ثوابوں کے مارے ہوئے
پچھترسال سے عذابوں کاایک تسلسل ہے جو ہم پر چل رہاہے کیوں کہ اس ملک میں جو کالانعام بستے ہیں
ہمیں تو ایسا لگ رہا ہے، جی ہاں لگ رہاہے، اب حقیقت میں ایسا ہی ہے یاہمارا وہم ہے جیسے سب کچھ اپنا ہی سرکھا گیاہو۔
دین، مذہب،ملک وقوم، شرافت اخلاق، رواداری... سب کچھ ختم ہوگیا ہو اورصرف ایک چیز دکھائی دے رہی ہو۔۔ ''گینگ وار'' اور یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ ایوری تھنگ ازفیئر، ان لو اینڈ وار۔ اوریہاں جنگ اور محبت یا نفرت ومحبت آپس میں گتھم گتھا ہو رہی ہوں،کرسی کی محبت اورایک دوسرے کی نفرت جسے عام زبان میں ''جنگ اقتدار''کہا جاتا ہے ۔زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا۔
بستیاں ڈھونڈ رہی ہیں انھیں ویرانوں میں
وحشتیں بڑھ گئیں حد سے تیرے دیوانوں میں
پچھترسال سے عذابوں کاایک تسلسل ہے جو ہم پر چل رہاہے کیوں کہ اس ملک میں جو کالانعام بستے ہیں اورمسلسل عدم استعمال سے ان کی کھوپڑیاں خالی ہاتھ ہانڈیاں بن چکی ہیں، اگر ان کھوپڑیوں میں کوئی بھی کچھڑی پکاسکتاہے، اسلام،نظام مصطفی،روٹی کپڑا مکان، قرض اتارو ملک سنوارو،اورنہ جانے اورکیاکیا۔اوراب کے جو دورگزرا ہے، گزرا تو نہیں ابھی خطرہ باقی ہے لیکن اب جتنا گزرا ہے۔
اس میں کیاکچھ نہیں ہے، کونسا گناہ عظیم ہے جو ثواب بنا کر نہیںکیا گیا،کونسی مقدس چیزہے جو بیچی نہیں گئی، کھائی نہیں گئی، وہ ایک شخص جسے باباجی ڈیموںوالی اورازخود نوٹس والی سرکارکہاجاتاہے جو ملک کو آگ لگا کر نہایت آرام سے کہیں ٹیلے پر بٹھا ہوگا، اس نے صرف اپنا ذاتی انتقام لینے کے لیے دنیا بھر کے گناہ گاروں کو صادق وامین بنایا، وہ شخص جو کھیل کے میدان سے آکر ملک کو گراونڈ اور سیاست کے ساتھ ساتھ مذہب کوکرکٹ بناگیا۔یہ کچھ کم گناہ تو نہیں ہے ،علامہ نے کہاہے ۔
ہے جرم ضغیفی کی سزا مرگ مفاجات ... اورہم کہیں گے۔ہے جرم بیوقوفی کی سزامرگ مسلسل۔ ایک مرتبہ ایک محفل میں کشمیرکاذکر جب چھڑ گیا تو بات پہنچی ''یک جہتی''تک جس کا شکار یہ بدنصیب کشمیری ہوچکے ہیں۔اسی طرح اس وقت بھی یہ سوال سامنے آگیاکہ آخر ان بدنصیب کشمیریوں سے ایسا کیاگناہ سرزد ہوا ہے جس کی سزا ختم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ بیچارے کشمیری اتنی استطاعت ہی نہیں رکھتے کہ کسی گناہ کاسوچ بھی سکیں۔
