غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور مزاحمت فلسطین کا جواب
حماس اور دیگر فلسطینی جہادی گروہوں کے علاقوں کو اس مرتبہ حملوں میں نشانہ نہیں بنایا گیا تھا
غزہ کی پٹی پر پانچ اگست کو شروع ہونے والی صہیونی جارحیت کے متعلق کچھ حقائق اس کالم میں بیان کیے جائیں گے۔ اسرائیل کی جانب سے ایک ایسی عمارت کو نشانہ بنایا گیا جہاں فلسطین کی مزاحمتی تنظیم '' اسلامی جہاد فلسطین '' کے اہم کمانڈر موجود تھے، حملہ کے نتیجہ میں ایک فلسطینی کمانڈر جام شہادت نوش کر گئے اور بعد ازاںجنین کے علاقہ میں ایک کمانڈر بسام السعدی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اسرائیل نے فلسطین کی اس مزاحمتی تنظیم یعنی جہاد اسلامی کے خلاف بھرپور قسم کا حملہ شروع کیا تھا، جس کا ہدف جہاد اسلامی فلسطین کے زیادہ سے زیادہ کمانڈروں کو شہید کرنا اورگرفتار کرنا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کی کوشش تھی کہ وہ اس حملہ کے ذریعہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کو جدا جدا کر سکے اور یہی وجہ تھی کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ اور خان یونس کے علاقوں میں مسلسل حملوں کا ہدف صرف اور صرف جہاد اسلامی فلسطین کی قیادت تھی۔ حماس اور دیگر فلسطینی جہادی گروہوں کے علاقوں کو اس مرتبہ حملوں میں نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پہلے روز کے حملوں کے بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ پچیس ہزار اسرائیلی ریزرو فوجی چھ اگست کو آپریشن میں شرکت کریں گے۔
اس طرح کا لب و لہجہ ظاہر کرتا تھا کہ اسرائیل اس مرتبہ نہ صرف جہاد اسلامی فلسطین کی قیادت کا خاتمہ چاہتا ہے بلکہ جن علاقوں پر حملے کیے گئے ہیں ، وہاں سے فیول کی سپلائی کو بھی معطل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے حالیہ ان حملوں میں چند ایک اہم مقاصد جو ابھر کر سامنے آئے ہیں، ان میں پہلا جہاد اسلامی فلسطین کو ختم کرنا اور قیادت کی بڑے پیمانہ پرگرفتاری۔ دوسرا اہم پہلو فلسطین کی تمام سیاسی ومزاحمتی تحریکوں کے مابین ایک تفریق کی لکیر بنانا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حملہ صرف ایک تنظیم کے خلاف ہے تاکہ دوسری تنظیمیں اس میں شریک نہ ہوں۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ غزہ کی محصور عوام کو مزید شکنجہ میں ڈال کر مشکلات بڑھانا تھا۔ اسرائیل کی جانب سے آخر یہ حملہ کیوں کیا گیا تھا ، یہ وجوہات جاننا بھی ضروری ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں فلسطین کے مغربی کنارے اور 48کے فلسطین علاقوں میں عوامی مزاحمت نے غاصب صہیونیوں کی مشکلات میں اضافہ کررکھا ہے۔ اسی تسلسل میں حماس اور جہاد اسلامی کی مشترکہ کارروائیوں میں ایک فوجی اور چند اہم صہیونی عہدیداروں کو گرفتار کیا گیا ہے جو فلسطینی مزاحمت کی حراست میں موجود ہیں۔
ان کے بارے میں پہلے پہل اسرائیل نے یہ موقف اپنا رکھا تھا کہ نہ توگرفتار ہونے والے کوئی صہیونی فوجی ہے اور نہ کوئی عہدیدار ہیں بلکہ وہ سب اسرائیل کی شہریت رکھنے والے عام شہری ہیں۔اس کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کی جانب سے چند روز قبل سوشل میڈیا پر وڈیوز وائرل کی گئی تھیں جس میں گرفتار شدگان اپنا تعارف اور عہدے اور صہیونی فوج سے تعلق بتاتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔
حقیقت میں اسرائیل ان تمام معاملات کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہوا اور نتیجہ میں جہاد اسلامی فلسطین کے خلاف جارحیت کا آغازکیا۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت میں تقریبا پچاس فلسطینی شہید ہوئے ہیں ، جن میں دو درجن سے زائد معصوم بچے ہیں، ایک پانچ سالہ بچی بھی شامل ہے جب کہ بقیہ شہداء میں خواتین اور بزرگوں کی تعداد شامل ہے۔ اسی طرح سیکڑوں زخمیوں میں بھی بڑی تعداد بچوں اور نوجوانوں سمیت خواتین کی ہے جو صہیونیوں کی مسلسل تین روزہ جارحیت کا نشانہ بنتے رہے۔
اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور حملوں کے جواب میں فلسطینی مزاحمت نے صہیونیوں کی تمام تر منصوبہ بندی کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس حملہ میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اختلافات ایجاد کرے لیکن اس کے برعکس فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے پہلے دن سے جہاد اسلامی فلسطین کی پشت پر متحد ہو کر صہیونیوں کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح اسرائیل یہ سمجھتا تھا کہ اس بڑی جارحیت میں فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملے گا لیکن اس کے برعکس جہاد اسلامی فلسطین نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا اور صہیونیوں کے ٹھکانوں کو ایک سو سے زائد راکٹوں سے نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں کئی ایک صہیونی آباد کار عمارتیں تباہ ہو گئیں اور پانچ سو کے لگ بھگ صہیونیوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ اسرائیل کے حملوں کے جواب میں جہاد اسلامی فلسطین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دوٹوک اعلان کیا اسرائیل اگر فلسطینی شہری آبادیوں کو نشانہ بنائے گا تو فلسطینی مزاحمت بھی صہیونیوں کے لیے کوئی جائے امان نہیں رکھیں گے۔
فلسطینیوں کی پائیدار استقامت کے نتیجہ میں اسرائیل نے دوسرے روز ہی جنگ بندی کی شرائط رکھتے ہوئے جنگ بند کرنے کی اپیل کی جس پر جہاد اسلامی فلسطین نے تمام شرائط کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیل جب تک جنگ چاہتا ہے ، فلسطینی مزاحمت اس کا جواب دے گی۔