سیلاب اور سرکار
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں عوام کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے
پاکستان بھر میں موسلادھار بارشوں اور دریاؤں میں آنے والے سیلاب نے غیر معمولی تباہی پھیلائی ہے۔ حالیہ مون سون نے بلوچستان اور سندھ میں بہت زیادہ تباہی پھیلائی ہے جب کہ جنوبی پنجاب کے دو اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں بھی شدید نقصانات ہو رہے ہیں' اسی طرح خیبرپختونخوا بھی شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے۔
وسطی اور شمالی پنجاب میں بھی شدید بارشیں ہو رہی ہیں تاہم یہاں نقصانات کی شدت کم ہے۔ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے' ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگلے روز سیلابی ریلے نے تحصیل تونسہ شریف کی بستی ببی میں 300 گھر زمین بوس کر دیے ۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ملک میں900کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ ترجمان پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق موسلادھار بارشوں کے باعث 26اگست تک ڈی جی خان کے پہاڑی علاقوں سے مزید پانی آنے کا خطرہ ہے۔
این ڈی ایم اے کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ طوفانی مون سون بارشوں سے ہزاروں افراد بے گھر، 830 جاں بحق اور 1348 زخمی ہو چکے۔ سندھ میں 395 فیصد اور بلوچستان میں 379 فیصد اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔صرف سندھ میں200سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے ہیں' 15 لاکھ کچے مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور 19 لاکھ 90 ایکڑ پرکھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔
کچے کے تمام علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔ پاک فوج نے ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے لیے 2 خصوصی ہیلی کاپٹرز کراچی سے دیہی سندھ کے بارشوں سے متاثرہ اضلاع میں بھیج دیے۔پاک فضائیہ اور بحریہ بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اسلام آباد میں یورپی یونین کے مشن نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین بلوچستان میں جھل مگسی اور لسبیلہ کے زیادہ متاثرہ اضلاع میں متاثرہ خاندانوں کے لیے پاکستان کو 7 کروڑ 60 لاکھ روپے فراہم کرے گا۔ وفاقی وزیر قومی صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ سیلاب زدگان کے لیے ڈونرز کا اجلاس بلا رہے ہیں۔
پراونشینل ڈائزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب نے اپنی رپور ٹ میں کہاہے کہ سیلاب میں پھنسے 38ہزار سے زائد افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا ہے،سیلابی علاقوں میں 70 ہزار کے قریب افراد کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں،سیلاب متاثرین کے لیے 99فلڈ ریلیف کیمپس قائم ہیں۔حکومت پنجاب کی ہدایات کے مطابق سیلاب متاثرین تک تین وقت کا کھانا اور صاف پانی سمیت دیگر ضروری سہولیات کی فراہمی کا عمل جاری ہے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطا بق سیلاب متاثرین کیہزاروںچھوٹے جانوروں کو بیماریوں سے بچاو کی ویکسین لگائی جا چکی۔اب تک تقریباً 40ہزار گھرانوں میں ایک ماہ کے لیے خشک راشن تقسیم کیا جا چکا۔دور دراز اور کٹھن علاقوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیلاب متاثرین تک خوراک پہنچانے کا عمل بھی جاری ہے۔
حکومت سندھ کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے سندھ کے بنیادی انفراسٹرکچر کو بری طرح متاثر کیا ہے، شدید بارشوں سے بنیادی ڈھانچے، سڑکیں، پل، انڈر پاسز، سیوریج سسٹم اور سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔رپورٹ کے مطابق جولائی سے اب تک 216 افراد جاں بحق اور 701 افراد زخمی ہوئے جب کہ 15 لاکھ کچے گھروں کو نقصان پہنچا جس کا تخمینہ 150 ارب روپے ہے۔
