اے غم دل کیا کروں اے وحشت ِ دل کیا کروں
اس بار تو کراچی کھنڈرات کی ایک پریشان کن تصویر ہی نظر آیا ہے
اس مرتبہ امریکا سے کراچی آنے کے بعد کراچی کو میں نے جتنا برباد دیکھا ہے، پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس بار تو کراچی کھنڈرات کی ایک پریشان کن تصویر ہی نظر آیا ہے۔ جیسے کسی نے ایک حسن و جمال کی مورت کو کرچیوں کرچیوں میں بکھیر کر رکھ دیا ہے اور پھر اپنے دور کے نامور شاعر مجاز لکھنوی کے ایک شعر کا مصرعہ ہر وقت ذہن میں گونجتا رہا ہے۔
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
مجاز لکھنوی بھی کیا خوب شاعر تھا اس دورکی نوجوان نسل مجاز لکھنوی کی دیوانی تھی، شہرت اس کے پیچھے پیچھے پھرتی تھی اور مجاز اپنی شہرت سے بے گانہ ہمہ وقت مے نوشی میں ڈوبا رہتا تھا اور وحشت زندگی کا محور بنا رہتا تھا۔
اسے اپنی زندگی سے زیادہ مے نوشی عزیز تھی ، زندگی کو اس کی چاہت کا احساس تھا مگر وہ زندگی کی چاہت کے احساس سے عاری اپنی جوانی کو مے نوشی کی نذرکیے جا رہا تھا انھی دنوں اس کا ایک گیت بڑا مشہور ہو رہا تھا جسے آل انڈیا ریڈیو نے ریکارڈ کیا اور یہ گیت اس دور کے نئے سنگر طلعت محمود کی آواز میں جیسے ہی آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا گیا تو سامعین کی توجہ کا مرکز بنتا چلا گیا تھا۔ اس گیت کی شاعری نے لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ اس گیت کا کچھ حصہ قارئین کی نذر ہے:
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
اے غم دل کیا کروں
یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون سمجھے کون جانے جی کا حال
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
راستے میں رک کے دم لوں یہ مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
اس زمانے میں یہ گیت آل انڈیا کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن رات نشر ہوتا تھا اور اس گیت کی مقبولیت نے سنگر طلعت محمود کو بھی شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا تھا۔ اس گیت کی شہرت پھر بمبئی کی فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی اور پھر یہ گیت فلم ''ٹھوکر'' کے لیے مجاز لکھنوی کی اجازت کے بعد ریکارڈ کیا گیا ، اس گیت کو فلم میں طلعت محمود کے ساتھ آشا بھوسلے نے بھی گایا تھا۔ مکھڑا ایک ہی تھا انترے مختلف تھے اور طلعت محمود والا گیت فلم میں ہیرو بلدیو کھوسلہ پر عکس بند کیا گیا تھا۔ اس گیت کی موسیقی سردار ملک نے مرتب کی تھی۔
فلم کے ہیرو کی اداکاری نے اس گیت کو مزید مقبولیت بخشی تھی۔ بمبئی کے کئی فلم سازوں نے چاہا کہ مجاز لکھنوی سے فلموں کے لیے گیت لکھوائے جائیں مگر مجاز لکھنوی تو بس اپنی دنیا ہی میں مگن تھا۔ اب میں آتا ہوں مجاز لکھنوی کی شاعرانہ شخصیت اور ابتدائی زندگی پر۔ مجاز لکھنوی کا گھریلو نام اسرار الحق تھا اور پھر شعر و ادب کی دنیا میں مجاز لکھنوی کے نام سے مشہور ہوا۔جوش ملیح آبادی نے ایک بار مجاز کو بڑا ہونے کے ناتے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا۔
'' میاں ہر وقت کا پینا چھوڑ دو، اگر چاہو تو ہماری طرح گھڑی رکھ کر پی لیا کرو'' تو مجاز نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا تھا۔ '' حضرت میرا بس چلے تو میں گھڑی کی جگہ گھڑا رکھ کر پیوں'' جوش صاحب یہ جواب سن کر خود ہی شرمندہ ہوگئے تھے۔ تو بھلا ایسے مے نوش نوجوان کو کوئی خاندان اپنی بیٹی کیسے دے سکتا تھا۔ لڑکی والوں کی طرف سے صاف جواب دے دیا گیا تھا کہ یہ رشتہ کسی صورت میں پسند نہیں ہے۔ اس نہ کے جواب کے بعد مجاز لکھنوی کی مے نوشی میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ اور مجاز کو زندگی بے معنی سی لگتی تھی وہ زندگی کو ختم کرنے کے درپے ہو گیا تھا۔
