عمران خان اٹھیں اور ڈوبتی زندگیوں کو بچائیں

سیلاب زدہ علاقوں سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں

ali.dhillon@ymail.com

حکمران، سیاسی رہنما، مذہبی رہنما سبھی ''سیاست'' کر رہے ہیں، جب کہ ملک سیلاب کے رحم وکرم پر ہے، شہر شہر، گاؤں گاؤں ڈوب رہے ہیں ، بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے دل دہلانے والے مناظر سامنے آ رہے ہیں۔

تونسہ، ڈی جی خان، راجن پور، فاضل پور وغیرہ میں جو خوفناک تباہی سیلابی ریلوں نے مچائی ہے، اس کی تفصیل جان کر ہر کوئی دکھی اور افسردہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کو سامنے رکھ کر کام کر رہی ہیں۔ اپوزیشن آگے آنے کے لیے تیار نہیں ہے، میرا خیال ہے کہ اس وقت عمران خان واحد لیڈر ہیں جن پر عوام کا اعتماد ہے۔

عمران خان کو فی الوقت چاہیے کہ بنی گالہ چھوڑیں، ملتان میں بیٹھیں، راجن پور بیٹھیں یا تونسہ چلے جائیں اور سیلاب زدگان کو ریلیف دینے کے آپریشن کی خود نگرانی کریں، خود عوام کو اپیل کریں، اگر عمران خان سیلاب فنڈز کے لیے عوام سے اپیل کریں گے تو لوگ اُن کی بات پر دھیان دیں گے۔

سیلاب زدہ علاقوں سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ ان آنکھوں نے ایک منظر دیکھا جس میں ایک والد کے سامنے اُس کے بچوں کو سیلاب ایک جن کی طرح بہا لے گیا تو وہ بچوں کی تلاش میں اس سیلاب میں کود گیا۔ سیلاب کے تیز پانی میں وہ کئی میل تک اپنے بچوں کو ڈھونڈتا رہا۔ آخر پانی کی وحشی لہروں نے اس باپ کو بھی دبوچ لیا اور جب اس کی لاش ملی تو اس کے صرف دونوں ہاتھ باہر تھے جب کہ باقی پورا جسم گیلی مٹی میں دھنس گیا تھا۔

وہ تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باپ ایک بڑی بلا سے اپنے بچے واپس لینے کے لیے گھنٹوں لڑتا رہا کہ شاید وہ دریائی بلا اس کے بچے واپس کردے لیکن آخرکار وہ ہار گیا۔ جب دلدلی زمین سے اُس کی لاش نکالنے کے لیے کھدائی کی گئی تو اس کے بازو اس انداز میں اوپر اٹھے ہوئے تھے کہ مرنے سے پہلے اس نے آخری کوشش کی تھی کہ بلا کو شکست دے لیکن سیلاب بچوں کے بعد باپ کو بھی نگل گیا۔ایک اور منظر دیکھا جس میں ایک دیہاتی ماں جس طرح اپنے گھر کی تباہی دیکھ کر ماتم کررہی ہے، اسے دیکھ کر آپ کا کلیجہ پھٹ جائے۔

میں خود امریکا میں ہوں ، چند دن میں واپسی ہے مگر ان سارے مناظر کو مایوسی سے دیکھ کر دل پھٹ رہا ہے، میرے ایک جاننے والے نے سابق وزیرا علیٰ پنجاب عثمان بزدار کے علاقے تحصیل تونسہ سے ایک تصویر بھیجی ۔ ایک بلوچ عورت سر جھکائے ساری دنیا کا دکھ اپنے کندھوں پر اٹھائے مایوس قدموں سے چل رہی ہے۔


پیچھے کچھ فاصلے پر مردوں کا ہجوم ہے۔پتا چلا کچھ لوگ وہاں خیمے اور کھانے پینے کا سامان بانٹ رہے تھے۔ وہ اپنے بچے وہیں چھوڑ کرخیمہ اور کچھ امداد لینے آئی تھی۔ مرد وہاں خیموں کے لیے لڑ رہے تھے تو اس ماں کو کس نے کچھ لینے دینا تھا؟ اس نے کچھ دیر تو کوشش کی لیکن پھر اسے لگا یہ اس کے بس کا روگ نہیں۔ وہ پیچھے ہٹ گئی، کچھ دیر کھڑی رہی کہ شاید کسی کی ضرورت سے کچھ بچ جائے تو اسے مل جائے۔

جب اسے کچھ نہ ملا تو وہ تھکے ہارے قدموں سے اپنے بچوں کی طرف خالی ہاتھ لوٹ رہی ہے۔ اس تصویر سے واضح ہے کہ اس سے چلا نہیں جارہا۔ وہی خوف کہ وہ جا کر بچوں کو کیا کھلائے یا کیا بتائے گی۔ اس بلوچ ماں کی وہ تصویر شاید میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی ہے۔

لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں کو سیاسی سرگرمیاں ختم کرکے فوری طور پر ان علاقوں میں جانا چاہیے۔ حالانکہ جنوبی پنجاب کے عوام عمران خان کو سیاسی نجات دہندہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ وہ خاصے دلبرداشتہ اور خفا ہورہے ہیں۔ کیوں کہ جنوبی پنجاب تباہ ہو چکا ہے۔

اس وقت وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو بھی تونسہ، ڈی جی خان، راجن پوروغیرہ جانا چاہیے بلکہ عمران خان اور پرویز الٰہی اکٹھے دورہ کریں ، میں پھر کہوں گا کہ اس حوالے سے ان کی ایک ساکھ اور اعتماد ہے، وہ اگر اکاؤنٹ بتا کر اپیل کریں تو اوورسیز پاکستانی بھی اربوں روپے بھیج دیں گے۔

عمران خان اگر ایک وڈیو بیان جاری کریں، جس میں وہ کہیں کہ اپنی تمام سرگرمیوں اور سیاسی لڑائی کو وہ ایک ماہ کے لیے معطل کر کے اپنی پوری توانائی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں ، تو اس بیان کو بے پناہ پذیرائی ملے گی۔ خان صاحب تونسہ، راجن پور، ڈی جی خان کیمپ بنا کر بیٹھ جائیں، اپنے کارکنوں کو اکھٹا کریں، امدادی کام کی ترتیب بنائیں۔ وہ اگر وہاں پہنچیں گے تو تحریک انصاف کی پوری قیادت ساتھ ہوگی، وہ مختلف رہنماؤں کو ایک ایک تحصیل کی ذمے داری دیں۔امدادی سامان، راشن کی اپیل کریں تو یقینی طور پر تین چار دنوں میں سامان کے ڈھیر لگ جائیں گے۔

تحریک انصاف کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ سیکڑوں،ہزاروں دیگیں روزانہ پکوا کر متاثرین میں بانٹ سکے۔خان صاحب اپنی طرف سے پارٹی رہنماؤں کی ڈیوٹیاں لگائیں اور انھیں ذمے داری سونپیں۔ جس شخص کو انھوں نے ساڑھے تین سال تک صوبے کا وزیراعلیٰ بنائے رکھا، اسے ہی انچار ج بنا دیں،لیکن اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو یقینا وہ بھی روایتی سیاستدانوں میں گنے جائیں گے جو عوام کو ایک طرف رکھ کر ''کرسی'' کی جنگ لڑتے رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔
Load Next Story