اردو کے عربی سے تعلق پر ایک نظر
ہندی شاعری کی یہ صنف رائج الوقت ادبی تاریخ سے بہت قدیم ہے۔
سبزہ وگُل کو دیکھنے کے لیے
چشم نرگس کو دی ہے بینائی
میرزا غالب کی یہ پوری غزل ہی اپنی ہئیت سے قطع نظر، مغل تاجدار بہادرشاہ ظفرؔ کی شان میں کہا گیا قصیدہ ہے جس میں صنعت مبالغہ اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔
کل شب زیر نظر موضوع پر نجی کتب خانے سے کتابیں یک جا کرتے ہوئے محض اتفاقاً غالبؔ کا مندرجہ بالا شعر یاد آگیا، وجہ یہ ہوئی کہ سامنے عربی کے مشہور شاعر ابونُواس (756 تا 814) کا نمونہ کلام تھا جو عباسی خلافت کے اولین دور کا سخنور تھا اور جس کا ذکر الف لیلہ ولیلہ میں بھی ملتا ہے:
تأمّل فی ریاض الارض وَانظر
الیٰ آثار ما صنع الملیک
عیون'' من لجّین شاخصات
باحداقٍ ھی الذھب السّبیک
علیٰ قضب الزبر جد شاھدات
بِاَنّ اللہ لیس لہ' شریک
ترجمہ: باغِ عالم کا نظارہ کرو اور خداتعالیٰ کی قدرت کا تماشا دیکھو۔ چاندی کی اُبھری ہوئی آنکھیں ہیں جن کی پُتلیاں زرِخالص (یعنی خالص سونے) کی ہیں اور وہ زَبرَ جَد (Beryl stone/Peridot) کی ڈالیوں پر اس کی گواہی دے رہی ہیں کہ خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں! بقول مؤلف ومترجم جناب محسن ٹونکی، ''یہ اشعار گل نرگس کے بارے میں کہے گئے ہیں جن میں شاعر نے بہار کی تعریف، بہارآفریں (یعنی خدائے بزرگ وبرتر) کی حمد کے ساتھ کی ہے۔ بہار کے آئینے میں خالق بہار جلوہ نُما ہے''۔
اگر کوئی عربی داں، خصوصاً عربی میں شعر کہنے والا، اس بابت روشنی ڈالے تو بہتر ہے، البتہ میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں (بغیر موازنہ کیے)، کہ غالبؔ کا کلام اپنی جگہ، ابونُواس کا کلام اپنی جگہ، مگر اَبونُواس نے جس طرح نرگس کا حسن بیان کرتے ہوئے چاندی اور سونے کو ملادیا ہے، وہ بہرحال کمال ہے۔
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب شاعر اپنی شراب نوشی اور شراب کی قدرومنزلت اپنے کلام میں بیان کرنے کے سبب، بہت مشہور ہوا، جبکہ اپنے میرزا اسدؔ بھی کچھ کم بدنام نہ تھے۔ (عربی ادب میں مطالعے از محمد کاظم )۔ بندہ یہ کہنے سے قاصر ہے کہ غالبؔ کی عربی دانی کس درجے کی تھی، مگر بعید نہیں کہ اُس کی نظر سے یہ یا ایسا کوئی دوسرا عربی نمونہ کلام بھی گزرا ہو، ہاں استفادے کا کوئی ثبوت یہاں نظر نہیں آتا، جبکہ وہ فارسی کے معاملے میں بہت بے باک تھا۔
بیدلؔ سمیت فارسی کے متعدد شعراء کے کلام پر غالبؔ کا 'ہاتھ صاف کرنا' بالتحقیق ثابت ہے، حتیٰ کہ کہیں کہیں اُس کا منظوم اردو ترجمہ یا چربہ، اصل طبع زاد فارسی پر حاوی ہے یعنی اُس سے بہتروبرتر ہے۔ اس ضمن میں غالبؔ کو نابغہ [Genius]کہیں یا Evil Genius، مگر یہ بہرحال ہرکَس وناکَس کے بس کی بات نہیں!
