پاکستان کی معیشت
کیا پاکستان کی انڈسٹری اتنی مہنگی بجلی کی متحمل ہوسکتی ہے؟
ملکی سیاست اس وقت ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ سیاسی کشیدگی اور ٹکراؤ کی کیفیت کے اثرات ملکی معیشت پر بھی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی ممکنہ بحالی اور دوست ممالک کی مدد سے ہم فوری طور پر دیوالیہ ہونے سے تو شاید بچ جائیں، لیکن عالمی سطح پر توانائی کی بڑھتی قیمتوں، بلند شرح سود اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پاکستان کی صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ عالمی سطح پر توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بھاری بھرکم بجلی کے بلوں کی صورت براہ راست عوام تک پہنچنا شروع ہو چکے ہیں۔
عام صارفین کو اگست میں جون اور جولائی کے مہینوں کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ سو سے 150 فیصد تک اضافی بل موصول ہوئے جس پر شہری حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ عام صارفین کے احتجاج کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے عام صارفین کے لیے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بجلی بلوں سے ختم کرنے کا حکم دے دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی انڈسٹری اتنی مہنگی بجلی کی متحمل ہوسکتی ہے؟ کیا بلند پیداواری لاگت کے ساتھ ہم عالمی مارکیٹ میں بھارت اور بنگلہ دیش کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اس وقت ہماری معیشت پہلے ہی 18 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور 49 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ملکی معیشت کسی صورت برآمدات میں کمی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ برآمدات میں معمولی سی کمی کا بھی مطلب ہے کرنٹ اکاونٹ خسارے میں اضافہ اور غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے مزید ڈالرز کی ضرورت۔
درآمدات پر پابندی اور بھاری ٹیکسز کے اثرات تو عام شہری کسی طرح برداشت کرلیں گے لیکن ملکی ترقی کے لیے نہ صرف صنعتی پہیہ چلنا ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے اس وقت پاکستان سوائے ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، چاول اور چمڑے کے سامان کے علاوہ کوئی قابل ذکر پروڈکٹ برآمد نہیں کرتا۔ ملکی برآمدات میں 55 فیصد حصہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ہے۔
گزشتہ سالوں میں پاکستان نے سوائے آئی ٹی اور ٹیکسٹائل کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں نمایاں گروتھ نہیں کی، لیکن مہنگی بجلی، لوڈ شیڈنگ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والا ٹیکسٹائل شعبہ بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کے لیے ایکسپورٹ کے بعد دوسرا بڑا ذریعہ براہ راست سرمایہ کاری ہوتا ہے۔ براہ راست سرمایہ کاری سے ملک میں نہ صرف نئی ٹیکنالوجی آتی ہے بلکہ نئی انڈسٹری لگنے سے ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم براہ راست سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کاروں اور دوست ممالک کے لیے موزوں حالات پیدا نہیں کرسکے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں سوائے چین کے کسی ملک نے بھی بڑی تعداد میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔
چین کی سرمایہ کاری کا بھی بڑا حجم سی پیک کے منصوبوں سے متعلق ہے۔چین کی مدد سے ہم نے سی پیک منصوبوں میں فیض آباد اور رشکئی میں خصوصی اکنامک زونز تو بنائے اور ان اکنامک زونز میں غیر ملکی کمپنیوں نے سرمایہ کاری بھی کی لیکن مہنگی بجلی،بڑھتی پیداواری لاگت،معاشی عدم استحکام اور سیاسی غیر یقینی کی فضا کی وجہ سے بہت ساری کمپنیاں اپنے آپریشن بند کرکے پاکستان سے واپس جارہی ہیں۔ مہنگی بجلی،بلند پیداواری لاگت کی وجہ سے ہم اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ کسی دوست ملک کو پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کے لیے دعو ت دے سکیں۔
سستی توانائی کی فراہمی کے بغیر معاشی ترقی کا خواب آج کے دور میں ممکن ہی نہیں۔ہمارے سامنے سنگاپور کی مثال موجود ہے۔سنگاپور رقبے کے لحاظ سے لاہور شہر سے بھی چھوٹا ملک ہے اور وسائل کے لحاظ سے سنگاپور ہر لحاظ سے پاکستان سے بہت پیچھے ہے لیکن ترقی کی رفتار کے حوالے سے دنیا بھر میں سنگاپور کی مثالیں دی جاتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے بھی تین گنا چھوٹا ملک جس کے پاس پاکستان جتنے وسائل بھی نہیں وہ چند سالوں میں ہم سے بہت آگے نکل گیا؟
