عمران خان اور ذوالفقارعلی بھٹوکا موازنہ
عمران خان کا بھٹو سے 43 سال بعد موازنہ مناسب نہیں
بعض لوگ ملک کے دو سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کا موازنہ کر رہے ہیں کہ عمران خان آج کے وقت میں مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں جن کا ہر مخالف سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہے اور عمران خان کی سیاسی کامیابی ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
عمران خان کا بھٹو سے 43 سال بعد موازنہ مناسب نہیں۔ گو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل رہی تھی، پھر وہ آمریت سے ٹکرا گئے اور آمرانہ دور میں ہی پھانسی چڑھا دیے گئے تھے ۔ بھٹو آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے اور بھٹو کی پھانسی کی سزا کو آج ان کے حامی ہی نہیں بلکہ مخالفین بھی غلط قرار دیتے ہیں۔
بھٹو صاحب حقیقی عوامی لیڈر اور ان کی حکومت بھی عوامی تھی اور بھٹو صاحب سرکاری پروٹوکول کے باوجود عوام سے دور نہیں رہ سکتے تھے اور پروٹوکول چھوڑ کر عوام میں پہنچ جاتے تھے جس کا میں خود گواہ ہوں۔ وزیر اعظم بھٹو اقتدار میں آتے ہی ٹرین سے جیکب آباد جا رہے تھے جو اسپیشل ٹرین تھی جو بھٹو صاحب نے شکارپور ریلوے اسٹیشن پر رکوائی تھی اور عوام سے ملے تھے۔
وزیر اعظم بھٹو نے دورہ شکارپور میں شہر سے باہر ایک انسپکشن بنگلے کے باہر میدان میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا تھا ، جس سے خطاب کے لیے وزیر اعظم باہر اسٹیج پر آئے تو انھیں وہاں عوام کی بجائے سرکاری افسران ارکان اسمبلی اور بڑے لوگ نظر آئے تو پوچھا '' عوام کہاں ہیں '' جس کا معقول جواب نہ ملنے پر بھٹو صاحب اٹھے اور اپنی گاڑی منگوائی اور ڈرائیورکو گھنٹہ گھر چلنے کا کہا جس پر انتظامیہ پریشان ہوگئی۔ اس وقت شکارپور ضلع نہیں تھا جسے بھٹو صاحب نے 1977 میں ضلع بنوایا تھا۔ بھٹو صاحب اچانک شہر کی طرف چلے تو راستے میں لوگ حیران ہوگئے اور سب نے ان کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنا شروع کردیا تھا کیونکہ انسپکشن بنگلے کے پروگرام میں عوام کو آنے ہی نہیں دیا گیا تھا جہاں خواص سرکاری کارڈوں پر بلائے گئے تھے۔
بھٹو صاحب گھنٹہ گھر ٹیکسی اسٹینڈ پہنچے جہاں انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں ٹیکسی ڈرائیوروں کی طرف سے 100 فٹ اونچا پیپلز پارٹی کا پرچم لہرایا تھا۔ لوگوں کو بھٹو صاحب کی آمد کا تو علم تھا مگر گھنٹہ گھر پر لوگ جمع تھے کہ شاید وہ لاڑکانہ جانے کے لیے وہاں سے گزریں اور جب بھٹو صاحب اچانک گھنٹہ گھر آئے تو اس کی اطلاع شہر بھر میں پھیل گئی اور ہزاروں لوگ وہاں جمع ہوگئے۔ ٹیکسی اسٹینڈ کے سامنے کسی بند دفتر کی لکڑی کی بنی چھوٹی بالکونی تھی جو کسی دکان کے اوپر تھی۔ بھٹو صاحب وہاں چڑھ گئے اور ایک بڑے عوامی ہجوم سے خطاب کیا اور بعد میں لوگوں سے گھل مل گئے تھے اور سرکاری پروٹوکول دھرا رہ گیا تھا۔
عمران خان کا طرز سیاست بھٹو سے بالکل مختلف ہے ، عمران خان عوام میں گھلنے ملنے والے لیڈر نہیں ہیں، وہ عام لوگوں سے دور رہتے ہیں، اقتدار میں آنے سے قبل بھی عوامی مقامات پر جانے سے گریز کرتے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔بلاشبہ وہ بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کررہے ہیں لیکن ان کا انداز عوامی نہیں ہے اور اب بھی وہ عوامی مقامات پر نہیں جاتے ۔
