ڈاکٹر اختر شمار کی ’’اختر شماریاں‘‘
اسی ’’اختر شماری‘‘سے ان کے اندر شاعر نمودار ہو گیا
اس کے نزدیک غمِ ترک وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازمحبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
ایسے بے شمار اشعار کے خالق، خوشبو سے معطر، باد نسیم کے نرم جھونکوں میں لپٹے، زبان وبیان اور اسلوب تازہ کے ساتھ عمیق مشاہدات، نازک احساسات، تلخ و شیریں تجربات اور شدت جذبات کو شعری قالب میں ڈھالنے پر مکمل دست رس رکھنے والے ڈاکٹر اختر شمار 17 اپریل 1960 کو راولپنڈی کے گاؤں سہال چکری میں محمد اکبر خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کا نام محمد اعظم خان رکھا لیکن انھوں نے عظمت کے پیدائشی تصور کو قبول نہ کیا ور اپنی قسمت آپ بنانے کے لیے'' اختر شماری'' شروع کر دی۔
اسی ''اختر شماری''سے ان کے اندر شاعر نمودار ہو گیا۔ شعرو سخن میں انھوں نے اُستاد شاعر بیدر حیدری سے تربیت پائی۔ خالد علیم بتاتے ہیں کہ''ڈاکٹراختر شمار اپنے عہد کے ہم عصر شعراء میں ممتاز شاعر تھے۔''ان کے والدگرامی بہت عرصہ تک ملتان میں آباد میں مقیم رہے اور ڈاکٹر اختر شمار نے بی اے تک تعلیم ملتان میں حاصل کی جب کہ ایم اے اُردو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے کیااور اس کے بعد اپنے درس و تدریس کا آغاز گورنمنٹ کالج قصور سے کیا ۔
بعدازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوتے ہوئے ایف سی کالج تک پہنچے اور ''حیدر دہلوی،احوال وآثار'' کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ترقی کے اگلے زینے پر پہنچے تو ایف سی کالج لاہور میں شعبہ اردو کے چیئرپرسن کے طور پر کام کرنے لگے۔ اس سے قبل جامعہ الازہر (مصر) میں پڑھاتے رہے اور چیئرمین ادبیات اردو، عین الشمس یونیورسٹی(مصر) بھی رہے۔ 80 کی دہائی میں جب ملتان سے شہر لاہور میںسکونت اختیار کی توان کی سانسوں میں اولیاء کی سرزمین کی محبت اور اپنے شہر کی خوشبو ان کی رگ رگ میں بستی ہوئی تھی۔
آج بھی رگ رگ میں ہے تیرے شہر کی گرمی
اپنے لہو میں ہم ملتان لیے پھرتے ہیں
ڈاکٹر اختر شمار نے درس و تدریس، شاعری سے مشاعروں کے اسٹیج اور کالم نگاری تک طویل مسافت طے کی۔ اس دوران میں وہ تجربات و مشاہدات کی جن دنیاؤں سے گزرے، ساتھ گہرے ادبی مطالعے نے ذہن کو جو بلند آہنگی اور وسعت بخشی۔ ان کے شعری سفر کی ابتداء1984میں ہائیکو ''روشنی کے پھول'' پیش کرنے سے ہوئی۔ ان کے دیگر شعری مجموعے، روشنی کے پھول،کسی کی آنکھ ہوئے ہم،یہ آغازِ محبت ہے،جیون تیرے نام،ہمیں تیری تمنا ہے۔
آپ سا کوئی نہیں،اور تم ہی میری محبت ہو، مادری زبان میں ''اکھیاں دے وچ دل''اور''میلہ چار دیہاڑے'' شایع ہو چکی ہیں۔ان کی نثر نگاری کو دیکھیں تو ''مسلم تہذیب و فکر کا مطالعہ''،پنجابی ادب رنگ،بھرتری ہری ایک عظیم شاعر،میں بھی پاکستان ہوں،ہم زندہ قوم ہیں،ویلے دی اکھ،دنیا مسافر خانہ اے،خطوں میں دفن محبت،آدابِ خود آگاہی،موسیٰ سے مرسی تک،لاہور کی ادبی ڈائری،جی بسم اللہ جیسی شاندار کتابیں شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب زندہ دل ،محبت پرور اور رومانٹک آدمی تھے۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیاز ی کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے کہ''رومانٹک آدمی ہی اصل میں انقلابی آدمی ہوتا ہے۔''وہ جب محبت کے مراحل سے گزرتے ہیں تو اپنی آنکھوں سے بہتے آنسوکو ستارہ کی مانند دیکھتے اور اپنے مسیحا سے دلِ بیمار کی حالت پر ایک نظر ڈالنے پر دیر نہیں کرتے۔