خاندان کے لوگوں نے اس کو سمجھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ سیکڑوں لڑکیوں کا وہ پسندیدہ شاعر تھا۔ اورکچھ لڑکیاں بھی اس کو دل سے چاہتی تھیں مگر جس لڑکی کو وہ چاہنے لگا تھا وہ لڑکی ایک خواب بن کر رہ گئی تھی۔ ایک تڑپ ایک خلش بن کر رہ گئی تھی اور پھر ہر وقت کی مے نوشی نے مجاز کی ساری توانائی کشید کرلی تھی۔ وہ شہر کی سنسان سڑکوں پر راتوں کو آوارہ پھرتا رہتا تھا۔ زندگی کو خود ہی موت کی آغوش میں دینے کے درپے تھا اور پھر ایک دن وہ اپنی زندگی کو کھو بیٹھا تھا۔
اسے موت کے قریب کرنے میں اس کی مے نوشی تھی، ایک خوبصورت انسان ایک ہر دلعزیز شاعر آہ بھری جوانی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا اور لاکھوں آنکھوں کو اشک بار کرگیا تھا۔ اے کاش وہ اور زندہ رہتا اور لکھتا رہتا مگر ایسا ہو نہ سکا، قدرت کو یہ منظور ہی نہ تھا۔
مجاز 1911 میں انڈیا کے علاقے ردولی میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم ردولی ہی کے اسکول سے حاصل کی پھر بقیہ تعلیم انٹر کالج لکھنو سے مکمل کی، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی اور تعلیم کے دوران ہی بحیثیت شاعر مجاز لکھنوی کی شہرت کا آغاز ہو چکا تھا اور اس کی شاعری کی دھوم مچ گئی تھی اور آہستہ آہستہ مجاز لکھنوی رومان پرست شاعر کی حیثیت سے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنتا چلا گیا۔ اس زمانے کی ایک نظم بڑی مشہور ہوئی تھی۔
یہ میرا چمن ہے میرا چمن
میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سرشار نگاہِ نرگس ہوں
پابستۂ گیسوئے سنبل ہوں
نوجوان نسل اس کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھائے رہتی تھی۔ اس کا پہلا مجموعہ '' کلام آہنگ'' کے نام سے منظر عام پر آیا اور کامیابی کی سند حاصل کی اور پھر اس کی شاعری کا سفر تیزی سے بڑھتا چلا گیا۔ مجاز لکھنوی رومانوی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی ترقی پسند تحریک کا بھی حصہ رہا۔ مجاز کا خاندان ایک مشہور ادبی خاندان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زمیندار خاندان بھی تھا جب کہ یہ صوفی خاندان بھی کہلاتا تھا۔ ان کے خاندان کے حضرت عثمان ہارونی فارسی کے مشہور صوفی شاعر بھی تھے۔مشہور شاعر جاں نثار اختر مجاز کے بہنوئی تھے۔ اس کے خاندان میں مجاز لکھنوی کی سب سے جدا شخصیت تھی۔ زندگی کی بے وفائی اور اجنبیت کے احساس سے بھرپور اشعار نے بھی اس کی الگ شخصیت کا انداز اجاگر کیا تھا:
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے
سحر و اعجاز دے رہی ہے مجھے
اور بہت دور آسمانوں سے
موت آواز دے رہی ہے مجھے
مجاز لکھنوی کے مخصوص رنگ کی چند غزلوں کے یہ اشعار بھی بڑے معنی خیز ہیں:
روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجاز
ڈرتے نہیں سیاستِ اہلِ جہاں سے ہم
کھائیے گا اک نگاہِ لطف کا کب تک عذاب
کوئی افسانہ بنا کر بدگماں ہوجائیے
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
رودادِ غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیونکر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے
یونیورسٹی کے زمانے میں مجاز لکھنوی کی ایک نظم کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی، اور وہ نظم برسوں تک توجہ کا مرکز بنی رہی اور ادبی حلقوں میں بھی اس نظم کے چرچے ہوتے رہے۔ بڑے اچھوتے خیال کی یہ نظم تھی۔ نظم کا عنوان تھا۔
نوجوان خاتون سے خطاب
حجابِ فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردہ بنا لیتی تو اچھا تھا
تری نیچی نظر خود اپنی عظمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا
دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل
تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
