نیویارک نیو جرسی اور واپسی

کینیڈا سے تشریف لانے والی شاعرہ شمسہ نقوی کے علاوہ چاروں شاعروں کا تعلق پاک و ہند سے تھا

Amjadislam@gmail.com

برادرم شاہد حیات سے چند برس قبل امریکا کی مشہور فلاحی تنظیم Helping Handکے توسط سے ملاقات ہوئی اور پھر یہ تعلق ہر آتے دن کے ساتھ مزید پختہ ہوتا چلا گیا، سو جونہی میں نے انھیں یہ بتایا کہ میں ''اپنا''کے مشاعرے کے سلسلے میں آنے کا ارادہ کر رہا ہوں تو انھوں نے فرمائش نماحکم صادرکردیا کہ مجھے ایک دن ان کی نئی تنظیم کی پروموشن کے لیے بھی نکالنا ہوگا جس کا بنیادی مقصد یتیم اور بے آسرا بچوں کی پاسداری اور ان کی تعلیم وغیرہ کا بندوبست کرنا ہے۔

میں نے عرض کیا چونکہ 23جولائی کو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق حلقہ اربابِ ذوق نیویارک کا سالانہ مشاعرہ ہے جس کے لیے میں برادرم ڈاکٹر سعید نقوی سے بالواسطہ شوکت فہمی وعدہ کرچکا ہوں تو اس سے ایک دن قبل ان کا مشاعرہ نما پروگرام اُسی شہرمیں مناسب نہیں ہوگا۔

انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اسے مشی گن، نیو جرسی یا کہیں اور لے جائیں گے مگرآخری نتیجہ یہی نکلا کہ انھیں بھی اپنا پروگرام نیویارک ہی میں کرنا پڑا اور اس پر مزید مسئلہ یہ ہوا کہ ان کا وینو بھی حلقے کی مشاعرہ گاہ کے بالکل قریب واقع تھا جو ظاہر ہے حلقے کے منتظمین کے لیے کوئی خوشگوار اطلاع نہیں تھی لیکن جب میں نے ڈاکٹرسعید نقوی کو واضح کیا کہ یہ سب کچھ ہماری کوشش کے باوجود ہوا ہے تو وہ صورتِ حال کو سمجھ گئے۔

شاہد حیات بھائی کے فنکشن کی سب سے قابلِ ذکر بات وہ رہائش گاہ تھی جو انھوں نے اپنے اور میرے لیے دو دن کے لیے بُک کروائی تھی یہ ایک مکان کا حصہ تھا جو مہمان خانے کے طور پر ہی تیار اور تعمیر کیاگیا تھا۔ یوں تو اس کی ہر چیز نہائت عمدہ اور تسلی بخش تھی مگر اس تک پہنچنے کے لیے جو چند سیڑھیاں بنائی گئی تھیں وہ اپنی جگہ پر ایک سوال تھیں کہ ایسی تنگ اور چھوٹی سیڑھیاں کم از کم میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں ۔

کورونا سے نمٹنے کے بعد میری بائیں ٹانگ میں ابھی تک اس کا اثر باقی تھا اور بالخصوص اُترنے چڑھنے میں مجھے خاصا مسئلہ ہوتا تھا جب کہ یہ سیڑھیاں اپنی جگہ پر بھی ایک مسئلہ تھیں، سو اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں نے کس طرح اس پُل صراط کو عبور کیا اس کے علاوہ ہر چیز بہت سلیقے کی تھی۔ مشاعرے میں میرے علاوہ شوکت فہمی اور خالدعرفان نے بھی اپنا کلام سنایا اور اس کے ساتھ ساتھ منتظمین کا وہ مشن بھی پورا ہوگیا کہ بہت سے احباب اس مشن سے واقف اور وابستہ ہوگئے۔ا س تقریب میں خصوصی شمولیت چاچائے کرکٹ کی بھی تھی ۔

اگلے دن حلقے کا مشاعرہ اس لیے بھی بہت اہمیت اختیار کرگیا کہ نیویارک کے کونے کونے سے دوست اس میں شرکت کے لیے آئے اور یوں بہت سے احباب سے ایک ساتھ ملاقات ہوگئی۔ اسٹیج کی ذمے داری عزیزہ فرح کامران کے سپرد تھی اور مجھے یاد آیا کہ سات آٹھ برس قبل اسی حلقے کے مشاعرے میں اُن کے مرحوم شوہر کامران سے آخری ملاقات ہوئی تھی کہ وہ کینسر کی آخری اسٹیج میں اور بہت تکلیف میں ہونے کے باوجود احباب سے ملنے کے لیے آئے تھے اور آفرین ہے عزیزیہ فرح کے لیے بھی کہ اس نے کس محبت ، محنت اور سلیقے سے اپنے دونوں بچوں کو پالا اور انھیں ہر طرح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا۔