جب ہم اردو کے عربی سے تعلق کی بات کرتے ہیں تو لامحالہ قدیم ومشہور بیان نقل کرنا پڑتا ہے کہ عربی، اردو کی ماں ہے۔ گزشتہ کالموں میں اس بارے میں ذکر ہوتا رہا ہے کہ ایسے بیانات کس قدر صحیح ہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کروں گا کہ خواہ جدید لسانی تحقیق نے یہ نظریہ رَد کردیا ہو، مگر عربی (نیز ترکی وفارسی) سے اردو زبان کا تعلق، ابتداء سے یا یوں کہیے عہدقدیم سے ہے۔ ایک پچھلے کالم میں خاکسار نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ خطہ ہند میں محض اردو ہی نے جنم نہیں لیا، بلکہ عربی زبان کی پرداخت کے ابتدائی دور میں بعض مقاماتِ عرب کے ساتھ ساتھ، ہندوستان نے بھی اہم کردار اَدا کیا تھا۔
یہ نکتہ بھی دُہراتا چلوں کہ قدیم ہندو مذہبی کتب بشمول مہابھارت میں عربی الفاظ ومکالمہ جات نقل ہوئے ہیں اور ہندکو زبان کی قدامت کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے بھی ان کا وجود دَریافت ہوچکا ہے۔ یہ زبان ہزاروں سال پہلے، تصویری/اشکالی رسم الخط میں یہاں رائج تھی جو مابعد، موئن جودَڑو اور ہڑپہ جیسے آثار ِ قدیمہ میں شامل مختلف اشیاء بشمول مُہروں میں نظر آتی ہے۔ اس بابت ابوالجلال ندوی کی تحقیق بے مثل ہے۔ انھوں نے یہ زبان پڑھنے اور سمجھنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی تھی۔
تیسری صدی قبل از مسیح (علیہ السلام) میں لڑی جانے والی کورو اور پانڈو کی جنگ میں خفیہ پیغام رسانی کے لیے عربی زبان استعمال ہوتی تھی۔ قدیم ہندوستانی رسم الخط ''براہمی'' اور ''خروشتی'' کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان کی جڑیں فُنیقی اور آرامی کے توسط سے عربی کے قدیم رسم الخط سے جاملتی ہیں۔
فرہنگ آصفیہ کے مؤلف سیداحمددہلوی نے اپنے مقدمے میں لکھا کہ ''پرتھی (پرتھوی) راج کے زمانے یعنی 1193ء میں، بعہد (سلطان) شہاب الدین غوری، چندکوی (نامی) ایک ہندی شاعر نے اپنی کتاب پرتھی راج راسا میں کس قدر عربی، فارسی الفاظ استعمال کیے ہیں''۔ اس پر مستزاد،''کبیر جی نے (سلطان) سکندرلودھی (لودی) کے زمانے یعنی 1480ء میں، گرونانک صاحب نے 1500ء میں، بابا تُلسی داس اور سُورداس جی نے سترہویں صدی عیسوی میں اپنی اپنی مقبولِ خاص وعام تصنیفات (تصانیف) میں کہاں تک عربی وفارسی الفاظ کو دخل دیا ہے''۔ (یہاں قوسین میں لکھی گئی عبارت اس خاکسار کی ہے)۔
ڈاکٹر سہیل بخاری کے الفاظ میں ''چند بردَائی کی نظم 'پرتھی راج راسو ' سے جسے ہندی کا قدیم ترین نمونہ مانا جاتا ہے، فارسی الفاظ کی درآمد شروع ہوتی ہے۔ اس میں چند ؔ نے فارسی، عربی کے سیکڑوں (سینکڑوں غلط) الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں سے کچھ تو اَپنی اصلی شکل میں ہیں اور سرسری نظر سے پہچان لیے جاتے ہیں اور کچھ بگڑی ہوئی صورت میں ملتے ہیں۔
ان کی تعداد شاعر کے پورے ذخیرہ الفاظ کا دَسواں حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، کھمّان راسو، بیسل دیوراسو، گورکھ ناتھ کی بانی اور جگنک کے اکھا کھنڈ میں بھی فارسی الفاظ خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔...................ہندی میں عربی، فارسی الفاظ کی دَرآمد، بیشتر ہندؤوں کے ذریعے ہوئی ہے'' الخ۔ (ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ)۔ فاضل ماہرلسانیات نے ہندی کے تقریباً تمام ہندو، مسلم اور لامذہب شعراء کی فہرست پیش کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کی ہے۔
یہ چندبردائی یا بردئی، پرتھوی راج کا مَلِک الشُعراء (یعنی دربا رکا سب سے بڑا شاعر) تھا، مگر اُس کی تصنیف میں بڑا حصہ الحاقی یا موضوعی ہے یعنی لوگوں نے گھڑکر اُس میں شامل اور اصل شاعر سے منسوب کردیا۔ اس کی ایک مثال اور بھی ہے کہ پرتھوی راج اور شہاب غوری کے مابین صرف دوبار جنگ ہوئی، مگر ہندو جعل ساز شاعر یا تُک بند حضرات نے اسے متعدد بار دکھایا اور یہاں تک گڑبڑ کی کہ تاریخی واقعات کی ترتیب بھی بدل دی، مثلاً ان معرکوں میں منگولوں کی شمولیت ظاہر کردی جو سلطان ایل تُتمَش کے عہد میں پہلی بار، سلطان خوارِزم شاہ کے تعاقب میں، دریائے سندھ کے کنارے تک آپہنچے تھے۔ (ہندی ادب از پروفیسر حبیب اللہ خان غضنفرؔ)۔
