عجیب باتیں کرتے ہیں سمن نے بتایا ''روز ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں کچھ اچھے تو کچھ برے، ہم خود اچھے ہوں تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا''۔
انہوں نے بتایا کہ پیٹرول پمپ پر ملازمت شروع کرنے کے بعد خاندان والوں نے بھی تنقید کی مگر میں اُن کی باتوں کو خاطر میں نہیں لائی کیونکہ کھاتے ہوئے کو کوئی دیکھ نہیں سکتا اور بھوکے کو کوئی دیتا نہیں ہے۔
سمن کے مطابق لوگ اُن کے والدین کو کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کو کیوں باہر نکالنے کی اجازت کیوں دی جس پر والدین تو نہیں بلکہ میں انہیں خود جواب دیتی ہوں؟
سمن نے بتایا کہ کبھی گاہک غصہ ہوتا ہے تو ہنس کر ٹال دیتی ہوں کیونکہ یہاں جذبات کو قابو کرنے کو کہا جاتا ہے غلطی گاہک کی ہو پھر بھی سننی پڑتی ہے " لوگ کہتے ہیں یہ پمپ پر کھڑے ہوکر کام کرنا مردوں کا کام ہے عورتوں کا اس میں کیا کام ''میں کہتی ہوں کہ محنت سے کماتی ہوں کسی سے مانگ کر گزارا نہیں کرتی''۔
سمن نے کہا کہ خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت لوگوں کو نظر انداز کرتی ہوں وہیں کچھ شہری ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے ہمت ملتی ہے۔