جماعت اسلامی کا یوم تاسیس… تجدید عہد کا دن
کوئی کارکن بھی قیادت کے منصب تک پہنچ سکتا ہے
جماعت اسلامی منصہ ظہور پر تو 26اگست 1941میں آئی مگر یہ اس تحریک کا آغاز نہیں تھا، جماعت اسلامی اسی تحریک کا تسلسل ہے جو مکہ کے غاروں، طائف کے بازاروں، مدینہ کی گلیوں، ہجرت کی سختیوں اور بدر و حنین کے معرکوں سے نبرد آزما ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے۔ یہ تحریک انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور قیامت تک اپنی یہ ذمے داری نبھاتی رہے گی۔
اس تحریک کا آغاز خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ نے 14سوسال قبل کیا، پھر یہی تحریک خلافت راشدہ، صحابہ کرامؓ، تبع تابعین، آئمہ کرام اور مشائخ عظام کی محنتوں سے ہم تک پہنچی ہے، اس تحریک کی قیادت امام ابو حنیفہ،ؒ امام شافعی ؒ ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام مالک ؒ نے کی، یہی تحریک لے کر امام ابن تیمیہ ؒ آگے بڑھے، پھر یہ تحریک سیدعبد القادر جیلانی ؒ، سیدمجدد الف ثانی ؒ سے ہوتی ہوئی سید علی ہجویر یؒ بابا بلھے شاہؒ، سید حسن البنا شہیدؒ اور سید مودودی ؒ تک پہنچی اور آج یہ تحریک دنیا بھر میں جماعت اسلامی کے نام سے آگے بڑھ رہی ہے۔
بقول علامہ محمد اقبال ؒ بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ جماعت اسلامی وطن عزیز کی واحد دینی جماعت ہے جو ہر قسم کے مسلکی، علاقائی اور قومیت کے تعصبات سے پاک ہے۔ اس کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں، جماعت اسلامی میں شورائی نظام ہے جس میں کارکنان کی مشاورت کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہ جماعت اسی منہج پر کاربند ہے جس کی تعلیم حضورﷺ نے اپنی سنت مبارک سے دی تھی وہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب اور فرستادہ ہونے اور براہ راست اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے امین ہونے کے باوجود صحابہ کرام ؓ سے ہر معاملے میں مشاورت کرتے حالانکہ ان پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی اور وہ انسانی مشوروں سے بے نیاز تھے مگر انھوں نے کبھی بھی صحابہ کرام ؓ کی آرا کو نظر انداز نہیں کیا اور ان کا پورا پورا احترام کیا۔
اﷲ تعالیٰ نے بھی اپنے پیغمبر ﷺ کو حکم دیا کہ ''اپنے معاملات میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کرو۔''ملک کو اس کے بنیادی مقصد سے ہم آہنگ کرنے اور عام آدمی کے حقوق کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد کا اعتراف اس کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ قرار داد مقاصد، تحریک نظام مصطفیٰﷺ، تحریک ختم نبوت،بنگلہ دیش نامنظور اور دیگر قومی تحریکوں میں جماعت اسلامی نے ہمیشہ صف اول میں رہتے ہوئے اپنا شاندار کردار نبھایا ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس میں موروثیت کا کوئی شائبہ تک نہیں، یہاں ہر کارکن قائد اور قائد کارکن ہے۔
کوئی کارکن بھی قیادت کے منصب تک پہنچ سکتا ہے۔ دیگر جماعتوں خواہ وہ سیاسی ہوں یا دینی، ان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں، موروثیت نے پارٹیوں پر قبضہ جما کر انھیں خاندانی پراپرٹی بنا رکھا ہے، باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا پارٹی قیادت پر قابض ہوجاتا ہے اور اگر بیٹا یا پوتا اس قابل نہ ہو تو بیٹی نواسی یا پوتی اس منصب جلیلہ پر فائز ہو جاتی ہے اور کسی کو اختلاف کی جرأت نہیں ہوتی۔ ایک طبقہ اشرافیہ نے ان پارٹیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، کہیں جاگیردار ہیں کہیں وڈیر ے اور سرمایہ دار اور کہیں قومیت و مسلک کے علمبردار! جب کہ جماعت اسلامی نے ان موروثی خرابیوں اور خاندانی تسلط سے پاک ایک آئینی و جمہوری راستے پر چلتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔
بانی جماعت اسلامی سید مودودیؒ، میاں طفیل محمد ؒ، قاضی حسین احمد ؒ اور سید منور حسن ؒ کے کسی بیٹے، بیٹی، پوتے یا نواسے نے کبھی خواب میں بھی جماعت اسلامی کا امیر بننے کے متعلق نہیں سوچا۔ جماعت اسلامی کی دعوت کا مرکزو محور ہی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ اس کی دعوت کا مرکزی نقطہ ہی یہ ہے کہ ''اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیا ں جمع نہ کرو'' ہم کسی کو اپنے امیر کی طرف نہیں بلاتے اور نہ کسی خاص شخصیت کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کارکن اپنے امیر کی اطاعت بھی معروف میں کرتے ہیں، مجہول اور منکر کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ ( سید مودودی ؒ )۔ جماعت اسلامی عالمی اسلامی تحریکوں کی سرخیل کا کردار ادا کر رہی ہے۔
