عمران خان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ضمانت قبل از گرفتاری منظور
سیشن عدالت نے بھی عمران خان کو دفعہ 144 کی خلاف وزری کے مقدمے میں عبوری ضمانت دے دی
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہو گئے، جہاں ان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کمرہ عدالت میں پہنچے۔ ان کے ہمراہ پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر، پرویز خٹک، زلفی بخاری اور فواد چودھری بھی موجود تھے۔اس موقع پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تھانہ مارگلہ میں دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ پہلی ایف آئی آر دیکھیں، مجسٹریٹ علی جاوید مقدمے کا مدعی ہے۔
وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کے مطابق 3 لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ آئی جی،ایڈیشنل آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا کا نام لکھا گیا۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی مدعی نہیں بنا اور پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا۔ شرم کرو کو دھمکی بنا دیا گیا ورنہ کئی وزیر اس حکومت کے اندر ہوتے۔
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی اور ڈی آئی جی کو کہا تمہیں نہیں چھوڑنا، کیس کریں گے۔ اسی لیے اقوام متحدہ نے نوٹس لیا ہے پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں آپ کے اوپر بھی ایکشن لیں گے۔ ہم نے ایکشن لیا اور ہم ہائیکورٹ گئے ہیں۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے اور یکم ستمبر کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔ وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان 9 حلقوں میں ضمنی الیکشن لڑ رہے ہیں، لہذا زیادہ مدت کے لیے عبوری ضمات دی جائے، جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ابھی یکم ستمبر تک ہی عبوری ضمانت دے رہے ہیں۔
قبل ازیں عمران خان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں وکیل بابر اعوان اور علی بخاری کے ذریعے درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس نے انتقامی کارووائی کے تحت دہشت گردی کا مقدمہ بنایا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے ۔
خاتون جج اور پولیس افسران کو دھمکیاں دیے جانے کے کیس میں عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 دن کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس موقع پر جوڈیشل کمیشن کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے چاروں جانب کی سڑکیں بند کردی گئی تھیں۔
عدالت میں کسی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ پولیس نے میڈیا کے داخلے پر بھی پابندی عائد کردی۔ سکیورٹی حکام کے مطابق اس موقع پر پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جب تک افسران کا حکم نہیں ملے گا، کسی کو جوڈیشل کمپلیکس جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
دریں اثنا عمران خان دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر اپنے خلاف درج مقدمے میں عبوری ضمانت کے لیے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں پیش ہوئے، جہاں وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 5 ہزار روپے مچلکوں کے عوض تھانہ آبپارہ میں درج مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے 7 ستمبر کو پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔ اس موقع پر پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری ایف 8 کچہری میں تعینات کی گئی تھی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کمرہ عدالت میں پہنچے۔ ان کے ہمراہ پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر، پرویز خٹک، زلفی بخاری اور فواد چودھری بھی موجود تھے۔اس موقع پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تھانہ مارگلہ میں دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ پہلی ایف آئی آر دیکھیں، مجسٹریٹ علی جاوید مقدمے کا مدعی ہے۔
وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کے مطابق 3 لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ آئی جی،ایڈیشنل آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا کا نام لکھا گیا۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی مدعی نہیں بنا اور پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا۔ شرم کرو کو دھمکی بنا دیا گیا ورنہ کئی وزیر اس حکومت کے اندر ہوتے۔
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی اور ڈی آئی جی کو کہا تمہیں نہیں چھوڑنا، کیس کریں گے۔ اسی لیے اقوام متحدہ نے نوٹس لیا ہے پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں آپ کے اوپر بھی ایکشن لیں گے۔ ہم نے ایکشن لیا اور ہم ہائیکورٹ گئے ہیں۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے اور یکم ستمبر کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔ وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان 9 حلقوں میں ضمنی الیکشن لڑ رہے ہیں، لہذا زیادہ مدت کے لیے عبوری ضمات دی جائے، جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ابھی یکم ستمبر تک ہی عبوری ضمانت دے رہے ہیں۔
قبل ازیں عمران خان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں وکیل بابر اعوان اور علی بخاری کے ذریعے درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس نے انتقامی کارووائی کے تحت دہشت گردی کا مقدمہ بنایا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے ۔
خاتون جج اور پولیس افسران کو دھمکیاں دیے جانے کے کیس میں عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 دن کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس موقع پر جوڈیشل کمیشن کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے چاروں جانب کی سڑکیں بند کردی گئی تھیں۔
عدالت میں کسی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ پولیس نے میڈیا کے داخلے پر بھی پابندی عائد کردی۔ سکیورٹی حکام کے مطابق اس موقع پر پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جب تک افسران کا حکم نہیں ملے گا، کسی کو جوڈیشل کمپلیکس جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
دریں اثنا عمران خان دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر اپنے خلاف درج مقدمے میں عبوری ضمانت کے لیے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں پیش ہوئے، جہاں وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 5 ہزار روپے مچلکوں کے عوض تھانہ آبپارہ میں درج مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے 7 ستمبر کو پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔ اس موقع پر پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری ایف 8 کچہری میں تعینات کی گئی تھی۔