ان کو تو'' قوت لایموت ''کے پیچھے دوڑنے سے فرصت نہیں تو گناہ کبیرہ کاتو سوال ہی پیدانہیں ہوتا، البتہ چھوٹی چھوٹی بشری خطاؤں کی بات اورہے اوروہ کسی سے بھی ہوسکتی ہیں اوراس سوال کا جواب یہ آیا کہ کشمیریوں سے کوئی گناہ سرزدنہیں ہواہے بلکہ دوسروں سے جو ''ثواب'' سرزدہوتے ہیں، بیچارے کشمیری ان ''ثوابوں'' کا شکار ہیں۔ اس بات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتالیکن اکثرہوتا یہی ہے کہ بہت سارے لوگ چند لوگوں کے ثواب کی خاطرعذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اوریہی ہم پاکستانی عوام کے ساتھ بھی ہورہاہے جن کی گردنوں پر ''سر''کی جگہ ہانڈیاں بندھی ہوئی ہیں اوران میں کوئی بھی ثواب کی خاطر کوئی کھچڑی پکا لیتاہے، اب کھچڑی کوئی بھی ہو آگ کیسی بھی ہو لیکن ''پیندا''تو ہانڈی کا جلتا ہے۔
ثوابوں کے سلسلے میں ایک ثواب مارے کالطیفہ یاد آگیا ،اگلے زمانوں میں مواصلات کے ذرائع جب نہیں تھے تو اکثر باراتیں رات کو ٹھہرا دی جاتی تھیں، ایسی ہی ایک بارات کو دوسرے گاؤں میں ٹھہرنا پڑا، خوب خوب مرغن چرغن کھانے ٹھونسے گئے اورایک جگہ چارپائیاں ڈلواکر باراتی سلادیے گئے۔
ایک شخص کو پیاس لگی تو وہ چارپائیوں کے بیچ میں رکھے ہوئے گھڑے کے پاس گیا،پانی پی کر جب وہ کٹوراگھڑے کے اوپررکھنے لگا تو ہلکی سی آوازپیداہوئی، آوازسن کر ایک چارپائی سے آوازآئی، کون؟اس نے کہا، میں فلاں ہوں،اچھا تھوڑا ساپانی پلا،ثواب کی خاطر، اس نے پلادیا لیکن جب کٹورا رکھنے لگا تو ایک اورچارپائی سے آوازآئی،کون؟اس نے کہا میں فلاں ہوں ،تو کہا گیا تھوڑا پانی پلا،ثواب کی خاطر، اس نے یہ ثواب بھی کمالیالیکن پھر ثوابوں کاایک تانتابندھ گیا جب بھی کٹورارکھتا۔کسی نہ کسی چارپائی سے ثواب کی دعوت ملتی، ثواب کماتے کماتے ناک تک آگیاتھا جب اس مرتبہ آوازآئی کون؟تو اس نے کہا میں ہوں ،ثوابوں کا مارا ہوا۔
دین، مذہب،ملک وقوم، شرافت اخلاق، رواداری... سب کچھ ختم ہوگیا ہو اورصرف ایک چیز دکھائی دے رہی ہو۔۔ ''گینگ وار'' اور یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ ایوری تھنگ ازفیئر، ان لو اینڈ وار۔ اوریہاں جنگ اور محبت یا نفرت ومحبت آپس میں گتھم گتھا ہو رہی ہوں،کرسی کی محبت اورایک دوسرے کی نفرت جسے عام زبان میں ''جنگ اقتدار''کہا جاتا ہے ۔زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا۔
بستیاں ڈھونڈ رہی ہیں انھیں ویرانوں میں
وحشتیں بڑھ گئیں حد سے تیرے دیوانوں میں
پچھترسال سے عذابوں کاایک تسلسل ہے جو ہم پر چل رہاہے کیوں کہ اس ملک میں جو کالانعام بستے ہیں اورمسلسل عدم استعمال سے ان کی کھوپڑیاں خالی ہاتھ ہانڈیاں بن چکی ہیں، اگر ان کھوپڑیوں میں کوئی بھی کچھڑی پکاسکتاہے، اسلام،نظام مصطفی،روٹی کپڑا مکان، قرض اتارو ملک سنوارو،اورنہ جانے اورکیاکیا۔اوراب کے جو دورگزرا ہے، گزرا تو نہیں ابھی خطرہ باقی ہے لیکن اب جتنا گزرا ہے۔