اندرون ملک جماعت اسلامی کے شاندا رماضی نے اس کے تابناک مستقبل کی راہ متعین کردی ہے۔ آج ایک زمانہ جماعت اسلامی کی خدمات، خواہ وہ خدمت خلق کے حوالے سے ہوں ، دفاع وطن کے حوالے سے ہوں، جمہوریت کی بحالی اور اسلامی نظام حکومت کے قیام اور آئین پاکستان کی تدوین کے لیے ہوں یا فاشزم کا راستہ روکنے کے حوالے سے ہوں کا معترف ہے۔
جماعت اسلامی کی تنظیم 'طریقہ کار' اپنے کاز سے کمٹمنٹ ، خدمت و اخلاص اور صلاحیتوں کا دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں۔ جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں جماعت اسلامی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت اور جدوجہد کا بین ثبوت ہے کہ آج بھی مسئلہ کشمیر کو ایک قومی مسئلہ کی حیثیت حاصل ہے اور حکمران تمام تر عالمی دباؤ کے باوجود اس سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتے ۔
جماعت اسلامی کی تنظیم ہمیشہ قابل رشک رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان کے نظم و ضبط کی مثالیں دی جاتی ہیں، جس پر ہم ﷲ کے شکر گزار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان کے سامنے ایک واضح نصب العین ہے جس کو وہ کسی بھی صورت نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔
جماعت اسلامی کے سیکڑوں ارکان و کارکنان سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے ممبر رہے مگر کسی کے دامن پر کرپشن، کمیشن، اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں، یہ محض اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے، ورنہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں سیاستدان دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی مظلوم طبقہ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہم اقتدار کے ایوانوں کے دروازے عام آدمی پر کھولنے کی جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ غریب مزدور، ہاری اور کسان کے بیٹے کو بھی زندگی گزارنے کی وہی سہولتیں مل سکیں جن سے وزیروں مشیروں اور حکمرانوں کے بیٹے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کی سیاست کا بنیادی مقصد ملک میں شریعت کا نفاذ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم مقصد جس کے لیے ہمارے بڑوں نے بے انتہا قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک کہ یہاں مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی و فلاحی حکومت قائم نہیں ہوجاتی۔ ایک ایسی حکومت جس کے پیش نظر معاشرے کے پسے ہوئے طبقہ کی فلاح و بہبود ہو، جس میں یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور غریبوں کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں اور ریاست ان کی کفالت کی ذمے داری پوری کرے۔ یہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک کہ عوام اس کے حصول کے لیے ایک بڑی جدوجہد کے لیے تیار نہ ہوں۔
''خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا'' نومبر 2015 میں جماعت نے مینار پاکستان لاہور کے سبزہ زار میں کل پاکستان اجتماع منعقد کیا اور ملک بھر سے عوام کو اسی میدان میں اکٹھا کیا جس میں کھڑے ہوکر ہمارے آباؤ و اجداد نے ایک اسلامی ریاست کے حصول کا عہد کیا تھا۔ ہم نے قوم کو ''اسلامی پاکستان ۔خوشحال پاکستان'' کا ایجنڈا دیا جس میں یہ عہد کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کو اقتدار دیا اور عوام نے ہم پر اعتماد کیا تو ہم پاکستان کو مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کا نمونہ بنائیں گے۔ سودی معیشت کا خاتمہ کیا جائے گا، عورتوں اور طالبعلموں کو غیر سودی قرضے مہیا کیے جائیں گے۔ عام آدمی کے حقوق کا تحفٖظ کریں گے، مزدوروں کسانوں اور محنت کشوں کو ان کا جائز مقام دلائیں گے۔
مزدور کی کم از کم تنخواہ تیس ہزار مقر ر کریں گے اور غریبوں کو پانچ بنیادی ضروریات زندگی، چاول، چینی، آٹا، گھی اور دالیں ارزاں نرخوں پر مہیا کریں گے اور پانچ بڑی بیماریوں دل گردے ہیپاٹائٹس، کینسر اور تھیلیسمیا کا تمام سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج ہوگا۔
غریب اور امیر کا بچہ ایک ہی سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا۔ مدارس کو بھی وہی سہولتیں دیں گے جو بڑے تعلیمی اداروں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو حاصل ہیں۔ تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم ہوگا۔ آئمہ کرام اور خطباء کو سرکاری خزانے سے تنخواہ دی جائے گی تاکہ وہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم کریں اور مسلکی، علاقائی اور قومیتوں کے تعصبات کو ختم کرکے ایک قوم کی حیثیت سے آگے بڑھا جاسکے۔ ہمیں امید ہے کہ قوم اسلامی پاکستان ...خوشحال پاکستان کے ایجنڈے پر ہمارا ساتھ دے گی اور پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہوا عزت و وقار دوبارہ حاصل کرسکے گا۔