حکومت سندھ کے مطابق بارش اور سیلاب سے 27 لاکھ 53 ہزار 528 ایکڑ فصلوں کو نقصان پہنچا جب کہ 19 لاکھ 89 ہزار 868 ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں جس میں کاٹن، کھجور، گنا، چاول جب کہ خریف کی سبزیوں میں مرچ اور پیاز سمیت دیگر فصلیں شامل ہیں، فصلوں کی مد میں 185 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق صوبے میں 2281 کلومیٹر سڑکیں متاثر ہوئیں جس کا تخمینہ 22 ارب روپے ہے تاہم کراچی کی سڑکیں شامل کرکے تخمینہ شامل کیا جائے تو یہ 50 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
حکومت سندھ کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ملک کے مجموعی نقصانات کا تخمینہ 324 ارب روپے ہے جس میں صرف سندھ حکومت کا نقصانات کا تخمینہ 310 روپے تک پہنچ گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق صوبے میں 310 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے لیکن اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ابتدائی تخمینوں میں کراچی، حیدرآباد اور سکھرسمیت دیگر شہر شامل نہیں ہیں جس کے نقصانات کا تخمینہ شامل کیا جائے تو تخمینے میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں عوام کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔مراد علی شاہ نے سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاق نے وعدہ کیا ہے کہ سندھ کے لوگوں کو مشکل وقت میں نہیں چھوڑیں گے، سندھ کے لوگوں سے اپیل ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق متاثرین کی مدد کریں۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 3 بار آنا چاہا لیکن خراب موسم کے باعث نہ آسکے، مخیر حضرات سے اپیل کرتا ہوں 2010 کی طرح اب بھی مدد کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس وقت کم سے کم 10 لاکھ ٹینٹس کی ضرورت ہے۔2ملین ایکڑ سے زائد زمینوں پر فصلیں متاثر ہوئیں، 90فیصد کاشت کاروں کی فصلیں متاثر ہوئیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ بارش سے 23 اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں، بارشوں اور سیلاب سے 300 اموات ہوئیں جب کہ ایک ہزار افراد زخمی ہوئے، 15 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ متاثرین کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اگست میں600 فیصد سے زائد بارشیں ہوئیں، 30 کے قریب اموات ہوئیں، ایک کروڑ سے زائد لوگ گھروں سے باہر ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ پڈعیدن میں اس سال 1550ملی میٹر بارش ہوئی، ایسی سیلابی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی، رواں سال ریکارڈ بارشیں ہوئیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے قطر سے سیلاب متاثرین کے ریسکیو، ریلیف کے اقدامات کی نگرانی کی جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بارشوں کے نئے سلسلے کے پیش نظر ریسکیو اور ریلیف کا عمل تیز کرنے کی ہدایت کی ۔وزیراعظم نے ا ین ڈی ایم اے سمیت تمام متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو اشتراک عمل کے ساتھ کام کرنے کی ہدایت کی ۔
انھوں نے کہاکہ بارشوں کا ہے درپے سلسلہ سیلاب کی تباہی میں مزید اضافہ کر رہا ہے ،سیلاب سے لوگوں کا بہت نقصان ہوا ہے، ان کی مدد ہم سب کا فرض ہے۔ انھوں نے کہاکہ قدرتی آفت کا شکار علاقوں میں بحالی بڑا کام ہے، یہ اجتماعی کوشش سے ہی ممکن ہے ۔
وزیراعظم نے اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں، مخیر اداروں اور تنظیموں سے متاثرین کی مدد کے کام میں ہاتھ بٹانے کی اپیل کی ۔پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے ' لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت نے ایسے اداروں پر توجہ نہیں دی جو سیلاب ' زلزلے 'غیر معمولی بارشوں 'آندھی اور طوفان وغیرہ یا شمالی علاقوں میں غیر معمولی برف باری سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ پاکستان میں شدید بارشیں پہلی بار ہوئی ہیں اور نہ ہی یہ آخری بار ہے۔
