کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا

گھوڑا ایک ایسا جانور ہے جو صرف جنگ اور سفر کے کام آتا ہے

barq@email.com

اس مشہور و معروف تصویر کے بارے میں تو آپ نے کہیں پڑھا یا سنا ہوگا جس میں مصور نے ایک کھیت اور گھوڑا بنایا تھا اور گھوڑا کھیت کو ''چر'' کر غائب ہوگیا، لیکن ہمارے سامنے جو تصویر ہے، اس میں کھیت تو چرا گیا ہے لیکن گھوڑے ابھی موجود ہیں، خالی کھیت میں یہاں وہاںدوڑ رہے ہیں ،ایک دوسرے پر ہنہنا رہے ہیں اور دولتیاں مار رہے ہیں۔ یہ کھیت جس سے کبھی دہقان کو روزی میسر تھی، کسی زمانے میں فصلیں لہلہایا کرتی تھی لیکن پھر نہ جانے کہاں سے اس پر گھوڑوں کی یلغار ہوگئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کھیت ایک اسپاٹ اور بنجر میدان میں تبدیل ہوا، اور پھر یہاں پر گھوڑوں کی خرید و فروخت شروع ہوئی اور پھر یہ کھیت کے بجائے گھوڑا اصطبل بن گیا۔

اس تصویر کی طرح اگر یہ گھوڑے کھیت چر کر چلے جاتے تو پھر بھی اچھا ہوتا لیکن گھوڑے تو قابض ہوگئے اور یہ امکان بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا کہ کھیت شاید پھر کبھی کھیت بن سکے کیونکہ گھوڑے اب اسے روند روند کر سرسبز ہونے ہی نہیں دیتے، اگر گھاس کی کوئی کونپل پھوٹتی بھی ہے تو وہ سر اٹھانے سے پہلے ہی روندی جاچکی ہوتی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے، اس کے سوا کہ

اے سر و سر فراز ذرا دیکھ کے چلیو

اک شہر خموشاں ترے قدموں کے تلے ہے

گھوڑا ایک ایسا جانور ہے جو صرف جنگ اور سفر کے کام آتا ہے، نہ یہ دودھ دیتا ہے، نہ انڈے نہ اون اور نہ اس کا گوشت کسی کام آتا ہے، زراعت یعنی کھیت کھلیان کا جانور بھی نہیں ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ گھوڑا خالص جنگ جو، صحرائی، خانہ بدوش اور وحشی لوگوں کا جانور ہے، انسان نے تمدن کا آغاز گائے اور بیل کے ساتھ کیا تھا، پھر انسان زراعت کی طرف آیا کیونکہ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان درختوں کے پتے، پھل اور جنگلی جانوروں کا گوشت وغیرہ کھا کر زندہ رہتا تھا، پھر رفتہ رفتہ نسل انسانی زراعت اور اوزار سازی کے قابل ہوئی، انسان میں چونکہ خیر اور شر دونوں موجود ہیں ، خیر والوں نے محنت کو شعار بنایا، معاشرے کو پرامن بنایا، بھائی چارے کو پروان چڑھایا ، انسانی رشتوں کی اہمیت کو سمجھا، برائیوں سے روکنے کے قوانین بنائے لیکن اس کے برعکس شر کے زیر اثر انسانوں میں حسد، ہوس، نفرت، بے رحمی و سفاکی جیسے زہریلے رویے پیدا کیے۔

انسانوں کا یہ گروہ اپنے ہی خوشحال بہن بھائیوں کو قتل کرنے لگا، ڈکیتیاں، رہزنی اور چوری کو پیشہ بنایا، پھر جتھے بنا کر پہلے اپنے ہم نسلوں کی جائیداد ہتھیائی، ان کے بچوں کو مار دیا اور عورتوں کو فروخت کر دیا۔ پھر یہی گروہ اپنے جیسے دوسرے گروہ سے اتحاد کرکے باقی پرامن معاشروں پر حملے کرنے لگے۔

تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ پرامن معاشرہ غیر متمدن، جنگلی اور سفاک انسانوں کے گروہوں سے شکست کھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ اپنے وقت کا ہر پرامن معاشرہ اپنے اندر معاشرتی اقدار رکھتا ہے، ان میں قوانین و ضوابط موجود ہوتے ہیں، شہری سمولتیں ہوتی ہیں، پرامن معاشروں میں صلح جوئی، ایثار و قربانی ، برداشت و روادری اور رحمدلی جیسے اوصاف ہوتے ہیں جب کہ جنگلی اور وحشی انسانوں میں یہ اوصاف نہیں ہوتے، وہ اپنی بقا کے اصول پر زندہ رہتے ہیں، اس لیے ان میں حسد، بے رحمی اور لوٹ کھسوٹ جیسے اوضاف ہوتے ہیں۔

ایسے انسانی گروہ معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں، اس لیے قاعدے قوانین سے لاعلم ہوتے، دوسروں کا احترام کرنا انھوں نے سیکھ ہی ہوتا،ایثار و قربانی، رحم دلی جیسے رویئے ان میں سرے سے وجود پذیر ہی نہیں ہوتے۔


اسی وجہ سے ایسے گروہ پرامن معاشروں کے لیے ازل سے درد سر بنے ہوئے ہیں، پرامن معاشرے قتل و غارت سے بچتے ہیں، وحشی اس صفت کو کمزوری سمجھ کر دلیر ہوتے ہیں۔ مشہور مورخ فلپ نے مصر کی عظیم سلطنت کو ہی کوس چرواہوں کے ہاتھوں انہدام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت گھوڑا اس خطے کے لوگوں کے لیے بالکل ہی نامانوس چیز تھی، لوگ صرف اس کی آوازیعنی ہنہناہٹ سن کر بھاگ اٹھتے تھے، اس وقت گھوڑے کی حیثیت ٹھیک ویسی ہی تھی جیسی ہمارے زمانے میں موٹروہیکلز، ٹینک اور ہوائی جہاز کی ہے (تاریخ شام)

بات کو مزید صاف مولانا سلیمان ندوی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں۔

لفظ سیاست بھی گھوڑے سے تعلق رکھتا ہے، گھوڑوں کو پالنے والے، سدھانے اور سکھانے والے کو سائیس کہا جاتا ہے، اسی لفظ سائیس سے ہی سیاس اور سیاست کے الفاظ بنے ہیں جس طرح ایک سائیس گھوڑوں کو سنھبالتا ہے، اسی طرح سیاس انسانوں یا رعیت کو سنھبالتاہے۔

اب ایک مرتبہ پھر سامنے والے کینوس پر نظر ڈالیے جس میں ایک کھیت کو گھوڑے روند رہے ہیں، کھیت تو برباد ہوگیا ہے لیکن کم بخت گھوڑے اب بھی اپنی دم اوپر اٹھائے ہنہنارہے ہیں اوران گھوڑوں سے ''سائیسوں'' کااندازہ بھی لگایاجاسکتاہے۔

دل ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں

کام کس کس کے میراخرمن برباد آیا

ویسے تو مشکل نظر آتاہے کہ اس کھیت کو جو چراگاہ بن چکاہے، دوبارہ کھیت بنایاجاسکے لیکن خدا بڑا کارساز ہے ،ہوسکتاہے کہ بے مہارگھوڑوں پر کوئی عذاب بھیج دے۔رہا بھوکا انسان تو ۔۔

اب میں راشن کی قطاروں میں نظرآتاہوں

اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزاپاتاہوں
Load Next Story