عربی کے اثرات کا ذکر ہوا تو ایک حیرت انگیز انکشاف یہ بھی سامنے آیا کہ ''ہندی شاعری میں ریختے کی صنف، اسی لَے کی ایک شکل ہے۔ ریختہ خالص دیسی چیز ہے جس کا اصل تلفظ ریکھتا ہے۔ یہ دیسی لفظ ریکھ (ریخ) سے بنا ہے جس کے معنی لکیر، دَرز۔یا۔شگاف کے ہیں۔ ادبی اصطلاح میں ریختہ اُس صنف سخن کو کہتے ہیں جس میں ہندی الفاظ کے درمیان، عربی فارسی کے الفاظ بھرے جائیں۔
ہندی شاعری کی یہ صنف رائج الوقت ادبی تاریخ سے بہت قدیم ہے۔ ہندی میں کبیرؔ، داؤد، دیال اور غریبؔ داس وغیرہ نے بہت سے ریختے کہے ہیں جو آج بھی دیوناگری لپی میں لکھے ہوئے ملتے ہیں اور میری نظر سے گزرے ہیں۔ آگے چل کر ریختہ سے صرف اُردو شاعری مراد لی جانے لگی۔ امیرخسروؔ کی ایک مشہور غزل 'زِحال مسکیں، مَکُن تغافل' اس کی مثال میں پیش کی جاسکتی ہے، جس میں بِرج بھاشا اور فارسی مِلی ہوئی زبان استعمال کی گئی ہے''۔ (ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ)۔
ڈاکٹر سہیل بخاری نے تصوف کے ضمن میں ہندؤوں کی ہندی شاعری کا مسلم صوفیہ کرام سے براہ راست اخذواستفادہ بھی ثابت کیا ہے۔ یہاں راقم کے نزدیک، وضاحت ضروری ہے کہ فارسی کے ذخیرہ الفاظ کا بڑا حصہ، اُس دور تک عربی سے مرعوب وماخوذ تھا، لہٰذا بنیادی طور پر غالب اشتراک، عربی ہی کا ہوا۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ عربی کے عروج سے مختلف چھوٹی بڑی زبانوں اور بولیوں کا زوال بھی فطری طور پر، اَزخود ہوگیا تھا۔ فارسی ایک مکمل زبان ہوتے ہوئے بھی فاتحین کی زبان، عربی سے مرعوب ومتأثر ہوئی تو نوبت بہ ایں جا رسیدکہ شاعر (عربی میں طبع آزمائی کے ساتھ ساتھ)، اپنے فارسی کلام میں بھی عربی کے مصرع باندھنے لگے۔ بعینہ یہی معاملہ دیگر بڑی زبانوں بشمول ترکی کا ہوا۔ اردو میں بھی مقامی بولیوں اور زبانوں کے اثرات، عربی (دینی و دیگر) ادب کے زیراثر، کم ہوتے گئے اور معیاری وعوامی ہر طرح کی زبان اور بول چال میں عربی الفاظ، تراکیب، فقروں اور مثالوں کی خاصی تعداد شامل ہوگئی۔
یہاں قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کے براہ راست اثرات بھی بہت نمایاں ہیں۔ یہ معاملہ محض اردو تک محدود نہیں، خطہ پاک وہند کی علاقائی یا مقامی زبانیں بھی اس ضمن میں عربی سے کشید کا شرف حاصل کرتی رہی ہیں، سرفہرست پنجابی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ فاتح کی زبان نے مفتوح کی زبان پر غلبہ پایا، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر، جدید لسانی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اثر قبول کرنے کا معاملہ دوطرفہ ہوتا ہے۔ عربی میں صدیوں سے قدیم ہندی الاصل الفاظ (یاسنسکِرِت)، فارسی وترکی الفاظ کسی نہ کسی صورت شامل رہے ہیں اور آج تک ہیں۔
اس بابت بھی اس ناچیز نے بعض کالموں میں اشارہ کیا ہے۔ بقول ایک محقق:''عربی زبان میں تمدن، حکومت اور فرنیچر سے متعلق الفاظ کی بڑی تعداد فارسی سے، علم و فلسفہ سے متعلق یونانی سے، زراعت کے الفاظ نبطی سے، دینی رسومات عبرانی یا سُریانی سے، مسالہ، دوا اور خوشبو وغیرہ کے الفاظ ہندی سے آئے ہیں''۔ (اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات، مصنف: ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی، مترجم:محمد طارق)۔ زمانہ آفرینش سے انسان کی تہذیب وترقی کا سلسلہ متواتر، سرزمین عرب وہند میں ساتھ ساتھ جاری رہا، خاص عرب اور ہند کے تعلقات زمانہ قدیم سے مستحکم تھے، جنھیں اسلام کے ظہور کے بعد مزید فروغ حاصل ہوا۔ اس خطے میں اسلام کی آمد بعہد رسالت مآب (ﷺ) ہوئی۔ اس بابت بھی راقم ماقبل لکھ چکا ہے۔