اسی طرح ملک بھر کے دریاؤں میں بھی سیلاب آنا معمول کی بات ہے اور ایسا سال بھر میں ساون بھادوں کے مہینوں میں صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اصل مسئلہ گورننس کا ہے ۔ پاکستان میں جو حکومت بھی برسراقتدار آئی ' اس نے عوامی بھلائی کے منصوبوں پر توجہ ضرور دی لیکن گراس روٹ سطح پر تعمیر ہونے والے انفراسٹرکچر کی مینٹینس کے ذمے دار اداروں پر توجہ بالکل نہیں دی۔ مثلاً پورے ملک میں شہری حکومت کے ادارے زوال کی آخری سیڑھی پر ہیں۔
فائر بریگیڈ کا عملہ ضرور موجود ہے لیکن کھٹارا گاڑیاں اور ناقص مشینری اور غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کی وجہ سے یہ اہم ترین ادارہ اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکا ہے۔ کسی حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ بلند عمارتوں میں آگ کا بھڑک اٹھنا کوئی غیر معمولی امر نہیں ہے ' اسی طرح کسی پبلک مقام پر 'کسی تھیٹر وغیرہ میں بھی آگ بھڑک سکتی ہے ' مہذب حکومتیں اس حقیقت کو سامنے رکھ کر باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہیں اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے فائر بریگیڈادارے کو ضروری اور جدید مشینری اور تربیت یافتہ ملازمین سے لیس کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں انگریز کے قائم کیے گئے اس ادارے کا زوال پذیر ہونا ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی کی زندہ مثال ہے۔
اسی طرح دنیا بھر میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے مون سون سے قبل منصوبہ بندی کی جاتی ہے' محکمہ موسمیات اور اس سے متعلقہ محکموں کی رپورٹوں کولے کر صوبائی حکومت ضلعی حکومتوں' بلدیاتی' محکمہ آبی وسائل اور محکمہ انہار اور دیگر ریسکیو اداروں کے ساتھ مل کر باقاعدہ حکمت عملی تیار کر لی جاتی ہے۔
جن علاقوں میں سیلاب آنے کا امکان ہو 'وہاں سے آبادی کا انخلا پہلے ہی کر لیا جاتا ہے جب کہ کسانوں کو فصلوں کی بیجائی کے حوالے سے بریف کیا جاتا ہے تاکہ ان کی فصلیں ضایع نہ ہوں اور وہ اپنے مال مویشی کو پہلے ہی محفوظ مقامات تک پہنچا سکیںلیکن پاکستان میں جب ہر طرف تباہی پھیل جاتی ہے تو وزیراعظم 'وزرائے اعلیٰ 'وزراء اور صدر مملکت تک بیانات دے کر فارغ ہو جاتے ہیں یا پھر عالمی عطیات پر نظر رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں۔
وسطی اور شمالی پنجاب میں بھی شدید بارشیں ہو رہی ہیں تاہم یہاں نقصانات کی شدت کم ہے۔ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے' ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگلے روز سیلابی ریلے نے تحصیل تونسہ شریف کی بستی ببی میں 300 گھر زمین بوس کر دیے ۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ملک میں900کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ ترجمان پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق موسلادھار بارشوں کے باعث 26اگست تک ڈی جی خان کے پہاڑی علاقوں سے مزید پانی آنے کا خطرہ ہے۔
این ڈی ایم اے کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ طوفانی مون سون بارشوں سے ہزاروں افراد بے گھر، 830 جاں بحق اور 1348 زخمی ہو چکے۔ سندھ میں 395 فیصد اور بلوچستان میں 379 فیصد اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔صرف سندھ میں200سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے ہیں' 15 لاکھ کچے مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور 19 لاکھ 90 ایکڑ پرکھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔
کچے کے تمام علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔ پاک فوج نے ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے لیے 2 خصوصی ہیلی کاپٹرز کراچی سے دیہی سندھ کے بارشوں سے متاثرہ اضلاع میں بھیج دیے۔پاک فضائیہ اور بحریہ بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اسلام آباد میں یورپی یونین کے مشن نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین بلوچستان میں جھل مگسی اور لسبیلہ کے زیادہ متاثرہ اضلاع میں متاثرہ خاندانوں کے لیے پاکستان کو 7 کروڑ 60 لاکھ روپے فراہم کرے گا۔ وفاقی وزیر قومی صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ سیلاب زدگان کے لیے ڈونرز کا اجلاس بلا رہے ہیں۔
