خواتین صحافی سوشل میڈیا پر غیر محفوظ

خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کے ساتھ ان کی کردارکشی بھی کی جاتی ہے


فہمیدہ یوسفی August 25, 2022
خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے صحافیوں کو اظہارِ رائے کی زیادہ آزادی فراہم کی جبکہ اسی سوشل میڈیا کی وجہ سے صحافیوں کو اپنی رسائی اور اثر و رسوخ کو بڑھانے کے مواقع بھی ملے۔ مگر بدقسمتی سے اس آزادیٔ اظہار کی قیمت صحافی برادری کی روزانہ کی بنیاد پر آن لائن ٹرولنگ اور ہراسمنٹ ہے، جبکہ ان کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں۔

پاکستان میں صحافت کرنا تو کبھی بھی آسان نہیں رہا، ہر دور میں صحافیوں کو سنسرشپ، الزامات، مقدمات اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ دور بھی کچھ مختلف نہیں، جس کا ثبوت رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز 2022 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس ہے، جہاں پاکستان صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے 180 ممالک میں سے 157 ویں نمبر پر ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کے صحافیوں کےلیے کام کرنا آسان نہیں۔ ایک طرف انہیں حکومتی عتاب کا سامنا ہے تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی وہ محفوظ نہیں۔

پاکستان کے ٹوئٹر پر آئے روز کسی نہ کسی صحافی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ٹرینڈ چل رہا ہوتا ہے۔ جب بات خواتین صحافیوں کی آجائے تو جیسے ہی انہوں نے اپنی کسی ذاتی رائے کا اظہار کیا وہیں جیسے قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ اس حوالے سے سینئر صحافی اور اینکر پرسن تنزیلہ مظہر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر تو ہر روز ہی کسی نہ کسی بات پر لوگ گالیاں اور نامناسب القابات سے نوازتے ہیں۔ جس کی بھی پسند اور مزاج کے خلاف بات کرو تو جواب میں آپ کی ساکھ پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ لفافہ صحافی اور جانبدار کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جواب دیں تو مسئلہ، جواب نہ دیں تو مسئلہ۔ صحافیوں سے تو حکومت وقت بھی ناراض اور اپوزیشن کو بھی گلے شکوے ہی رہتے ہیں۔

خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر نہ صرف ہراساں کیا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے بلکہ ان کی کردارکشی بھی کی جاتی ہے۔ سینئر صحافی اور آئی بی اے (سی ای جے) کی ڈائریکٹر امبر رحیم شمسی کا کہنا ہے کہ مرد عوامی مقامات پر غلبہ رکھتے ہیں، چاہے وہ آن لائن ہوں یا آف لائن۔ سوشل میڈیا پر، سڑکوں پر، میڈیا میں اور اقتدار کے عہدوں پر۔ وہ خواتین جو ان عوامی مقامات پر جاتی ہیں وہ بدسلوکی کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ انہیں باغی یا خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ دوسری بات خواتین کو کمزور اور آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

آخر پاکستان میں خواتین صحافیوں کےلیے کام کرنا مرد صحاٖفیوں سے بھی زیادہ مشکل کیوں ہے؟ اس حوالے سے سینئر صحافی رہنما کراچی یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی کا کہنا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں خواتین کو آسان ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے، اس لیے حکومت کوئی بھی ہو سوشل میڈیا پر اس کے حامی حق اور سچ بات کرنے والی خواتین صحافیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں جب جرنلسٹس پروٹیکشن بل پر کام ہورہا تھا تو کے یو جے نے بل میں خاص طور پر یہ شامل کرایا تھا کہ سوشل میڈیا پر صحافیوں کو ہراساں کرنے کو بھی جرم قرار دیا جائے۔ یہ بل سندھ اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد اس کا گزٹ جاری ہوچکا ہے اور اب صرف کمیشن کے قیام کا مرحلہ باقی ہے۔ جس کے بعد خواتین صحافی سوشل میڈیا پر خود کو ہراساں کیے جانے کے خلاف کمیشن کو درخواست دے سکیں گی، جسے متعلقہ فرد/ ادارے کو ناصرف طلب کرنے کا اختیار حاصل ہوگا بلکہ وہ اس پر قانونی کارروائی کی سفارش بھی کرسکے گا۔ سفارش کے بعد ہونے والی قانونی کارروائی پر کمیشن اس کی مستقل نگرانی بھی کرتا رہے گا۔

خواتین کو ویسے بھی آسان ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے اور جب وہ صحافی ہوں تو ان پر سوشل میڈیا پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں۔ جس کا مقصد ان پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے۔ تنزیلہ مظہر کا کہنا ہے کہ اس دباؤ کی وجہ سے ذہنی سکون اور فیملی کا سکون متاثر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دباؤ کے نتیجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سیلف سینسر شپ کرنے لگ جاتے ہیں، جبکہ بہت سے موضوعات پر بات کرتے ہوئے اپنے الفاظ کو لے کر محتاط ہوجاتے ہیں۔

فہیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کو خاص طور پر ٹرول کیا جارہا ہے اور ایسا کرنے والے اصل میں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی خاتون صحافی کو ٹارگٹ کریں گے تو شاید وہ اسے ڈرانے میں کامیاب ہوجائیں اور وہ خاتون صحافی حق اور سچ کہنا چھوڑ دے گی۔