سامعین تو ہر تقریب میں ملتے ہی ہیں مگر شعر کا ایسا اچھا ذوق رکھنے والے اتنے زیادہ دوستوں کی موجودگی نے محفل کے رنگوں میں ایک اور رنگ کا اضافہ کردیا اور اس موقع پر حلقہ اربابِ ذوق نیویارک کے بارے میں لکھے ہوئے ایک پی ایچ ڈی کے مقالے کی بھی کتاب نمائی ہوئی جو شوکت فہمی لاہور سے ساتھ لے کر آیا تھا اور اس کی تحریر و تحقیق میں بھی قدم قدم وہ مصنف کے ساتھ رہا تھا۔

ڈاکٹر شمسہ نقوی نے اپنے بزرگ خواجہ احمد عباس کے نام پر ایک خصوصی ایوارڈ کا اجرا کیا ہے اس بار یہ ایوارڈ بھارت کے ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کے حصہ میں آیا جو اسے وصول کرنے کے لیے اپنی بیگم کے ہمراہ خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ کچھ عرصہ قبل عزیزی ڈاکٹر احمد بلال نے شمسہ نقوی کی ڈرامائی تشکیل میں خواجہ صاحب کے ایک افسانے پر مختصر دورانیے کی بہت خوب صورت فلم بھی بنائی تھی ۔

اگلا دن نیوجرسی کے مشاعرے کے لیے تھا جسے تمکنت خطیب صاحب نے ترتیب دیا تھا اور جس کی نظامت ہمارے سحر صاحب کی صاحبزادی عنبرین حسیب عنبر نے کی اور مجھے یاد بھی دلایا کہ Covidکے دنوں میں Zoomپر جو انٹرویوز کا سلسلہ ہوا تھا اس کے پیچھے ہی خطیب صاحب بھی تھے، اب بات کی مزید تائید اس سے ہوئی کہ اُس پروگرام میں تازہ کمپوز کرکے جن سردار صاحب نے ہم سب کی غزلیں پیش کی تھیں انھیں بھی اسی تقریب میں خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مشاعرے میں کل چھ شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔

کینیڈا سے تشریف لانے والی شاعرہ شمسہ نقوی کے علاوہ چاروں شاعروں کا تعلق پاک و ہند سے تھا جنھیں بہت غور اور توجہ سے سنا گیا لیکن میرے لیے اس مشاعرے کی سب سے اہم بات عزیزہ نیلوفر سیّد سے ملاقات تھی جو خاص طور پر مجھ سے ملنے کے لیے کئی سو میل دور سے صبح کی فلائٹ سے آئی تھی۔ نیلوفر کا شمار ان دوستوں میں ہے جن سے ملاقات کا آغاز بطور سخن فہم کے ہوتا ہے اور پھر وہ لوگ بوجوہ آپ کے دل سے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں یہ ملاقات کوئی دس برس بعد ہورہی تھی کہ پچھلی بار بھی وہ آرلینڈو سے نیویارک شوکت فہمی کے گھر ملنے آئے تھی، ایسے محبت کرنے والے اور سخن کی گہری پہچان رکھنے والے اب کم کم ہی نظر آتے ہیں۔

بعد میں پتہ چلا کہ اس بے چاری کی واپسی کی پانچ فلائٹیں کسی نہ کسی وجہ سے کینسل ہوئیں اور اُسے اپنے اس ذوقِ شعر کے بدلے میں پوری رات ائیر پورٹ پر گزارنی پڑی ۔پہلے سے طے تھا کہ رات شکور عالم صاحب کی طرف گزرے گی اور اگلے دن صبح نیو جرسی میں بیگم اور بچوں کی فرمائشوں کی تکمیل کے لیے مالز کا چکر لگایا جائے گا۔ شکور بھائی کے بھتیجے زبیر عالم نے ڈرائیونگ کے فرائض اس خوشدلی سے سرانجام دیے کہ ان کے لیے دل سے علیحدہ سے دعائیں نکلیں۔

واپسی کا سفر تقریباً 24گھنٹوں پر مشتمل تھا کہ نیویارک سے استنبول 9گھنٹے کی فلائٹ کے بعد 9گھنٹے کا انتظار کا وقفہ تھا جس کے بعد چھ گھنٹے ہوا میں رہ کر زمین پر اُترنا تھا مگر اس تقسیم میںمزید تقسیم کچھ یوں ہوئی کہ ہماری فلائٹ نیویارک سے ہی 5گھنٹے لیٹ تھی جب کہ دوسری طرف استنبول سے لاہور کی فلائٹ کا بھی ٹائم بدل گیا تھا، سو پرواز کے لاہور کی آمد کے اعلان تک ہر چیز ایک عجیب بے ترتیبی کے عالم میں رہی ۔
Load Next Story