مجاز لکھنوی کی ایسی بہت سی بے ساختہ نظموں نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اس کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ اس دور میں مجاز لکھنوی ایک جنون کی پہچان تھا وہ جس مشاعرے میں جاتا تھا بڑے بڑے شاعروں کو مشاعرہ پڑھنا مشکل ہو جاتا تھا۔
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
مجاز لکھنوی بھی کیا خوب شاعر تھا اس دورکی نوجوان نسل مجاز لکھنوی کی دیوانی تھی، شہرت اس کے پیچھے پیچھے پھرتی تھی اور مجاز اپنی شہرت سے بے گانہ ہمہ وقت مے نوشی میں ڈوبا رہتا تھا اور وحشت زندگی کا محور بنا رہتا تھا۔
اسے اپنی زندگی سے زیادہ مے نوشی عزیز تھی ، زندگی کو اس کی چاہت کا احساس تھا مگر وہ زندگی کی چاہت کے احساس سے عاری اپنی جوانی کو مے نوشی کی نذرکیے جا رہا تھا انھی دنوں اس کا ایک گیت بڑا مشہور ہو رہا تھا جسے آل انڈیا ریڈیو نے ریکارڈ کیا اور یہ گیت اس دور کے نئے سنگر طلعت محمود کی آواز میں جیسے ہی آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا گیا تو سامعین کی توجہ کا مرکز بنتا چلا گیا تھا۔ اس گیت کی شاعری نے لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ اس گیت کا کچھ حصہ قارئین کی نذر ہے:
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
اے غم دل کیا کروں
یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون سمجھے کون جانے جی کا حال
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
راستے میں رک کے دم لوں یہ مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
اس زمانے میں یہ گیت آل انڈیا کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن رات نشر ہوتا تھا اور اس گیت کی مقبولیت نے سنگر طلعت محمود کو بھی شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا تھا۔ اس گیت کی شہرت پھر بمبئی کی فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی اور پھر یہ گیت فلم ''ٹھوکر'' کے لیے مجاز لکھنوی کی اجازت کے بعد ریکارڈ کیا گیا ، اس گیت کو فلم میں طلعت محمود کے ساتھ آشا بھوسلے نے بھی گایا تھا۔ مکھڑا ایک ہی تھا انترے مختلف تھے اور طلعت محمود والا گیت فلم میں ہیرو بلدیو کھوسلہ پر عکس بند کیا گیا تھا۔ اس گیت کی موسیقی سردار ملک نے مرتب کی تھی۔
فلم کے ہیرو کی اداکاری نے اس گیت کو مزید مقبولیت بخشی تھی۔ بمبئی کے کئی فلم سازوں نے چاہا کہ مجاز لکھنوی سے فلموں کے لیے گیت لکھوائے جائیں مگر مجاز لکھنوی تو بس اپنی دنیا ہی میں مگن تھا۔ اب میں آتا ہوں مجاز لکھنوی کی شاعرانہ شخصیت اور ابتدائی زندگی پر۔ مجاز لکھنوی کا گھریلو نام اسرار الحق تھا اور پھر شعر و ادب کی دنیا میں مجاز لکھنوی کے نام سے مشہور ہوا۔جوش ملیح آبادی نے ایک بار مجاز کو بڑا ہونے کے ناتے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا۔
'' میاں ہر وقت کا پینا چھوڑ دو، اگر چاہو تو ہماری طرح گھڑی رکھ کر پی لیا کرو'' تو مجاز نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا تھا۔ '' حضرت میرا بس چلے تو میں گھڑی کی جگہ گھڑا رکھ کر پیوں'' جوش صاحب یہ جواب سن کر خود ہی شرمندہ ہوگئے تھے۔ تو بھلا ایسے مے نوش نوجوان کو کوئی خاندان اپنی بیٹی کیسے دے سکتا تھا۔ لڑکی والوں کی طرف سے صاف جواب دے دیا گیا تھا کہ یہ رشتہ کسی صورت میں پسند نہیں ہے۔ اس نہ کے جواب کے بعد مجاز لکھنوی کی مے نوشی میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ اور مجاز کو زندگی بے معنی سی لگتی تھی وہ زندگی کو ختم کرنے کے درپے ہو گیا تھا۔
خاندان کے لوگوں نے اس کو سمجھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ سیکڑوں لڑکیوں کا وہ پسندیدہ شاعر تھا۔ اورکچھ لڑکیاں بھی اس کو دل سے چاہتی تھیں مگر جس لڑکی کو وہ چاہنے لگا تھا وہ لڑکی ایک خواب بن کر رہ گئی تھی۔ ایک تڑپ ایک خلش بن کر رہ گئی تھی اور پھر ہر وقت کی مے نوشی نے مجاز کی ساری توانائی کشید کرلی تھی۔ وہ شہر کی سنسان سڑکوں پر راتوں کو آوارہ پھرتا رہتا تھا۔ زندگی کو خود ہی موت کی آغوش میں دینے کے درپے تھا اور پھر ایک دن وہ اپنی زندگی کو کھو بیٹھا تھا۔