پراونشینل ڈائزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب نے اپنی رپور ٹ میں کہاہے کہ سیلاب میں پھنسے 38ہزار سے زائد افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا ہے،سیلابی علاقوں میں 70 ہزار کے قریب افراد کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں،سیلاب متاثرین کے لیے 99فلڈ ریلیف کیمپس قائم ہیں۔حکومت پنجاب کی ہدایات کے مطابق سیلاب متاثرین تک تین وقت کا کھانا اور صاف پانی سمیت دیگر ضروری سہولیات کی فراہمی کا عمل جاری ہے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطا بق سیلاب متاثرین کیہزاروںچھوٹے جانوروں کو بیماریوں سے بچاو کی ویکسین لگائی جا چکی۔اب تک تقریباً 40ہزار گھرانوں میں ایک ماہ کے لیے خشک راشن تقسیم کیا جا چکا۔دور دراز اور کٹھن علاقوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیلاب متاثرین تک خوراک پہنچانے کا عمل بھی جاری ہے۔
حکومت سندھ کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے سندھ کے بنیادی انفراسٹرکچر کو بری طرح متاثر کیا ہے، شدید بارشوں سے بنیادی ڈھانچے، سڑکیں، پل، انڈر پاسز، سیوریج سسٹم اور سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔رپورٹ کے مطابق جولائی سے اب تک 216 افراد جاں بحق اور 701 افراد زخمی ہوئے جب کہ 15 لاکھ کچے گھروں کو نقصان پہنچا جس کا تخمینہ 150 ارب روپے ہے۔
حکومت سندھ کے مطابق بارش اور سیلاب سے 27 لاکھ 53 ہزار 528 ایکڑ فصلوں کو نقصان پہنچا جب کہ 19 لاکھ 89 ہزار 868 ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں جس میں کاٹن، کھجور، گنا، چاول جب کہ خریف کی سبزیوں میں مرچ اور پیاز سمیت دیگر فصلیں شامل ہیں، فصلوں کی مد میں 185 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق صوبے میں 2281 کلومیٹر سڑکیں متاثر ہوئیں جس کا تخمینہ 22 ارب روپے ہے تاہم کراچی کی سڑکیں شامل کرکے تخمینہ شامل کیا جائے تو یہ 50 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
حکومت سندھ کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ملک کے مجموعی نقصانات کا تخمینہ 324 ارب روپے ہے جس میں صرف سندھ حکومت کا نقصانات کا تخمینہ 310 روپے تک پہنچ گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق صوبے میں 310 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے لیکن اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ابتدائی تخمینوں میں کراچی، حیدرآباد اور سکھرسمیت دیگر شہر شامل نہیں ہیں جس کے نقصانات کا تخمینہ شامل کیا جائے تو تخمینے میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں عوام کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔مراد علی شاہ نے سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاق نے وعدہ کیا ہے کہ سندھ کے لوگوں کو مشکل وقت میں نہیں چھوڑیں گے، سندھ کے لوگوں سے اپیل ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق متاثرین کی مدد کریں۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 3 بار آنا چاہا لیکن خراب موسم کے باعث نہ آسکے، مخیر حضرات سے اپیل کرتا ہوں 2010 کی طرح اب بھی مدد کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس وقت کم سے کم 10 لاکھ ٹینٹس کی ضرورت ہے۔