اک نظر ڈال کبھی میرے مسیحا مجھ پر
تیرا کیا جائے گا بیمار کو اچھا کر کے
اے محبت کے مراحل سے گزرنے والے
تو نے آنسو کبھی دیکھا ہے ستارہ کر کے
ان کا ایک اور اہم حوالہ صحافت تھا، لاہور اور دیگر شہروں کے ادبی اخبارات ورسائل میں کام کرنے کے علاوہ انھوں نے ایک ادبی جریدہ ''بجنگ آمد'' کے نام سے جاری کیا۔ جس میں ادب اور سیاست کو بھی ایک ساتھ شامل کیا گیا یوں اس طرح سے ادبی جریدہ نگاری میں سیاسی رنگ دینے کا اعزاز بھی ڈاکٹر اختر شمار کو حاصل ہوا۔ ایک زمانے میں ڈاکٹر اختر شمار نے لاہور کے دو مشہور ادبی گروہوں کی ''جنگ'' کو اس پرچے میں خصوصی اہمیت دی لیکن اپنی غیر جانبداری پر حرف نہ آنے دیا۔
انھوں نے اپنے اداریوں میں ادبی گروہ بندیوں کی ہمیشہ مخالفت کی اور خود کو بھی کسی ادبی گروہ کا حصہ نہ بننا دیا۔ ملک مقبول احمد اپنی کتاب ''مشاہیر ِ ادب'' میں لکھتے ہیں کہ''اُس دور میں ان کی غزل ''فنون'' اور ''اوراق'' میں شایع نہیں ہوئی جب کہ ان کے تعلقات احمد ندیم قاسمی سے بھی عقیدت مندانہ تھے اور وہ ڈاکٹر وزیر آغا کو اردو ادب کا عظیم ادیب بھی تسلیم کرتے رہے ہیں۔''
ڈاکٹر اختر شمار کا شمار پاکستان کے اُن مقبول و مشہور شعرا میں رہا جو مشاعروں میں کلام پڑھنے اور سامعین کا دل جیتنے کا فن جانتے تھے۔ یہ کہنا بھی بے جانہ ہو گا کہ وہ اپنی شاعری اور پڑھنے کے انداز سے پاکستان اور دنیا کے ہر اُس ملک میں پسند کیے جاتے تھے جہاں جہاں اردو اور پنجابی بولی سمجھی جاتی ہے۔ ملاقاتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے نوید صادق بتاتے ہیں کہ''ڈاکٹر اختر شمار میرے بہت قریب رہ چکے ہیں ان سے اکثر ملاقات رہتی ،ان سے میرا تعلق 1991 سے جڑا اور کسی نہ کسی صورت قیام رہا۔ پچھلے آٹھ سال میں جب لاہور میں شفٹ ہُوا تو وہ میرے بہت قریب رہے یہاں اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ مزید بڑھا۔ ڈاکٹر صاحب بہت مخلص دوست اور باکمال شاعر تھے۔
ان کی کلیات''اختر شماریاں'' پر اُن سے عید الضحیٰ کے موقع پر میرا پلان بن رہا تھا کہ اس کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا جائے، مگر اللہ تعالیٰ نے مزید اس کی مہلت نہ دی۔وہ غزل، نظم اور پنجابی شاعری کے ساتھ ساتھ حمد و نعت بہت عمدہ کہتے تھے اُن کے ہاں صوفیانہ آہنگ جو ہے اُن کی شاعری میں وہی اُن کی نثری تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ ایک اچھے دوست کے بچھڑ جانے کے صدمے سے ابھی تک باہر نہیں آئے۔''ان کی کلیات''اختر شماریاں'' کو شاعرعلی شاعر نے اپنے اشاعتی ادارے ''رنگ ادب'' سے شایع کر کے اپنی ادب دوستی کا ثبوت دیا۔
یا مجھ کو اپنے پاؤں پر گرنے سے روک دے
یا میری لغزشوں کو عبادت شمار کر
پانچ اگست کو فیس بک پر ان کے بیمار ہونے کی خبر پڑھی تو فوراََ میں نے نوید صادق کو کال کی اور ان کی طبیعت دریافت کی تو پتہ چلا وہ آئی سی یو روم میں ہے۔ ان کی صحت یابی کے لیے دُعا کریں۔ دو دن گزرنے کے بعدفیس بک پر پوسٹ دیکھی کہ''ہائے ڈاکٹر اختر شمار'' اس المناک خبر کو پڑھ کر میں نم دیدہ سا ہو گیا کہ ابھی ہم قائم نقوی کا غم نہیں بھولے تھے کہ اس غم سے پوری ادبی دنیا میں صف ماتم بچھ گئی۔ اُردو شاعری کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