سنگاپور کی حیران کن ترقی کے پیچھے صرف دو راز ہیں۔ سنگاپور کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی کو ایک الگ حیثیت نہیں دی گئی بلکہ ملک کی تمام تر ترقی اور خوشحالی کا ایک حصہ ہی سمجھا گیا۔ معیشت کا تعلق صرف اور صرف معاشیات سے نہیں تھا بلکہ معاشیات کے ساتھ ساتھ ریاست نے عا م شہری کی ترقی اور خوشحالی پر بھی براہ راست سرمایہ کاری کی اور اپنے ملک میں موجود انسانی وسائل کو بہترین انداز میں قومی ترقی کے لیے استعمال کیا۔دوسرا راز سنگاپور میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی اکنامک زونز کا قیام اور سرمایہ کاروں کے لیے ان خصوصی اکنامک زونز میں سستی توانائی کی مسلسل فراہمی اور ٹیکسز میں چھوٹ تھی۔
سنگاپور کی حیران کن ترقی سے چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ اس قدر متاثر ہوئے کہ لی کیوان یو کے پاس تشریف لائے اور ان سے ترقی کے گر سیکھنے چاہے۔چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ نے انسانی وسائل کو تربیت دیکر قومی وسائل کے طور پر استعمال کرنے کا گر سنگاپور سے ہی سیکھا۔اگر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک چین اپنے شہریوں کو تربیت دیکر ان کو صنعتی ترقی کا حصہ نہ بناتا تو آج چین شاید اپنی ڈیڑھ ارب آبادی کے لیے خوراک کا بندوبست کرنے میں بھی ناکام ہوتا۔
پاکستان اسٹارٹ اپس اور نالج اکانومی میں شاید دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں سے بھی بہت پیچھے ہے۔ہمارے لوگ دنیا بھر میں جاکر ہر شعبہ زندگی میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں بلکہ کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑتے ہیں کہ دنیا ششدر رہ جائے۔سوال یہ ہے کہ ہمارے سسٹم میں وہ کونسی خرابی ہے جو ہمارے شہریوں کو موجودہ نظام میں ترقی کرنے سے روکتی ہے اور جیسے ہی ہمارے لوگ پاکستان سے باہر جائیں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں؟ارباب اختیار کو اس بارے میں ضرور سوچنا ہوگا۔
اس بات سے انکار نہیں کہ سیاسی عدم استحکام، معاشی استحکام پر اثر انداز ہو رہا ہے ،لیکن موجودہ حکومت کی جگہ کوئی پاپولر حکومت بھی آجائے تب بھی ہماری معاشی مشکلات میں کمی آنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔معاشی مسائل کا واحد حل بڑے پیمانے پراسٹرکچرل ریفارمز ہیں۔جب تک ہم پاکستان میں بزنس فرینڈلی ماحول نہیں بناتے اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل غیر ضروری رکاوٹوں کو دور نہیں کرتے تب تک مسائل حل ہونا تو دور کی بات ہم معاشی غیر یقینی کی دلدل میں دھنستے جائیں گے۔
عام صارفین کو اگست میں جون اور جولائی کے مہینوں کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ سو سے 150 فیصد تک اضافی بل موصول ہوئے جس پر شہری حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ عام صارفین کے احتجاج کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے عام صارفین کے لیے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بجلی بلوں سے ختم کرنے کا حکم دے دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی انڈسٹری اتنی مہنگی بجلی کی متحمل ہوسکتی ہے؟ کیا بلند پیداواری لاگت کے ساتھ ہم عالمی مارکیٹ میں بھارت اور بنگلہ دیش کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اس وقت ہماری معیشت پہلے ہی 18 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور 49 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ملکی معیشت کسی صورت برآمدات میں کمی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ برآمدات میں معمولی سی کمی کا بھی مطلب ہے کرنٹ اکاونٹ خسارے میں اضافہ اور غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے مزید ڈالرز کی ضرورت۔
درآمدات پر پابندی اور بھاری ٹیکسز کے اثرات تو عام شہری کسی طرح برداشت کرلیں گے لیکن ملکی ترقی کے لیے نہ صرف صنعتی پہیہ چلنا ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے اس وقت پاکستان سوائے ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، چاول اور چمڑے کے سامان کے علاوہ کوئی قابل ذکر پروڈکٹ برآمد نہیں کرتا۔ ملکی برآمدات میں 55 فیصد حصہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ہے۔
گزشتہ سالوں میں پاکستان نے سوائے آئی ٹی اور ٹیکسٹائل کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں نمایاں گروتھ نہیں کی، لیکن مہنگی بجلی، لوڈ شیڈنگ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والا ٹیکسٹائل شعبہ بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کے لیے ایکسپورٹ کے بعد دوسرا بڑا ذریعہ براہ راست سرمایہ کاری ہوتا ہے۔ براہ راست سرمایہ کاری سے ملک میں نہ صرف نئی ٹیکنالوجی آتی ہے بلکہ نئی انڈسٹری لگنے سے ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم براہ راست سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کاروں اور دوست ممالک کے لیے موزوں حالات پیدا نہیں کرسکے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں سوائے چین کے کسی ملک نے بھی بڑی تعداد میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔
چین کی سرمایہ کاری کا بھی بڑا حجم سی پیک کے منصوبوں سے متعلق ہے۔چین کی مدد سے ہم نے سی پیک منصوبوں میں فیض آباد اور رشکئی میں خصوصی اکنامک زونز تو بنائے اور ان اکنامک زونز میں غیر ملکی کمپنیوں نے سرمایہ کاری بھی کی لیکن مہنگی بجلی،بڑھتی پیداواری لاگت،معاشی عدم استحکام اور سیاسی غیر یقینی کی فضا کی وجہ سے بہت ساری کمپنیاں اپنے آپریشن بند کرکے پاکستان سے واپس جارہی ہیں۔ مہنگی بجلی،بلند پیداواری لاگت کی وجہ سے ہم اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ کسی دوست ملک کو پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کے لیے دعو ت دے سکیں۔
سستی توانائی کی فراہمی کے بغیر معاشی ترقی کا خواب آج کے دور میں ممکن ہی نہیں۔ہمارے سامنے سنگاپور کی مثال موجود ہے۔سنگاپور رقبے کے لحاظ سے لاہور شہر سے بھی چھوٹا ملک ہے اور وسائل کے لحاظ سے سنگاپور ہر لحاظ سے پاکستان سے بہت پیچھے ہے لیکن ترقی کی رفتار کے حوالے سے دنیا بھر میں سنگاپور کی مثالیں دی جاتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے بھی تین گنا چھوٹا ملک جس کے پاس پاکستان جتنے وسائل بھی نہیں وہ چند سالوں میں ہم سے بہت آگے نکل گیا؟
سنگاپور کی حیران کن ترقی کے پیچھے صرف دو راز ہیں۔ سنگاپور کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی کو ایک الگ حیثیت نہیں دی گئی بلکہ ملک کی تمام تر ترقی اور خوشحالی کا ایک حصہ ہی سمجھا گیا۔ معیشت کا تعلق صرف اور صرف معاشیات سے نہیں تھا بلکہ معاشیات کے ساتھ ساتھ ریاست نے عا م شہری کی ترقی اور خوشحالی پر بھی براہ راست سرمایہ کاری کی اور اپنے ملک میں موجود انسانی وسائل کو بہترین انداز میں قومی ترقی کے لیے استعمال کیا۔دوسرا راز سنگاپور میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی اکنامک زونز کا قیام اور سرمایہ کاروں کے لیے ان خصوصی اکنامک زونز میں سستی توانائی کی مسلسل فراہمی اور ٹیکسز میں چھوٹ تھی۔
سنگاپور کی حیران کن ترقی سے چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ اس قدر متاثر ہوئے کہ لی کیوان یو کے پاس تشریف لائے اور ان سے ترقی کے گر سیکھنے چاہے۔چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ نے انسانی وسائل کو تربیت دیکر قومی وسائل کے طور پر استعمال کرنے کا گر سنگاپور سے ہی سیکھا۔اگر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک چین اپنے شہریوں کو تربیت دیکر ان کو صنعتی ترقی کا حصہ نہ بناتا تو آج چین شاید اپنی ڈیڑھ ارب آبادی کے لیے خوراک کا بندوبست کرنے میں بھی ناکام ہوتا۔
پاکستان اسٹارٹ اپس اور نالج اکانومی میں شاید دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں سے بھی بہت پیچھے ہے۔ہمارے لوگ دنیا بھر میں جاکر ہر شعبہ زندگی میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں بلکہ کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑتے ہیں کہ دنیا ششدر رہ جائے۔سوال یہ ہے کہ ہمارے سسٹم میں وہ کونسی خرابی ہے جو ہمارے شہریوں کو موجودہ نظام میں ترقی کرنے سے روکتی ہے اور جیسے ہی ہمارے لوگ پاکستان سے باہر جائیں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں؟ارباب اختیار کو اس بارے میں ضرور سوچنا ہوگا۔
اس بات سے انکار نہیں کہ سیاسی عدم استحکام، معاشی استحکام پر اثر انداز ہو رہا ہے ،لیکن موجودہ حکومت کی جگہ کوئی پاپولر حکومت بھی آجائے تب بھی ہماری معاشی مشکلات میں کمی آنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔معاشی مسائل کا واحد حل بڑے پیمانے پراسٹرکچرل ریفارمز ہیں۔جب تک ہم پاکستان میں بزنس فرینڈلی ماحول نہیں بناتے اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل غیر ضروری رکاوٹوں کو دور نہیں کرتے تب تک مسائل حل ہونا تو دور کی بات ہم معاشی غیر یقینی کی دلدل میں دھنستے جائیں گے۔