اس میں کیاکچھ نہیں ہے، کونسا گناہ عظیم ہے جو ثواب بنا کر نہیںکیا گیا،کونسی مقدس چیزہے جو بیچی نہیں گئی، کھائی نہیں گئی، وہ ایک شخص جسے باباجی ڈیموںوالی اورازخود نوٹس والی سرکارکہاجاتاہے جو ملک کو آگ لگا کر نہایت آرام سے کہیں ٹیلے پر بٹھا ہوگا، اس نے صرف اپنا ذاتی انتقام لینے کے لیے دنیا بھر کے گناہ گاروں کو صادق وامین بنایا، وہ شخص جو کھیل کے میدان سے آکر ملک کو گراونڈ اور سیاست کے ساتھ ساتھ مذہب کوکرکٹ بناگیا۔یہ کچھ کم گناہ تو نہیں ہے ،علامہ نے کہاہے ۔
ہے جرم ضغیفی کی سزا مرگ مفاجات ... اورہم کہیں گے۔ہے جرم بیوقوفی کی سزامرگ مسلسل۔ ایک مرتبہ ایک محفل میں کشمیرکاذکر جب چھڑ گیا تو بات پہنچی ''یک جہتی''تک جس کا شکار یہ بدنصیب کشمیری ہوچکے ہیں۔اسی طرح اس وقت بھی یہ سوال سامنے آگیاکہ آخر ان بدنصیب کشمیریوں سے ایسا کیاگناہ سرزد ہوا ہے جس کی سزا ختم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ بیچارے کشمیری اتنی استطاعت ہی نہیں رکھتے کہ کسی گناہ کاسوچ بھی سکیں۔
ان کو تو'' قوت لایموت ''کے پیچھے دوڑنے سے فرصت نہیں تو گناہ کبیرہ کاتو سوال ہی پیدانہیں ہوتا، البتہ چھوٹی چھوٹی بشری خطاؤں کی بات اورہے اوروہ کسی سے بھی ہوسکتی ہیں اوراس سوال کا جواب یہ آیا کہ کشمیریوں سے کوئی گناہ سرزدنہیں ہواہے بلکہ دوسروں سے جو ''ثواب'' سرزدہوتے ہیں، بیچارے کشمیری ان ''ثوابوں'' کا شکار ہیں۔ اس بات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتالیکن اکثرہوتا یہی ہے کہ بہت سارے لوگ چند لوگوں کے ثواب کی خاطرعذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اوریہی ہم پاکستانی عوام کے ساتھ بھی ہورہاہے جن کی گردنوں پر ''سر''کی جگہ ہانڈیاں بندھی ہوئی ہیں اوران میں کوئی بھی ثواب کی خاطر کوئی کھچڑی پکا لیتاہے، اب کھچڑی کوئی بھی ہو آگ کیسی بھی ہو لیکن ''پیندا''تو ہانڈی کا جلتا ہے۔
ثوابوں کے سلسلے میں ایک ثواب مارے کالطیفہ یاد آگیا ،اگلے زمانوں میں مواصلات کے ذرائع جب نہیں تھے تو اکثر باراتیں رات کو ٹھہرا دی جاتی تھیں، ایسی ہی ایک بارات کو دوسرے گاؤں میں ٹھہرنا پڑا، خوب خوب مرغن چرغن کھانے ٹھونسے گئے اورایک جگہ چارپائیاں ڈلواکر باراتی سلادیے گئے۔
ایک شخص کو پیاس لگی تو وہ چارپائیوں کے بیچ میں رکھے ہوئے گھڑے کے پاس گیا،پانی پی کر جب وہ کٹوراگھڑے کے اوپررکھنے لگا تو ہلکی سی آوازپیداہوئی، آوازسن کر ایک چارپائی سے آوازآئی، کون؟اس نے کہا، میں فلاں ہوں،اچھا تھوڑا ساپانی پلا،ثواب کی خاطر، اس نے پلادیا لیکن جب کٹورا رکھنے لگا تو ایک اورچارپائی سے آوازآئی،کون؟اس نے کہا میں فلاں ہوں ،تو کہا گیا تھوڑا پانی پلا،ثواب کی خاطر، اس نے یہ ثواب بھی کمالیالیکن پھر ثوابوں کاایک تانتابندھ گیا جب بھی کٹورارکھتا۔کسی نہ کسی چارپائی سے ثواب کی دعوت ملتی، ثواب کماتے کماتے ناک تک آگیاتھا جب اس مرتبہ آوازآئی کون؟تو اس نے کہا میں ہوں ،ثوابوں کا مارا ہوا۔