بھٹو صاحب نے پی پی کے منشور پر کسی نہ کسی حد تک عمل بھی کیا اور ملک بھر کے دورے کیے۔ بے زمین کسانوں کو مفت زمینیں دیں، تعلیم مفت کی ، طلبہ کو سفری سہولتیں فراہم کیں، پہلی بار عام آدمی کو پاسپورٹ جاری ہونا شروع ہوئے، غریبوں کی کچی آبادیوں کو مستقل کرکے وہاں شہری سہولتیں فراہم کیں۔ غریبوں کے بچوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھلے، عوام کو سہولتیں دینے کے اقدامات کیے، راج مستری ، مزدور، ویلڈرز، ڈرائیورز وغیرہ کے لیے مڈل ایسٹ میں ملازمتوں کا حصول ممکن بنایا، سندھ میں نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے جو احساس محرومی تھا وہ ختم کرایا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو نے جہاں غلطیاں کیں، جاگیرداروں کو ساتھ رکھا ، سیاسی مخالفین کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا، وہاں ان کی حکومت نے کئی ایسے کام کیے جو ماضی سے لے کر اب تک کوئی حکمران نہ کرسکا۔
عمران خان ، بھٹو سے زیادہ ذاتی تشہیر پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی پارٹی منشور پر کوئی توجہ نہیں دی، نیا پاکستان کا نعرہ ضرور لگایا لیکن آئین میں موجود خرابیوں کو دور کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی، ملک کے انتظامی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، بس اپنے من پسند لوگوں کو اچھے اور اہم عہدے الاٹ کرکے بتایا کہ یہ ایماندار افسر ہیں۔نظام عدل میں اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ نیب کے یکطرفہ قوانین و اختیارات میں توازن پید ا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
عمران خان نے اپنی حکومت کا مکمل انحصار اسٹیبلشمنٹ پر کیا اور اپنے اتحادیوں کو بھی مایوس کیا۔ ان کی پارٹی کے منشور کا کسی کو کوئی پتہ نہیں ہے جب کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی اپنے منشور پر سیاست کرتی تھی۔ بھٹو صاحب عمران خان جتنے انتقامی نہیں تھے۔ انھوں نے اپنے خلاف احتجاجی تحریک چلانے والے قومی اتحاد کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ بھٹو عالمی لیڈر تھے جنھوں نے ملک میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرکے اسلامی دنیا میں بھی اپنا مقام بنایا اور عمران خان نے اسلامی ملکوں کو بھی ناراض کیا اور اسلامی لیڈر ہونے کے زعم میں مبتلا رہے۔
عمران خان کا بھٹو سے موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ بھٹو حقیقی عوامی لیڈر اور مدبر تھے ۔ انھوں نے وزیر خارجہ کے طور پر اپنے آپ کو منوایا تھا اور پاک فوج کے 73 ہزار اسیر افسروں اور جوانوں کو مذاکرات کے ذریعے بھارت سے رہائی دلائی تھی۔ بھٹو اقتدار سے ہٹائے جانے پر جنرل ضیا الحق پر سخت برہم تھے مگر انھوں نے فوجی سربراہوں پر الزامات نہیں لگائے اور پیپلز پارٹی نے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی فوج کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی نہیں کی تھی جو اب پی ٹی آئی کر رہی ہے جسے عمران خان نہیں روک رہے۔ عمران خان فوج کے ذریعے اقتدار میں آئے اور اپنی نااہلی کے باعث اپوزیشن کے ہاتھوں آئینی طور پر اقتدار سے فارغ کیے گئے اس لیے ان کا بھٹو سے کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