نَبَطی[Nabataean civilization] ایک ترقی یافتہ تہذیب تھی (انھی میں بنواِسرائیل بھی ہوگزرے ہیں) جس کے آثار بترا، اُردَن[Petra] میں موجود ہیں، اس کی زبان آرامی (Aramaic) تھی جس نے عربی کی بطور زبان تشکیل میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لیا ہوگا، جبکہ سُریانی (Syriac ) زبان سے انسان کا تعلق بھی قدیم ہے۔ (سُریانی کو درحقیقت، آرامی ہی کی شاخ یا بولی قرار دیا گیا ہے)۔
تفسیری انکشاف دُہراتا ہوں کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) جنت سے زمین پر اُتارے گئے تو اُن کے دہن مبارک سے، عربی زبان سَلب کرکے، سُریانی جاری کردی گئی تھی، (تفسیرخزائن العرفان اَزصدرالافاضل علامہ مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ)، توبہ کی قبولیت کے بعد، انھیں عربی پر دوبارہ قدرت عطا کی گئی۔ یوں حساب لگاکر، کرّہ ارض کی قدیم ترین زبان عربی نہیں، سُریانی ہے۔ قدیم بابِل سے ملنے والی تالمود (Babylonian Talmud)کا بیان ہے کہ اولین انسان یعنی حضرت آدم آرامی بولا کرتے تھے;یعنی ہماری تفسیری روایت کی تصدیق ہوگئی۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہندوستان میں دینی علوم کے علاوہ، شعرواَدب میں بھی ایسی نامی گرامی شخصیات ہوگزری ہیں جنھوں نے عربی میں طبع زاد کلام سے ایک دنیا میں اپنا لوہا منوایا، جیسے علامہ مفتی فضل حق خیرآبادی، سید برکت اللہ عشقیؔ مارہروی، اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی، مولانا غلام علی آزادؔ بلگرامی، شاہ رفیع الدین ودیگر۔
خلافت ِعثمانیہ کے سقوط کے وقت تک، عربی دنیا بھر میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے مسلمانوں کے مابین انتہائی اہم ، مقدس ومتبرک قدر ِمشترک بن چکی تھی۔ انگریز نے اس کی اہمیت کے پیش نظر، ہندوؤں میں یہ خیال اُبھارا کہ اردو (عربی وفارسی الفاظ کی کثرت کے سبب)، مسلمانوں کی زبان ہے۔ ''تقسیم کرو، حکومت کرو'' تحریک کے نتیجے میں مصنوعی ہندی کو پروان چڑھایا گیا تو ساتھ ہی یہ خیال بھی عام ہوگیا کہ اردو کو عربی سے 'پاک' کرنا ضروری ہے۔ مدتوں بعد، اس مہم میں ہمارے کئی اہل قلم نے حصہ لیا اور آج بھی ایسے سرپھرے مل جائیں گے جو عربی کو ''خارج از نصاب'' اور ''داخلِ دفتر'' کرنے کے متشدد حامی ہیں۔
براہ راست اردو میں شامل عربی الاصل الفاظ کے ذخیرے کی بات کریں تو جناب صورت یہ ہے کہ اُن کی تعداد گننا بھی محال ہے۔ ہم معیاری ادبی وکتابی ورسمی زبان کی بات کریں یا روزمرّہ بول چال کی، حتیٰ کہ عوامی چالو بولی[Slang] بشمول زنانہ و سُوقیانہ بولی کی، عربی ہر جگہ نمایاں طور پر شامل ہے۔
قرآن کریم کے آغاز ہی میں خالق کائنات نے فرمایا ہے کہ (مفہوم)'':اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کر دی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب'' (سورہ بقرہ، آیت نمبر 7:ترجمہ کنزالایمان از اعلیٰ حضرت احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)۔ دلوں پر مُہر لگانا اردو میں بھی موجود ہے۔ محمد حسین آزاد ؔ نے ''دربارِ اکبری'' میں راجا مان سنگھ کے متعلق لکھا ہے:''بنگال کے سفر میں ایک مقام پر، شاہ دولت کے اوصاف وکمالات سُنے، خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اُس کی پاکیزہ اورسنجیدہ گفتگو سے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ مان سنگھ ! مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟ اُس نے مسکراکر کہا کہ 'خدا کی مُہر ہے، بندہ کیوں کر اُٹھائے کہ گستاخی ہے''۔ حالیؔ نے اس شعر میں مُہر ِدہن جیسی غیرمانوس ترکیب استعمال کی ہے:
کروں تجھ سے بیاں کچھ دردِغربت+مگر جوشِ سخن، مُہرِدہن ہے
جبکہ مشہور ترکیب مُہر بہ لب اُنھی کے معاصر شبلیؔ کے یہاں یوں جلوہ گر ہے:
گرچہ وہ حدّ مناسب سے بڑھا جاتا تھا+سب کے سب، مُہر بہ لب تھے، چہ اناث وچہ ذکور (نظم: عدلِ فاروقی)
اسی سورہ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں صُمّ بکم یعنی بہرے گونگے کی ترکیب استعمال ہوئی۔ اردو میں اسے بطور محاورہ اپنالیا گیا بمعنی خاموش اور دَم بخود ہوجانا۔ سورہ بقرہ کی انیسویں آیت میں کفار کے، بجلی کی کڑک کے ڈر سے، کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے کا ذکر فرمایا گیا، یہ اردو میں بھی مستعمل ہے:
ڈرگئے ہیں مِرے نالوں سے مؤذن ایسے +انگلیاں کانوں میں ہنگامِ اذاں رکھتے ہیں (اسیرؔ لکھنوی)
اسی طرح انتیسویں پارے کے آٹھویں رکوع میں ''کانوں میں انگلیاں دینا'' مذکور ہوا، جو بیزاری اور نفرت کا اظہار ہے۔ اردو میں بھی اس کی مثال موجود ہے: اے مؤذن چُپ بھی رہ، تُو پھِرچکا اسلام سے +انگلیاں کانوں میں دیتا ہے ، خدا کے نام سے (شوقؔ قدوائی)
پہلے پارے کے تیسرے رکوع میں 'عہد توڑنا' آیا ہے۔ اردو میں اسے عہد توڑنا، عہد شکنی (فارسی سے مستعار) نیز بعض جگہ اصل ترکیب ''نقضِ عہد'' آئی ہے۔ (اخذواِستفادہ: اردو میں قرآن اور حدیث کے محاورات از ڈاکٹر غلام مصطفی خان)۔ اگر ہم موضوع کی اس اہم کڑی ہی پر بات کریں تو اس کالم کی دوسری قسط لکھنی پڑجائے گی۔ اردو اور عربی کے لسانی تعلق کو سمجھنے کے لیے ''اردو، عربی کے لسانی رشتے'' از ڈاکٹر احسان الحق،''اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات'' از ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی اور ''عربی ادبیات کے اردو تراجم'' از ڈاکٹر ابراراحمد اجراوی جیسی کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
sohailahmed.siddiqui@live.com
Twitter Handle:@urdu_1046
چشم نرگس کو دی ہے بینائی
میرزا غالب کی یہ پوری غزل ہی اپنی ہئیت سے قطع نظر، مغل تاجدار بہادرشاہ ظفرؔ کی شان میں کہا گیا قصیدہ ہے جس میں صنعت مبالغہ اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔
کل شب زیر نظر موضوع پر نجی کتب خانے سے کتابیں یک جا کرتے ہوئے محض اتفاقاً غالبؔ کا مندرجہ بالا شعر یاد آگیا، وجہ یہ ہوئی کہ سامنے عربی کے مشہور شاعر ابونُواس (756 تا 814) کا نمونہ کلام تھا جو عباسی خلافت کے اولین دور کا سخنور تھا اور جس کا ذکر الف لیلہ ولیلہ میں بھی ملتا ہے:
تأمّل فی ریاض الارض وَانظر
الیٰ آثار ما صنع الملیک
عیون'' من لجّین شاخصات
باحداقٍ ھی الذھب السّبیک
علیٰ قضب الزبر جد شاھدات
بِاَنّ اللہ لیس لہ' شریک
ترجمہ: باغِ عالم کا نظارہ کرو اور خداتعالیٰ کی قدرت کا تماشا دیکھو۔ چاندی کی اُبھری ہوئی آنکھیں ہیں جن کی پُتلیاں زرِخالص (یعنی خالص سونے) کی ہیں اور وہ زَبرَ جَد (Beryl stone/Peridot) کی ڈالیوں پر اس کی گواہی دے رہی ہیں کہ خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں! بقول مؤلف ومترجم جناب محسن ٹونکی، ''یہ اشعار گل نرگس کے بارے میں کہے گئے ہیں جن میں شاعر نے بہار کی تعریف، بہارآفریں (یعنی خدائے بزرگ وبرتر) کی حمد کے ساتھ کی ہے۔ بہار کے آئینے میں خالق بہار جلوہ نُما ہے''۔
اگر کوئی عربی داں، خصوصاً عربی میں شعر کہنے والا، اس بابت روشنی ڈالے تو بہتر ہے، البتہ میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں (بغیر موازنہ کیے)، کہ غالبؔ کا کلام اپنی جگہ، ابونُواس کا کلام اپنی جگہ، مگر اَبونُواس نے جس طرح نرگس کا حسن بیان کرتے ہوئے چاندی اور سونے کو ملادیا ہے، وہ بہرحال کمال ہے۔
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب شاعر اپنی شراب نوشی اور شراب کی قدرومنزلت اپنے کلام میں بیان کرنے کے سبب، بہت مشہور ہوا، جبکہ اپنے میرزا اسدؔ بھی کچھ کم بدنام نہ تھے۔ (عربی ادب میں مطالعے از محمد کاظم )۔ بندہ یہ کہنے سے قاصر ہے کہ غالبؔ کی عربی دانی کس درجے کی تھی، مگر بعید نہیں کہ اُس کی نظر سے یہ یا ایسا کوئی دوسرا عربی نمونہ کلام بھی گزرا ہو، ہاں استفادے کا کوئی ثبوت یہاں نظر نہیں آتا، جبکہ وہ فارسی کے معاملے میں بہت بے باک تھا۔
بیدلؔ سمیت فارسی کے متعدد شعراء کے کلام پر غالبؔ کا 'ہاتھ صاف کرنا' بالتحقیق ثابت ہے، حتیٰ کہ کہیں کہیں اُس کا منظوم اردو ترجمہ یا چربہ، اصل طبع زاد فارسی پر حاوی ہے یعنی اُس سے بہتروبرتر ہے۔ اس ضمن میں غالبؔ کو نابغہ [Genius]کہیں یا Evil Genius، مگر یہ بہرحال ہرکَس وناکَس کے بس کی بات نہیں!