2ملین ایکڑ سے زائد زمینوں پر فصلیں متاثر ہوئیں، 90فیصد کاشت کاروں کی فصلیں متاثر ہوئیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ بارش سے 23 اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں، بارشوں اور سیلاب سے 300 اموات ہوئیں جب کہ ایک ہزار افراد زخمی ہوئے، 15 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ متاثرین کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اگست میں600 فیصد سے زائد بارشیں ہوئیں، 30 کے قریب اموات ہوئیں، ایک کروڑ سے زائد لوگ گھروں سے باہر ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ پڈعیدن میں اس سال 1550ملی میٹر بارش ہوئی، ایسی سیلابی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی، رواں سال ریکارڈ بارشیں ہوئیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے قطر سے سیلاب متاثرین کے ریسکیو، ریلیف کے اقدامات کی نگرانی کی جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بارشوں کے نئے سلسلے کے پیش نظر ریسکیو اور ریلیف کا عمل تیز کرنے کی ہدایت کی ۔وزیراعظم نے ا ین ڈی ایم اے سمیت تمام متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو اشتراک عمل کے ساتھ کام کرنے کی ہدایت کی ۔
انھوں نے کہاکہ بارشوں کا ہے درپے سلسلہ سیلاب کی تباہی میں مزید اضافہ کر رہا ہے ،سیلاب سے لوگوں کا بہت نقصان ہوا ہے، ان کی مدد ہم سب کا فرض ہے۔ انھوں نے کہاکہ قدرتی آفت کا شکار علاقوں میں بحالی بڑا کام ہے، یہ اجتماعی کوشش سے ہی ممکن ہے ۔
وزیراعظم نے اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں، مخیر اداروں اور تنظیموں سے متاثرین کی مدد کے کام میں ہاتھ بٹانے کی اپیل کی ۔پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے ' لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت نے ایسے اداروں پر توجہ نہیں دی جو سیلاب ' زلزلے 'غیر معمولی بارشوں 'آندھی اور طوفان وغیرہ یا شمالی علاقوں میں غیر معمولی برف باری سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ پاکستان میں شدید بارشیں پہلی بار ہوئی ہیں اور نہ ہی یہ آخری بار ہے۔
اسی طرح ملک بھر کے دریاؤں میں بھی سیلاب آنا معمول کی بات ہے اور ایسا سال بھر میں ساون بھادوں کے مہینوں میں صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اصل مسئلہ گورننس کا ہے ۔ پاکستان میں جو حکومت بھی برسراقتدار آئی ' اس نے عوامی بھلائی کے منصوبوں پر توجہ ضرور دی لیکن گراس روٹ سطح پر تعمیر ہونے والے انفراسٹرکچر کی مینٹینس کے ذمے دار اداروں پر توجہ بالکل نہیں دی۔ مثلاً پورے ملک میں شہری حکومت کے ادارے زوال کی آخری سیڑھی پر ہیں۔
فائر بریگیڈ کا عملہ ضرور موجود ہے لیکن کھٹارا گاڑیاں اور ناقص مشینری اور غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کی وجہ سے یہ اہم ترین ادارہ اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکا ہے۔ کسی حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ بلند عمارتوں میں آگ کا بھڑک اٹھنا کوئی غیر معمولی امر نہیں ہے ' اسی طرح کسی پبلک مقام پر 'کسی تھیٹر وغیرہ میں بھی آگ بھڑک سکتی ہے ' مہذب حکومتیں اس حقیقت کو سامنے رکھ کر باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہیں اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے فائر بریگیڈادارے کو ضروری اور جدید مشینری اور تربیت یافتہ ملازمین سے لیس کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں انگریز کے قائم کیے گئے اس ادارے کا زوال پذیر ہونا ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی کی زندہ مثال ہے۔
اسی طرح دنیا بھر میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے مون سون سے قبل منصوبہ بندی کی جاتی ہے' محکمہ موسمیات اور اس سے متعلقہ محکموں کی رپورٹوں کولے کر صوبائی حکومت ضلعی حکومتوں' بلدیاتی' محکمہ آبی وسائل اور محکمہ انہار اور دیگر ریسکیو اداروں کے ساتھ مل کر باقاعدہ حکمت عملی تیار کر لی جاتی ہے۔
جن علاقوں میں سیلاب آنے کا امکان ہو 'وہاں سے آبادی کا انخلا پہلے ہی کر لیا جاتا ہے جب کہ کسانوں کو فصلوں کی بیجائی کے حوالے سے بریف کیا جاتا ہے تاکہ ان کی فصلیں ضایع نہ ہوں اور وہ اپنے مال مویشی کو پہلے ہی محفوظ مقامات تک پہنچا سکیںلیکن پاکستان میں جب ہر طرف تباہی پھیل جاتی ہے تو وزیراعظم 'وزرائے اعلیٰ 'وزراء اور صدر مملکت تک بیانات دے کر فارغ ہو جاتے ہیں یا پھر عالمی عطیات پر نظر رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں۔