اسے موت کے قریب کرنے میں اس کی مے نوشی تھی، ایک خوبصورت انسان ایک ہر دلعزیز شاعر آہ بھری جوانی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا اور لاکھوں آنکھوں کو اشک بار کرگیا تھا۔ اے کاش وہ اور زندہ رہتا اور لکھتا رہتا مگر ایسا ہو نہ سکا، قدرت کو یہ منظور ہی نہ تھا۔
مجاز 1911 میں انڈیا کے علاقے ردولی میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم ردولی ہی کے اسکول سے حاصل کی پھر بقیہ تعلیم انٹر کالج لکھنو سے مکمل کی، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی اور تعلیم کے دوران ہی بحیثیت شاعر مجاز لکھنوی کی شہرت کا آغاز ہو چکا تھا اور اس کی شاعری کی دھوم مچ گئی تھی اور آہستہ آہستہ مجاز لکھنوی رومان پرست شاعر کی حیثیت سے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنتا چلا گیا۔ اس زمانے کی ایک نظم بڑی مشہور ہوئی تھی۔
یہ میرا چمن ہے میرا چمن
میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سرشار نگاہِ نرگس ہوں
پابستۂ گیسوئے سنبل ہوں
نوجوان نسل اس کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھائے رہتی تھی۔ اس کا پہلا مجموعہ '' کلام آہنگ'' کے نام سے منظر عام پر آیا اور کامیابی کی سند حاصل کی اور پھر اس کی شاعری کا سفر تیزی سے بڑھتا چلا گیا۔ مجاز لکھنوی رومانوی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی ترقی پسند تحریک کا بھی حصہ رہا۔ مجاز کا خاندان ایک مشہور ادبی خاندان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زمیندار خاندان بھی تھا جب کہ یہ صوفی خاندان بھی کہلاتا تھا۔ ان کے خاندان کے حضرت عثمان ہارونی فارسی کے مشہور صوفی شاعر بھی تھے۔مشہور شاعر جاں نثار اختر مجاز کے بہنوئی تھے۔ اس کے خاندان میں مجاز لکھنوی کی سب سے جدا شخصیت تھی۔ زندگی کی بے وفائی اور اجنبیت کے احساس سے بھرپور اشعار نے بھی اس کی الگ شخصیت کا انداز اجاگر کیا تھا:
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے
سحر و اعجاز دے رہی ہے مجھے
اور بہت دور آسمانوں سے
موت آواز دے رہی ہے مجھے
مجاز لکھنوی کے مخصوص رنگ کی چند غزلوں کے یہ اشعار بھی بڑے معنی خیز ہیں:
روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجاز
ڈرتے نہیں سیاستِ اہلِ جہاں سے ہم
کھائیے گا اک نگاہِ لطف کا کب تک عذاب
کوئی افسانہ بنا کر بدگماں ہوجائیے
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
رودادِ غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیونکر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے
یونیورسٹی کے زمانے میں مجاز لکھنوی کی ایک نظم کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی، اور وہ نظم برسوں تک توجہ کا مرکز بنی رہی اور ادبی حلقوں میں بھی اس نظم کے چرچے ہوتے رہے۔ بڑے اچھوتے خیال کی یہ نظم تھی۔ نظم کا عنوان تھا۔
نوجوان خاتون سے خطاب
حجابِ فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردہ بنا لیتی تو اچھا تھا
تری نیچی نظر خود اپنی عظمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا
دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل
تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
مجاز لکھنوی کی ایسی بہت سی بے ساختہ نظموں نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اس کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ اس دور میں مجاز لکھنوی ایک جنون کی پہچان تھا وہ جس مشاعرے میں جاتا تھا بڑے بڑے شاعروں کو مشاعرہ پڑھنا مشکل ہو جاتا تھا۔