جب ہم اردو کے عربی سے تعلق کی بات کرتے ہیں تو لامحالہ قدیم ومشہور بیان نقل کرنا پڑتا ہے کہ عربی، اردو کی ماں ہے۔ گزشتہ کالموں میں اس بارے میں ذکر ہوتا رہا ہے کہ ایسے بیانات کس قدر صحیح ہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کروں گا کہ خواہ جدید لسانی تحقیق نے یہ نظریہ رَد کردیا ہو، مگر عربی (نیز ترکی وفارسی) سے اردو زبان کا تعلق، ابتداء سے یا یوں کہیے عہدقدیم سے ہے۔ ایک پچھلے کالم میں خاکسار نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ خطہ ہند میں محض اردو ہی نے جنم نہیں لیا، بلکہ عربی زبان کی پرداخت کے ابتدائی دور میں بعض مقاماتِ عرب کے ساتھ ساتھ، ہندوستان نے بھی اہم کردار اَدا کیا تھا۔
یہ نکتہ بھی دُہراتا چلوں کہ قدیم ہندو مذہبی کتب بشمول مہابھارت میں عربی الفاظ ومکالمہ جات نقل ہوئے ہیں اور ہندکو زبان کی قدامت کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے بھی ان کا وجود دَریافت ہوچکا ہے۔ یہ زبان ہزاروں سال پہلے، تصویری/اشکالی رسم الخط میں یہاں رائج تھی جو مابعد، موئن جودَڑو اور ہڑپہ جیسے آثار ِ قدیمہ میں شامل مختلف اشیاء بشمول مُہروں میں نظر آتی ہے۔ اس بابت ابوالجلال ندوی کی تحقیق بے مثل ہے۔ انھوں نے یہ زبان پڑھنے اور سمجھنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی تھی۔
تیسری صدی قبل از مسیح (علیہ السلام) میں لڑی جانے والی کورو اور پانڈو کی جنگ میں خفیہ پیغام رسانی کے لیے عربی زبان استعمال ہوتی تھی۔ قدیم ہندوستانی رسم الخط ''براہمی'' اور ''خروشتی'' کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان کی جڑیں فُنیقی اور آرامی کے توسط سے عربی کے قدیم رسم الخط سے جاملتی ہیں۔
فرہنگ آصفیہ کے مؤلف سیداحمددہلوی نے اپنے مقدمے میں لکھا کہ ''پرتھی (پرتھوی) راج کے زمانے یعنی 1193ء میں، بعہد (سلطان) شہاب الدین غوری، چندکوی (نامی) ایک ہندی شاعر نے اپنی کتاب پرتھی راج راسا میں کس قدر عربی، فارسی الفاظ استعمال کیے ہیں''۔ اس پر مستزاد،''کبیر جی نے (سلطان) سکندرلودھی (لودی) کے زمانے یعنی 1480ء میں، گرونانک صاحب نے 1500ء میں، بابا تُلسی داس اور سُورداس جی نے سترہویں صدی عیسوی میں اپنی اپنی مقبولِ خاص وعام تصنیفات (تصانیف) میں کہاں تک عربی وفارسی الفاظ کو دخل دیا ہے''۔ (یہاں قوسین میں لکھی گئی عبارت اس خاکسار کی ہے)۔
ڈاکٹر سہیل بخاری کے الفاظ میں ''چند بردَائی کی نظم 'پرتھی راج راسو ' سے جسے ہندی کا قدیم ترین نمونہ مانا جاتا ہے، فارسی الفاظ کی درآمد شروع ہوتی ہے۔ اس میں چند ؔ نے فارسی، عربی کے سیکڑوں (سینکڑوں غلط) الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں سے کچھ تو اَپنی اصلی شکل میں ہیں اور سرسری نظر سے پہچان لیے جاتے ہیں اور کچھ بگڑی ہوئی صورت میں ملتے ہیں۔
ان کی تعداد شاعر کے پورے ذخیرہ الفاظ کا دَسواں حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، کھمّان راسو، بیسل دیوراسو، گورکھ ناتھ کی بانی اور جگنک کے اکھا کھنڈ میں بھی فارسی الفاظ خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔...................ہندی میں عربی، فارسی الفاظ کی دَرآمد، بیشتر ہندؤوں کے ذریعے ہوئی ہے'' الخ۔ (ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ)۔ فاضل ماہرلسانیات نے ہندی کے تقریباً تمام ہندو، مسلم اور لامذہب شعراء کی فہرست پیش کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کی ہے۔
یہ چندبردائی یا بردئی، پرتھوی راج کا مَلِک الشُعراء (یعنی دربا رکا سب سے بڑا شاعر) تھا، مگر اُس کی تصنیف میں بڑا حصہ الحاقی یا موضوعی ہے یعنی لوگوں نے گھڑکر اُس میں شامل اور اصل شاعر سے منسوب کردیا۔ اس کی ایک مثال اور بھی ہے کہ پرتھوی راج اور شہاب غوری کے مابین صرف دوبار جنگ ہوئی، مگر ہندو جعل ساز شاعر یا تُک بند حضرات نے اسے متعدد بار دکھایا اور یہاں تک گڑبڑ کی کہ تاریخی واقعات کی ترتیب بھی بدل دی، مثلاً ان معرکوں میں منگولوں کی شمولیت ظاہر کردی جو سلطان ایل تُتمَش کے عہد میں پہلی بار، سلطان خوارِزم شاہ کے تعاقب میں، دریائے سندھ کے کنارے تک آپہنچے تھے۔ (ہندی ادب از پروفیسر حبیب اللہ خان غضنفرؔ)۔
عربی کے اثرات کا ذکر ہوا تو ایک حیرت انگیز انکشاف یہ بھی سامنے آیا کہ ''ہندی شاعری میں ریختے کی صنف، اسی لَے کی ایک شکل ہے۔ ریختہ خالص دیسی چیز ہے جس کا اصل تلفظ ریکھتا ہے۔ یہ دیسی لفظ ریکھ (ریخ) سے بنا ہے جس کے معنی لکیر، دَرز۔یا۔شگاف کے ہیں۔ ادبی اصطلاح میں ریختہ اُس صنف سخن کو کہتے ہیں جس میں ہندی الفاظ کے درمیان، عربی فارسی کے الفاظ بھرے جائیں۔