ہمارے ہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ خواتین صحافی سوشل میڈیا پر اپنے خلاف ہونے والے حملوں پر خاموش ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ وہ سوچتی ہیں کہ وہ تنہا ہیں اور خود کو بہت بے بس محسوس کرتی ہیں۔ ظاہر ہے جب کسی خاتون صحافی کی سوشل میڈیا پر کردارکشی کی جاتی ہے تو نہ صرف اس کی نجی زندگی بلکہ ساکھ بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ خاتون صحافیوں کی ذاتی معلومات اور تصاویر کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ معاشرے کے دباؤ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین کے پاس معلومات کی کمی ہے اور وہ نہیں جانتیں کہ سپورٹ کےلیے کس سے رجوع کیا جائے۔ وہ کس وکیل کے پاس جاسکتی ہیں یا وہ کون سا پلیٹ فارم استعمال کرسکتی ہیں۔ جبکہ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا قانون آن لائن ہراسمنٹ کو لے کر زیادہ سنیجدہ نظر نہیں آتا۔ زیادہ تر معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیم بولو بھی کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جو خواتین صحافی ہیں ان کو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر مرد صحافیوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن ان پر خواتین صحافیوں کے مقابلے میں بہت مختلف نوعیت کے حملے کیے جاتے ہیں۔ جب خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو ان کےلیے انتہائی عامیانہ گفتگو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پر جنسی نوعیت کے جملے کسے جاتے ہیں۔ ان کی تصاویر کو لے کر مختلف قسم کی میمز بنائی جاتی ہیں۔ ان کے نام کو لے کر ٹویٹر پر عامیانہ قسم کے ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں۔ غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہے تاکہ اس سے ان کو ڈرایا جاسکے۔ سوشل میڈیا پر اس لیے بھی ان کو ہراساں کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے اظہار رائے کا جو حق ہے اس کو مکمل طور پر استعمال نہ کرسکیں اور ڈر کر خاموش ہوجائیں۔

قانونی طور پر سوشل میڈیا ہراسانی کےلیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ قوانین موجود ہیں لیکن ان کا استعمال کرنا اور اس پر عمل درآمد کرانا بہت ضروری ہے۔ تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ایف آئی اے میں جو سوشل میڈیا ہراسانی کے کیس رپورٹ ہوتے ہیں ان کو شاید زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ایف آئی اے کو چاہیے کہ جن کیسز میں سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور وہ ان کے پاس رپورٹ ہوئے ہوں، ان کو سنجیدگی سے حل کریں۔

عام تاثر یہی ہے کہ خواتین صحافیوں کے حوالے سے چلنے والے ٹرینڈز کے پیچھے زیادہ تر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا ہی تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنان اور سوشل میڈیا پر موجود اپنے ایکٹیوسٹ اور فالوورز کو یہ پیغام دیں کہ نہ صرف خواتین صحافی بلکہ کسی کے ساتھ بھی آپ کا اختلاف رائے ہو تو گالم گلوچ سے پرہیز کریں۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی پاکستان میں جینڈر کوآرڈی نیٹر سینئر صحافی لبنیٰ جرار کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا پاکستان میں خواتین صحافیوں کو نہ صرف سوشل میڈیا پر بلکہ ویسے بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین صحافی اس حوالے سے بہت محتاظ رہتی ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے ساتھ ہونے والے ہراسگی کے واقعے کو تشہیر ملے۔ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا اگر کوئی خاتون صحافی کسی بھی ڈر اور دباؤ کی وجہ سے اپنا کیس آگے نہیں لانا چاہتی تو یونین اور تنظیمیں کیا کرسکتی ہیں۔ تاہم جب بھی کوئی خاتون صحافی ہمارے پاس آتی ہے تو ہماری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اسے تحفظ اور قانونی مدد فراہم کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے آگاہی کی بہت ضرورت ہے اور خواتین صحافیوں کو بھی ان کے قانونی حقوق کے حوالے سے ٹریننگ دی جانی چاہیے۔

تنزیلہ مظہر نے اس حوالے سے اپنا تلخ تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی جس دوران ان کی کچھ ذاتی زندگی کی معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اس کےلیے انہوں نے ایف آئی اے کو لکھا مگر جواب نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اور اداروں کو مل کر آن لائن اسپیس کو خواتین صحافیوں کےلیے محفوظ بنانا چاہیے۔ فہیم صدیقی کا کہنا ہے کہ ان کی یونین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے اگر کسی بھی صحافی کو لیگل ایڈ کی ضرورت ہو تو لیگل ایڈ کمیٹی اس پر قانونی مشاورت کرتی ہے اور ایسے متاثرہ صحافی کو مکمل قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے۔

یہ ضروری ہے کہ میڈیا تنظیمیں، یونینز اور دیگر ذمے داران صحافیوں کو درپیش مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانے کےلیے مل کر کام کریں، جبکہ صحافت میں خواتین کو قانونی، جذباتی اور نفسیاتی مدد فراہم کریں جنہیں ہراسگی اور تشدد کا سامنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں