گلوکارہ نیرہ نور فن گائیکی کا ایک عہد تمام
نیرہ نور تقریباً 2 سال سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں
انتہائی نیک، باکردار، خوب سیرت، شریف زادی اور نرم دل معروف گلوکارہ نیرہ نور بھی اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلی گئیں۔ راقم کی ان سے 1993 سے یاد اللہ تھی، اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں، 1994 کی بات ہے، راقم ایک اخبار میں شوبزنس کے پیج سے وابستہ تھا، نیرہ جی کے کئی انٹرویوز کیے، سن یاد نہیں، غالباً 2005 میں روزنامہ ایکسپریس میں بھی ان پر تحریریں لکھتا رہا، نیرہ نور تقریباً 2 سال سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں، انھوں نے 72 سال عمر پائی۔ شرافت کا مجسمہ تھیں، شہریار زیدی ان کے شریک حیات ہیں، انتہائی سلجھے ہوئے اور نیک انسان ہیں، اچھے اداکار بھی ہیں۔
نیرہ نور مرحومہ کو فن گائیکی کے حوالے سے بہت اعزازات ملے، مگر تکبر نام کی کوئی چیز ان میں نہیں پائی جاتی تھی۔ وہ معصوم اور نیک خاتون تھیں، کچھ واقعات پر روشنی ڈال دیتا ہوں کہ ان سے ماضی میں بہت ملاقاتیں ہوتی تھیں، سب سے پہلے تو ان کے ایک گیت جس کے شاعر بہزاد لکھنوی تھے، انھوں نے اسے گا کر اپنے آپ کو امر کر لیا۔
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آ جائے
اس گیت سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں، جو نیرہ نور سے جڑی ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے تو میں گلوکارہ نور جہاں مرحومہ کا تذکرہ کروں گا، جب ان سے ملاقات ان کے گھر میں ہوئی، جو ایک انٹرویو کا سلسلہ تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بڑی گلوکارہ ہیں، مگر کوئی ایسا گیت جو کسی اور گلوکارہ نے گایا ہو، آپ کو بہت پسند ہو، تو انھوں نے نیرہ نور کی اس غزل کا تذکرہ کیا کہ مجھے یہ غزل نیرہ کی بہت پسند ہے، کاش اس غزل کو میں گاتی۔ دبئی میں ایک ملاقات میں بھارتی اداکار قادر خان نے ہمیں بتایا تھا کہ میری خواہش ہے کہ نیرہ نور سے ایک ملاقات ہو، پاکستان میں ایک چیریٹی شو ہو رہا ہے۔
اگر پاکستان گیا تو نیرہ نور سے ضرور ملوں گا اور ان سے فرمائش کروں گا کہ یہ گیت ''اے جذبۂ دل'' اپنے بھائی کو ضرور سنا دیں۔ انھوں نے بتایا بمبئی کے ایک رئیس زادے کے گھر فنکشن تھا، میں بحیثیت آرٹسٹ مدعو تھا، اس فیملی کے لتا جی سے بہت اچھے تعلقات تھے، لتا جی بھی آئی ہوئی تھیں۔ بات گلوکاری کی ہوئی تو لتا جی نے مجھ سے کہا '' پاکستانی گلوکارہ نیرہ نور کی یہ غزل ''اے جذبہ دل'' کی تعریف نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں ہے'' پھر اس محفل میں بھارتی اسٹیج کی معروف گلوکارہ عابدہ ریاض نے پہلی غزل فنکشن میں ہی سنا کر محفل کو لوٹ لیا اور گیت کے اختتام پر لتا جی نے عابدہ کو گلے لگا لیا۔ ڈاکٹر قدیر خان مرحوم سے ہماری ایک ملاقات ہوئی، ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ قدیر خان مرحوم بہت زندہ دل انسان تھے، ان سے شوبزنس کے حوالے سے بات ہوئی۔
اداکار محمد علی مرحوم اور ندیم کو بہت پسند کرتے تھے۔ گلوکاری میں برجستہ کہا کہ نیرہ نور کی یہ غزل ''اے جذبہ دل'' مجھے بہت پسند ہے۔ قارئین! آپ یقین کریں کہ انھوں نے اس محفل میں ٹھہر ٹھہر کر گا کر مختصر اس غزل کو خود گا کے سنایا انھیں یہ غزل بہت پسند تھی۔
آئیے ! اب نیرہ نور کی سادگی پر کچھ بات ہو جائے۔ پی ٹی وی کراچی کے جی ایم امیر امام ہوا کرتے تھے، سلطان راہی ایک فلم کی شوٹنگ کے حوالے سے کراچی میں تھے، امیر امام اور ان کی ٹیم نے ایک انٹرویوکرنا تھا، سلطان راہی اور راقم امیر امام کے کمرے میں بیٹھے تھے کہ نیرہ نور آگئیں ان کی کوئی ریکارڈنگ تھی، سلطان راہی بڑے فنکار تھے، عزت و تکریم سے کھڑے ہوگئے۔
نیرہ نے کہا '' راہی صاحب! شرمندہ نہ کریں'' انھوں نے بہت شفقت سے کہا'' نیرہ! آپ تو میری بہن ہیں اور میں بہنوں کی بہت عزت کرتا ہوں اور آپ کی غزل '' اے جذبہ دل'' تو میرے دل میں رہتی ہے۔ اکثر اس غزل کو سنتا ہوں۔'' اداکار محمد علی، مہناز اور نیرہ نور کی گائیکی کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہم ان کے گھر میں بیٹھے تھے، ان کے ہمراہ ''علی سفیان آفاقی'' بھی تھے۔
بات گلوکاری کی ہوئی تو علی نے برجستہ کہا '' نیرہ نور سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں فلم ''گھرانہ'' کے سیٹ پر بھی ایک دفعہ ملاقات ہوئی۔ یہ میری سپرہٹ فلم تھی، اس میں ایک گیت ریکارڈ ہوا ''تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں'' یہ نیرہ نور کا پہلا فلمی گیت تھا۔ اس کے شاعر کلیم عثمانی تھے۔ (علی کی عادت تھی، وہ خواتین کو اکثر بٹیا کرکے مخاطب کیا کرتے تھے) کلیم عثمانی نے جب مجھے بتایا کہ فلم ''گھرانہ'' کا گیت انھوں نے گایا ہے ''تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں'' تو مجھے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے برجستہ کہا کہ '' آپ تو بہت کم عمر ہیں، مگر اس گیت کو گا کر آپ نے اس عمر میں کمال کردیا'' علی نے مزید بتایا کہ اس گیت کی وجہ سے بھی فلم ''گھرانہ'' سپرہٹ ہوئی تھی۔
اس محفل میں علی سفیان آفاقی کہہ رہے تھے کہ '' جب نیرہ نے خوب صورت اور کامیاب گیت گائے تو مجھے خیال آیا کہ میں بھی اپنی آنے والی فلم میں نیرہ سے رابطہ کروں گا ، مگر چونکہ وہ زیادہ تر کراچی میں رہتی تھیں میں نے موسیقار نثار بزمی سے بات کی کہ میں ایک فلم ''آس'' شروع کرنے والا ہوں، جس کی ہیروئن شبنم ہیں، نثار بھائی! آپ نیرہ سے بات کریں کہ وہ میری فلم کے لیے گیت ریکارڈ کروائیں'' نیرہ نور بہت سیدھی خاتون تھیں۔ نثار بزمی کی بہت عزت کرتی تھیں، پھر انھوں نے آفاقی صاحب کی فلم ''آس'' کے لیے یہ گیت ریکارڈ کروایا جو شبنم پر فلم بند ہوا اور اپنے وقت کا سپرہٹ گیت تھا، یہ فلم محمد علی کی اداکاری اور نیرہ نور کے گیت کی وجہ سے بہت ہٹ ہوئی۔ گیت کے بول تھے : بول ری گڑیا بول ذرا
اداکار ندیم نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ فلم ''آئینہ'' پاکستان کی سپرہٹ فلم تھی، کوئی ضروری نہیں کہ فلم ہیروئن یا ہیرو کی وجہ سے ہٹ ہوکبھی کبھی گیت بھی فلم کو سپرہٹ کردیا کرتے ہیں، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے معروف ہدایت کار احتشام نے جب ''چکوری'' بنائی جو میری پہلی فلم تھی۔
اس فلم میں انور ہیرو تھے، کچھ ناچاقی کی وجہ سے انھیں ''چکوری'' سے نکال دیا تھا، اور مجھے فلم ''چکوری'' کا ہیرو لیا۔ یاد رہے کہ اداکار بننے سے پہلے اداکار ندیم کراچی اسٹیج کے معروف گلوکار تھے اور قدرت نے انھیں بہت اچھی آواز سے نوازا تھا، ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہدایت کار احتشام نے فلم ''چکوری'' میں انھیں سائن کیا اور ''چکوری'' میں ندیم نے بہت عمدہ گیت گائے تھے۔ ''چکوری'' اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی اور اس میں ندیم نے بہت خوب صورت گائیکی کا بھی مظاہرہ کیا تھا۔ انھوں نے بتایا تھا کہ نیرہ نور بہت اچھی گلوکارہ ہیں، فلم ''آئینہ'' میں یہ گیت ''روٹھے ہو تم' تم کو کیسے مناؤں پیا'' یہ گیت فلم کی جان تھا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نیرہ نور کے اس گیت نے فلم میں چار چاند لگا دیے تھے۔
وہ بہت سادہ اور نیک خاتون تھیں۔ اخلاق احمد مرحوم بہت اچھے گلوکار تھے، کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے اور کافی بیمار رہے۔ ان سے لاہور میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی، شوبزنس کے حوالے سے باتیں ہو رہی تھیں کہ نیرہ نور کا تذکرہ ہم نے کیا وہ اس موقع پر بہت اداس ہوگئے اور کہا کہ اب اخلاق احمد سے لوگ رابطہ نہیں کرتے۔ نیرہ نور بہن اکثر فون پر خیریت دریافت کرتی ہیں۔ ایک واقعہ انھوں نے سناتے ہوئے کہا کہ فلم ''امنگ'' کے گیت کی ریہرسل ہو رہی تھی، میں سیٹ پر تاخیر سے آیا جب کہ نیرہ نور وقت کی بہت پابند تھیں، وہ وقت پر ریکارڈنگ کے لیے پہنچ گئی تھیں اور مجھے دیکھ کر مسکرا کر کہا کہ'' اخلاق! کبھی تو وقت پر آجایا کرو، اب تم اپنا اخلاق بہتر کرلو۔'' سیٹ پر جتنے بھی لوگ بیٹھے تھے، سب ہنسنے لگے۔
وہ بہت شفیق طبیعت کی خاتون ہیں۔ ہمیشہ مسکرا کر اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل جھجک نہیں ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے فلم ''امنگ'' کا یہ گیت ''رات بھر سجناں کو یاد تو کیا ہوگا'' بہت خوبصورت ریکارڈ ہوا۔ وہ میری بڑی بہن کا درجہ رکھتی تھیں۔ ان کی کاوشوں سے اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے یہ دوگانہ سپرہٹ ہوا۔ نیرہ نور اور مہناز اپنی مثال آپ تھیں۔
جہاں نیرہ نور نے خوبصورت گیت گائے وہاں انھوں نے ملکی محبت کے ناتے ملی نغمے بھی بہت خوبصورت گائے ان کا یہ ملی نغمہ بچے بچے کی زبان پر تھا جو اپنی مثال آپ تھا ''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔'' نیرہ نورہ اب ہم میں نہیں ہیں، وہ نہ آنے کے لیے اس دنیا سے گئی ہیں، مگر ان کی یادیں اور نرم لہجے کی گفتگو ہمارا حصار کرتی رہے گی۔ رب ان کی مغفرت کرے۔
نیرہ نور مرحومہ کو فن گائیکی کے حوالے سے بہت اعزازات ملے، مگر تکبر نام کی کوئی چیز ان میں نہیں پائی جاتی تھی۔ وہ معصوم اور نیک خاتون تھیں، کچھ واقعات پر روشنی ڈال دیتا ہوں کہ ان سے ماضی میں بہت ملاقاتیں ہوتی تھیں، سب سے پہلے تو ان کے ایک گیت جس کے شاعر بہزاد لکھنوی تھے، انھوں نے اسے گا کر اپنے آپ کو امر کر لیا۔
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آ جائے
اس گیت سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں، جو نیرہ نور سے جڑی ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے تو میں گلوکارہ نور جہاں مرحومہ کا تذکرہ کروں گا، جب ان سے ملاقات ان کے گھر میں ہوئی، جو ایک انٹرویو کا سلسلہ تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بڑی گلوکارہ ہیں، مگر کوئی ایسا گیت جو کسی اور گلوکارہ نے گایا ہو، آپ کو بہت پسند ہو، تو انھوں نے نیرہ نور کی اس غزل کا تذکرہ کیا کہ مجھے یہ غزل نیرہ کی بہت پسند ہے، کاش اس غزل کو میں گاتی۔ دبئی میں ایک ملاقات میں بھارتی اداکار قادر خان نے ہمیں بتایا تھا کہ میری خواہش ہے کہ نیرہ نور سے ایک ملاقات ہو، پاکستان میں ایک چیریٹی شو ہو رہا ہے۔
اگر پاکستان گیا تو نیرہ نور سے ضرور ملوں گا اور ان سے فرمائش کروں گا کہ یہ گیت ''اے جذبۂ دل'' اپنے بھائی کو ضرور سنا دیں۔ انھوں نے بتایا بمبئی کے ایک رئیس زادے کے گھر فنکشن تھا، میں بحیثیت آرٹسٹ مدعو تھا، اس فیملی کے لتا جی سے بہت اچھے تعلقات تھے، لتا جی بھی آئی ہوئی تھیں۔ بات گلوکاری کی ہوئی تو لتا جی نے مجھ سے کہا '' پاکستانی گلوکارہ نیرہ نور کی یہ غزل ''اے جذبہ دل'' کی تعریف نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں ہے'' پھر اس محفل میں بھارتی اسٹیج کی معروف گلوکارہ عابدہ ریاض نے پہلی غزل فنکشن میں ہی سنا کر محفل کو لوٹ لیا اور گیت کے اختتام پر لتا جی نے عابدہ کو گلے لگا لیا۔ ڈاکٹر قدیر خان مرحوم سے ہماری ایک ملاقات ہوئی، ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ قدیر خان مرحوم بہت زندہ دل انسان تھے، ان سے شوبزنس کے حوالے سے بات ہوئی۔
اداکار محمد علی مرحوم اور ندیم کو بہت پسند کرتے تھے۔ گلوکاری میں برجستہ کہا کہ نیرہ نور کی یہ غزل ''اے جذبہ دل'' مجھے بہت پسند ہے۔ قارئین! آپ یقین کریں کہ انھوں نے اس محفل میں ٹھہر ٹھہر کر گا کر مختصر اس غزل کو خود گا کے سنایا انھیں یہ غزل بہت پسند تھی۔
آئیے ! اب نیرہ نور کی سادگی پر کچھ بات ہو جائے۔ پی ٹی وی کراچی کے جی ایم امیر امام ہوا کرتے تھے، سلطان راہی ایک فلم کی شوٹنگ کے حوالے سے کراچی میں تھے، امیر امام اور ان کی ٹیم نے ایک انٹرویوکرنا تھا، سلطان راہی اور راقم امیر امام کے کمرے میں بیٹھے تھے کہ نیرہ نور آگئیں ان کی کوئی ریکارڈنگ تھی، سلطان راہی بڑے فنکار تھے، عزت و تکریم سے کھڑے ہوگئے۔
نیرہ نے کہا '' راہی صاحب! شرمندہ نہ کریں'' انھوں نے بہت شفقت سے کہا'' نیرہ! آپ تو میری بہن ہیں اور میں بہنوں کی بہت عزت کرتا ہوں اور آپ کی غزل '' اے جذبہ دل'' تو میرے دل میں رہتی ہے۔ اکثر اس غزل کو سنتا ہوں۔'' اداکار محمد علی، مہناز اور نیرہ نور کی گائیکی کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہم ان کے گھر میں بیٹھے تھے، ان کے ہمراہ ''علی سفیان آفاقی'' بھی تھے۔
بات گلوکاری کی ہوئی تو علی نے برجستہ کہا '' نیرہ نور سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں فلم ''گھرانہ'' کے سیٹ پر بھی ایک دفعہ ملاقات ہوئی۔ یہ میری سپرہٹ فلم تھی، اس میں ایک گیت ریکارڈ ہوا ''تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں'' یہ نیرہ نور کا پہلا فلمی گیت تھا۔ اس کے شاعر کلیم عثمانی تھے۔ (علی کی عادت تھی، وہ خواتین کو اکثر بٹیا کرکے مخاطب کیا کرتے تھے) کلیم عثمانی نے جب مجھے بتایا کہ فلم ''گھرانہ'' کا گیت انھوں نے گایا ہے ''تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں'' تو مجھے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے برجستہ کہا کہ '' آپ تو بہت کم عمر ہیں، مگر اس گیت کو گا کر آپ نے اس عمر میں کمال کردیا'' علی نے مزید بتایا کہ اس گیت کی وجہ سے بھی فلم ''گھرانہ'' سپرہٹ ہوئی تھی۔
اس محفل میں علی سفیان آفاقی کہہ رہے تھے کہ '' جب نیرہ نے خوب صورت اور کامیاب گیت گائے تو مجھے خیال آیا کہ میں بھی اپنی آنے والی فلم میں نیرہ سے رابطہ کروں گا ، مگر چونکہ وہ زیادہ تر کراچی میں رہتی تھیں میں نے موسیقار نثار بزمی سے بات کی کہ میں ایک فلم ''آس'' شروع کرنے والا ہوں، جس کی ہیروئن شبنم ہیں، نثار بھائی! آپ نیرہ سے بات کریں کہ وہ میری فلم کے لیے گیت ریکارڈ کروائیں'' نیرہ نور بہت سیدھی خاتون تھیں۔ نثار بزمی کی بہت عزت کرتی تھیں، پھر انھوں نے آفاقی صاحب کی فلم ''آس'' کے لیے یہ گیت ریکارڈ کروایا جو شبنم پر فلم بند ہوا اور اپنے وقت کا سپرہٹ گیت تھا، یہ فلم محمد علی کی اداکاری اور نیرہ نور کے گیت کی وجہ سے بہت ہٹ ہوئی۔ گیت کے بول تھے : بول ری گڑیا بول ذرا
اداکار ندیم نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ فلم ''آئینہ'' پاکستان کی سپرہٹ فلم تھی، کوئی ضروری نہیں کہ فلم ہیروئن یا ہیرو کی وجہ سے ہٹ ہوکبھی کبھی گیت بھی فلم کو سپرہٹ کردیا کرتے ہیں، مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے معروف ہدایت کار احتشام نے جب ''چکوری'' بنائی جو میری پہلی فلم تھی۔
اس فلم میں انور ہیرو تھے، کچھ ناچاقی کی وجہ سے انھیں ''چکوری'' سے نکال دیا تھا، اور مجھے فلم ''چکوری'' کا ہیرو لیا۔ یاد رہے کہ اداکار بننے سے پہلے اداکار ندیم کراچی اسٹیج کے معروف گلوکار تھے اور قدرت نے انھیں بہت اچھی آواز سے نوازا تھا، ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہدایت کار احتشام نے فلم ''چکوری'' میں انھیں سائن کیا اور ''چکوری'' میں ندیم نے بہت عمدہ گیت گائے تھے۔ ''چکوری'' اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی اور اس میں ندیم نے بہت خوب صورت گائیکی کا بھی مظاہرہ کیا تھا۔ انھوں نے بتایا تھا کہ نیرہ نور بہت اچھی گلوکارہ ہیں، فلم ''آئینہ'' میں یہ گیت ''روٹھے ہو تم' تم کو کیسے مناؤں پیا'' یہ گیت فلم کی جان تھا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نیرہ نور کے اس گیت نے فلم میں چار چاند لگا دیے تھے۔
وہ بہت سادہ اور نیک خاتون تھیں۔ اخلاق احمد مرحوم بہت اچھے گلوکار تھے، کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے اور کافی بیمار رہے۔ ان سے لاہور میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی، شوبزنس کے حوالے سے باتیں ہو رہی تھیں کہ نیرہ نور کا تذکرہ ہم نے کیا وہ اس موقع پر بہت اداس ہوگئے اور کہا کہ اب اخلاق احمد سے لوگ رابطہ نہیں کرتے۔ نیرہ نور بہن اکثر فون پر خیریت دریافت کرتی ہیں۔ ایک واقعہ انھوں نے سناتے ہوئے کہا کہ فلم ''امنگ'' کے گیت کی ریہرسل ہو رہی تھی، میں سیٹ پر تاخیر سے آیا جب کہ نیرہ نور وقت کی بہت پابند تھیں، وہ وقت پر ریکارڈنگ کے لیے پہنچ گئی تھیں اور مجھے دیکھ کر مسکرا کر کہا کہ'' اخلاق! کبھی تو وقت پر آجایا کرو، اب تم اپنا اخلاق بہتر کرلو۔'' سیٹ پر جتنے بھی لوگ بیٹھے تھے، سب ہنسنے لگے۔
وہ بہت شفیق طبیعت کی خاتون ہیں۔ ہمیشہ مسکرا کر اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل جھجک نہیں ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے فلم ''امنگ'' کا یہ گیت ''رات بھر سجناں کو یاد تو کیا ہوگا'' بہت خوبصورت ریکارڈ ہوا۔ وہ میری بڑی بہن کا درجہ رکھتی تھیں۔ ان کی کاوشوں سے اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے یہ دوگانہ سپرہٹ ہوا۔ نیرہ نور اور مہناز اپنی مثال آپ تھیں۔
جہاں نیرہ نور نے خوبصورت گیت گائے وہاں انھوں نے ملکی محبت کے ناتے ملی نغمے بھی بہت خوبصورت گائے ان کا یہ ملی نغمہ بچے بچے کی زبان پر تھا جو اپنی مثال آپ تھا ''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔'' نیرہ نورہ اب ہم میں نہیں ہیں، وہ نہ آنے کے لیے اس دنیا سے گئی ہیں، مگر ان کی یادیں اور نرم لہجے کی گفتگو ہمارا حصار کرتی رہے گی۔ رب ان کی مغفرت کرے۔