ہندی شاعری کی یہ صنف رائج الوقت ادبی تاریخ سے بہت قدیم ہے۔ ہندی میں کبیرؔ، داؤد، دیال اور غریبؔ داس وغیرہ نے بہت سے ریختے کہے ہیں جو آج بھی دیوناگری لپی میں لکھے ہوئے ملتے ہیں اور میری نظر سے گزرے ہیں۔ آگے چل کر ریختہ سے صرف اُردو شاعری مراد لی جانے لگی۔ امیرخسروؔ کی ایک مشہور غزل 'زِحال مسکیں، مَکُن تغافل' اس کی مثال میں پیش کی جاسکتی ہے، جس میں بِرج بھاشا اور فارسی مِلی ہوئی زبان استعمال کی گئی ہے''۔ (ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ)۔
ڈاکٹر سہیل بخاری نے تصوف کے ضمن میں ہندؤوں کی ہندی شاعری کا مسلم صوفیہ کرام سے براہ راست اخذواستفادہ بھی ثابت کیا ہے۔ یہاں راقم کے نزدیک، وضاحت ضروری ہے کہ فارسی کے ذخیرہ الفاظ کا بڑا حصہ، اُس دور تک عربی سے مرعوب وماخوذ تھا، لہٰذا بنیادی طور پر غالب اشتراک، عربی ہی کا ہوا۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ عربی کے عروج سے مختلف چھوٹی بڑی زبانوں اور بولیوں کا زوال بھی فطری طور پر، اَزخود ہوگیا تھا۔ فارسی ایک مکمل زبان ہوتے ہوئے بھی فاتحین کی زبان، عربی سے مرعوب ومتأثر ہوئی تو نوبت بہ ایں جا رسیدکہ شاعر (عربی میں طبع آزمائی کے ساتھ ساتھ)، اپنے فارسی کلام میں بھی عربی کے مصرع باندھنے لگے۔ بعینہ یہی معاملہ دیگر بڑی زبانوں بشمول ترکی کا ہوا۔ اردو میں بھی مقامی بولیوں اور زبانوں کے اثرات، عربی (دینی و دیگر) ادب کے زیراثر، کم ہوتے گئے اور معیاری وعوامی ہر طرح کی زبان اور بول چال میں عربی الفاظ، تراکیب، فقروں اور مثالوں کی خاصی تعداد شامل ہوگئی۔
یہاں قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کے براہ راست اثرات بھی بہت نمایاں ہیں۔ یہ معاملہ محض اردو تک محدود نہیں، خطہ پاک وہند کی علاقائی یا مقامی زبانیں بھی اس ضمن میں عربی سے کشید کا شرف حاصل کرتی رہی ہیں، سرفہرست پنجابی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ فاتح کی زبان نے مفتوح کی زبان پر غلبہ پایا، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر، جدید لسانی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اثر قبول کرنے کا معاملہ دوطرفہ ہوتا ہے۔ عربی میں صدیوں سے قدیم ہندی الاصل الفاظ (یاسنسکِرِت)، فارسی وترکی الفاظ کسی نہ کسی صورت شامل رہے ہیں اور آج تک ہیں۔
اس بابت بھی اس ناچیز نے بعض کالموں میں اشارہ کیا ہے۔ بقول ایک محقق:''عربی زبان میں تمدن، حکومت اور فرنیچر سے متعلق الفاظ کی بڑی تعداد فارسی سے، علم و فلسفہ سے متعلق یونانی سے، زراعت کے الفاظ نبطی سے، دینی رسومات عبرانی یا سُریانی سے، مسالہ، دوا اور خوشبو وغیرہ کے الفاظ ہندی سے آئے ہیں''۔ (اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات، مصنف: ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی، مترجم:محمد طارق)۔ زمانہ آفرینش سے انسان کی تہذیب وترقی کا سلسلہ متواتر، سرزمین عرب وہند میں ساتھ ساتھ جاری رہا، خاص عرب اور ہند کے تعلقات زمانہ قدیم سے مستحکم تھے، جنھیں اسلام کے ظہور کے بعد مزید فروغ حاصل ہوا۔ اس خطے میں اسلام کی آمد بعہد رسالت مآب (ﷺ) ہوئی۔ اس بابت بھی راقم ماقبل لکھ چکا ہے۔
نَبَطی[Nabataean civilization] ایک ترقی یافتہ تہذیب تھی (انھی میں بنواِسرائیل بھی ہوگزرے ہیں) جس کے آثار بترا، اُردَن[Petra] میں موجود ہیں، اس کی زبان آرامی (Aramaic) تھی جس نے عربی کی بطور زبان تشکیل میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لیا ہوگا، جبکہ سُریانی (Syriac ) زبان سے انسان کا تعلق بھی قدیم ہے۔ (سُریانی کو درحقیقت، آرامی ہی کی شاخ یا بولی قرار دیا گیا ہے)۔
تفسیری انکشاف دُہراتا ہوں کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) جنت سے زمین پر اُتارے گئے تو اُن کے دہن مبارک سے، عربی زبان سَلب کرکے، سُریانی جاری کردی گئی تھی، (تفسیرخزائن العرفان اَزصدرالافاضل علامہ مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ)، توبہ کی قبولیت کے بعد، انھیں عربی پر دوبارہ قدرت عطا کی گئی۔ یوں حساب لگاکر، کرّہ ارض کی قدیم ترین زبان عربی نہیں، سُریانی ہے۔ قدیم بابِل سے ملنے والی تالمود (Babylonian Talmud)کا بیان ہے کہ اولین انسان یعنی حضرت آدم آرامی بولا کرتے تھے;یعنی ہماری تفسیری روایت کی تصدیق ہوگئی۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہندوستان میں دینی علوم کے علاوہ، شعرواَدب میں بھی ایسی نامی گرامی شخصیات ہوگزری ہیں جنھوں نے عربی میں طبع زاد کلام سے ایک دنیا میں اپنا لوہا منوایا، جیسے علامہ مفتی فضل حق خیرآبادی، سید برکت اللہ عشقیؔ مارہروی، اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی، مولانا غلام علی آزادؔ بلگرامی، شاہ رفیع الدین ودیگر۔
خلافت ِعثمانیہ کے سقوط کے وقت تک، عربی دنیا بھر میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے مسلمانوں کے مابین انتہائی اہم ، مقدس ومتبرک قدر ِمشترک بن چکی تھی۔ انگریز نے اس کی اہمیت کے پیش نظر، ہندوؤں میں یہ خیال اُبھارا کہ اردو (عربی وفارسی الفاظ کی کثرت کے سبب)، مسلمانوں کی زبان ہے۔ ''تقسیم کرو، حکومت کرو'' تحریک کے نتیجے میں مصنوعی ہندی کو پروان چڑھایا گیا تو ساتھ ہی یہ خیال بھی عام ہوگیا کہ اردو کو عربی سے 'پاک' کرنا ضروری ہے۔ مدتوں بعد، اس مہم میں ہمارے کئی اہل قلم نے حصہ لیا اور آج بھی ایسے سرپھرے مل جائیں گے جو عربی کو ''خارج از نصاب'' اور ''داخلِ دفتر'' کرنے کے متشدد حامی ہیں۔
براہ راست اردو میں شامل عربی الاصل الفاظ کے ذخیرے کی بات کریں تو جناب صورت یہ ہے کہ اُن کی تعداد گننا بھی محال ہے۔ ہم معیاری ادبی وکتابی ورسمی زبان کی بات کریں یا روزمرّہ بول چال کی، حتیٰ کہ عوامی چالو بولی[Slang] بشمول زنانہ و سُوقیانہ بولی کی، عربی ہر جگہ نمایاں طور پر شامل ہے۔
قرآن کریم کے آغاز ہی میں خالق کائنات نے فرمایا ہے کہ (مفہوم)'':اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کر دی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب'' (سورہ بقرہ، آیت نمبر 7:ترجمہ کنزالایمان از اعلیٰ حضرت احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)۔ دلوں پر مُہر لگانا اردو میں بھی موجود ہے۔ محمد حسین آزاد ؔ نے ''دربارِ اکبری'' میں راجا مان سنگھ کے متعلق لکھا ہے:''بنگال کے سفر میں ایک مقام پر، شاہ دولت کے اوصاف وکمالات سُنے، خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اُس کی پاکیزہ اورسنجیدہ گفتگو سے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ مان سنگھ ! مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟ اُس نے مسکراکر کہا کہ 'خدا کی مُہر ہے، بندہ کیوں کر اُٹھائے کہ گستاخی ہے''۔ حالیؔ نے اس شعر میں مُہر ِدہن جیسی غیرمانوس ترکیب استعمال کی ہے:
کروں تجھ سے بیاں کچھ دردِغربت+مگر جوشِ سخن، مُہرِدہن ہے
جبکہ مشہور ترکیب مُہر بہ لب اُنھی کے معاصر شبلیؔ کے یہاں یوں جلوہ گر ہے:
گرچہ وہ حدّ مناسب سے بڑھا جاتا تھا+سب کے سب، مُہر بہ لب تھے، چہ اناث وچہ ذکور (نظم: عدلِ فاروقی)
اسی سورہ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں صُمّ بکم یعنی بہرے گونگے کی ترکیب استعمال ہوئی۔ اردو میں اسے بطور محاورہ اپنالیا گیا بمعنی خاموش اور دَم بخود ہوجانا۔ سورہ بقرہ کی انیسویں آیت میں کفار کے، بجلی کی کڑک کے ڈر سے، کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے کا ذکر فرمایا گیا، یہ اردو میں بھی مستعمل ہے:
ڈرگئے ہیں مِرے نالوں سے مؤذن ایسے +انگلیاں کانوں میں ہنگامِ اذاں رکھتے ہیں (اسیرؔ لکھنوی)
اسی طرح انتیسویں پارے کے آٹھویں رکوع میں ''کانوں میں انگلیاں دینا'' مذکور ہوا، جو بیزاری اور نفرت کا اظہار ہے۔ اردو میں بھی اس کی مثال موجود ہے: اے مؤذن چُپ بھی رہ، تُو پھِرچکا اسلام سے +انگلیاں کانوں میں دیتا ہے ، خدا کے نام سے (شوقؔ قدوائی)
پہلے پارے کے تیسرے رکوع میں 'عہد توڑنا' آیا ہے۔ اردو میں اسے عہد توڑنا، عہد شکنی (فارسی سے مستعار) نیز بعض جگہ اصل ترکیب ''نقضِ عہد'' آئی ہے۔ (اخذواِستفادہ: اردو میں قرآن اور حدیث کے محاورات از ڈاکٹر غلام مصطفی خان)۔ اگر ہم موضوع کی اس اہم کڑی ہی پر بات کریں تو اس کالم کی دوسری قسط لکھنی پڑجائے گی۔ اردو اور عربی کے لسانی تعلق کو سمجھنے کے لیے ''اردو، عربی کے لسانی رشتے'' از ڈاکٹر احسان الحق،''اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات'' از ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی اور ''عربی ادبیات کے اردو تراجم'' از ڈاکٹر ابراراحمد اجراوی جیسی کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
sohailahmed.siddiqui@live.com
Twitter Handle:@urdu_1046