یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
اور اب ذرا پاکستان کی عورت کے بارے میں بات ہو جائے، جس کے تیور اب بہت بدلے بدلے ہیں
ابھی پچھلے دنوں اسلام آباد میں کشور ناہید کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں ہم نے بھی تھوڑی گفتگو کی تھی۔ اخبار میں اس تقریب کی رپورٹ شایع ہوئی۔ ہم پڑھ کر اس پر تھوڑا بے مزہ ہوئے کہ ہم نے کیا کہا تھا، رپورٹر نے ایک بظاہر معمولی سی تبدیلی سے کیا سے کیا بنا دیا۔ پھر یہ سوچ کر چپ ہو گئے کہ ہمارے اخباروں میں ادبی تقریبوں میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کی رپورٹنگ شاذ و نادر ہی صحیح ہوتی ہے۔ لیکن اب جب کہ مسعود اشعر نے اپنے کالم میں ہمارے بیان کو اسی طرح نقل کیا ہے جس طرح اسے رپورٹر نے رپورٹ کیا ہے تو اس کی تصحیح ہم پر لازم ہو گئی ہے۔ اصل میں یہ بات ہم اس سے پہلے بھی اپنے مشاہدے کے بل پر بعض موقعوں پر کہہ چکے ہیں کہ ہمارے زمانے میں دو طاقتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ملّا اور عورت۔ رپورٹر نے اس کے سوا کچھ نہیں کہا کہ ملّا کی جگہ طالبان لکھ دیا۔
رپورٹر نے تو یہ سمجھا ہو گا کہ ملّا کہیں یا طالبان کہہ دیں کیا فرق پڑتا ہے۔ نہیں بہت فرق پڑتا ہے۔ جب ہی تو ہمیں تصحیح کی ضرورت پیش آئی۔ جس کردار کو ہم ملّا کے طور پر جانتے ہیں اس کے پیچھے راسخ العقیدگی کی ایک لمبی روایت ہے۔ اس روایت میں راسخ العقیدہ جید علما نظر آئیں گے۔
راسخ العقیدہ یعنی Orthodox۔ یہ وضاحت ہم نے اس لیے کی کہ آج کل لوگ اپنی تہذیبی اور دینی اصطلاحوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ اسی بات کو انگریزی میں کہو تو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اس روایت کے اصل نمایندے تو وہ راسخ العقیدہ علماء ہیں جنہوں نے قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ کیا اور اپنی سمجھ کے مطابق ان کی تعبیر کی۔ ملا کا خطاب جب ان تک محدود رہا تو اس کا بہت وقار تھا۔ مگر جس نے مدرسے میں واجبی واجبی دینی تعلیم حاصل کی اور اپنے آپ کو اسی مقام پر رکھ کر اسی تحکم کے ساتھ بات کرنے لگا بلکہ فتوے دینے لگا تو اس وقار میں بہت فرق آ گیا۔
بہرحال کہنے کا مطلب یہاں یہ ہے کہ طالبان کے پیچھے ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ انھیں ابھی تک کوئی ایسا عالم یا شارح دین میسر نہیں آیا ہے جس کی شرح دین ان کے متشددانہ فعل و عمل کے لیے سند بنے۔ تو ہمارے معاشرے میں بیدار ہوتی ہوئی عورت کا ٹکرائو جس ادارے سے ہے وہ ملّا ہے جس نے اسی زمانے میں زیادہ طاقت پکڑی ہے۔ پھر اس کے پیچھے اتنی لمبی روایت۔ مقابلہ سخت ہے اور جان عزیز۔
اور اب ذرا تھوڑی بات اپنے یہاں کی اخباری رپورٹنگ کے بارے میں ہو جائے۔ اصل میں ہمارے یہاں رپورٹر کو زیادہ تو سیاسی لیڈر ہی سے پالا پڑتا ہے۔ اسی کے بیانات سب سے بڑھ کر اخبار کی زینت بنتے ہیں اور ہمارے سیاسی رہنما ایسے کوئی مدبر ہوتے نہیں کہ ان کے بیان کو سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے۔ موٹے موٹے لفظوں میں بات کرتے ہیں۔ پھر جب بعد میں بیان چھپنے پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ بے سوچے سمجھے وہ کیا کچھ کہہ گئے۔ پھر ان کی طرف سے زور دار تردیدیں آتی ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اس طرز گفتگو سے تو ہمارا رپورٹر خوب آشنا ہے۔ مگر جب ادبی تقریب میں وہ کسی ادیب کو بات کرتے دیکھتا ہے تو اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کونسی زبان بول رہا ہے۔ اس لیے اس کے بیان کی رپورٹنگ میں گھپلا ہونا لازم ہے۔ مگر اب جب کہ ادبی فیسٹیول بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور اخبارات کم از کم انگریزی اخبارات ان کی رپورٹ شایع کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں تو کیا مضائقہ ہے کہ وہ اس کی رپورٹنگ پر بھی توجہ کر لیں۔ آخر اگر کوئی ایسا سمینار ہو رہا ہے جہاں اقتصادی معاملات زیر بحث ہیں تو وہاں کوریج کے لیے کسی کرائم رپورٹر کو تو نہیں بھیجا جائے گا۔ تو جو ادبی سیمینار کانفرنسیں، فیسٹیول ہوتے ہیں ان کی رپورٹنگ بھی کسی کرائم رپورٹر کے تو سپرد نہیں ہونی چاہیے۔ کرائم رپورٹر تو دفتر میں بیٹھے بیٹھے ہی تھانے میں فون کر کے واقعہ کی تفصیل معلوم کر کے آسانی سے خبر بنا لیتا ہے۔ لٹریچر فیسٹیول کی رپورٹنگ الگ قسم کا رپورٹر مانگتی ہے۔
اور اب ذرا پاکستان کی عورت کے بارے میں بات ہو جائے، جس کے تیور اب بہت بدلے بدلے ہیں۔ ابھی جب ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں تو اخبار کی ایک سرخی پر ہماری نظر جا پڑی۔ یہ مختاراں مائی کا ایک بیان ہے۔ اس نے زنا بالجبر کے آئے دن ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اصل میں اس کی جڑیں ہمارے جاگیرداری نظام میں اور برادری نظام میں ہیں۔ دیکھا آپ نے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب مولانا حالیؔ نے نظم 'چپ کی داد' لکھ کر غریب و مسکین عورت کو سب کچھ خاموشی سے سہار لینے پر داد دی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارے معاشرے کی عورت کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے۔ ساس کے منہ میں تو زبان ضرور ہوتی تھی مگر وہ بھی بہو کی حد تک۔ اب وہ زمانہ آیا ہے کہ خالی لاہور، کراچی، اسلام آباد کی پڑھی لکھی لڑکی پر موقوف نہیں، دیہات تک میں عورت بولنے لگی ہے اور مختاراں مائی اپنے ملک سے نکل کر امریکا تک میں جا کر خوب بولی۔ تب غیرتمند پاکستانی پریشان ہوئے کہ اس بولنے سے تو پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ ارے جب اس کے ساتھ واردات گزری تھی اس وقت تو امیج خراب نہیں ہوا۔ پاکستان کا امیج اس کے بول پڑنے سے خراب ہوا۔ مگر زبان ایک مرتبہ کھلی سو کھلی۔ سو اب صورت ہماری آپ کی یہ ہے کہ ؎
سنتا جا شرماتا جا
غیرت کے نام پر کتنے قتل ہو رہے ہیں۔ لیکن لڑکیاں باز نہیں آ رہیں۔ اپنی مرضی سے شادی کرنے پر تلی نظر آتی ہیں۔ غیرت مند بھائیوں، باپوں کی غیرت جاگتی ہے۔
خاندان کی ناک جو کٹ گئی۔ نتیجہ غیرت کے نام پر قتل۔
ہاں یہ جو خاندان کی ناک کٹنے کا معاملہ ہے اب بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔ پہلے جب عورت کی طرف سے ایسی کوئی حرکت سرزد ہوتی تھی تو خاندان کی ناک کٹ جاتی تھی۔ اب ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔ یعنی خالی اپنی برادری میں تھڑی تھڑی نہیں ہوتی۔ پوری دنیا میں رسوائی ہو جاتی ہے۔
سنا ہے کہ ادھر سعودی عرب میں عورتیں تقاضا کر رہی ہیں کہ ہمیں موٹر چلانے کی آزادی ملنی چاہیے۔ ادھر عالم یہ ہے کہ موٹر چلانے کی تو کوئی اوقات ہی نہیں رہی۔ عورتیں جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔
ہاں 'تہذیب نسواں' اور 'عصمت' ایسے نسوانی رسالوں کو یاد کیجیے۔ بی بی کا مضمون چھپ رہا ہے۔ لیکن ان کا اپنا نام پردے میں ہے۔ فلاں کی والدہ یا فلاں کی دختر نیک اختر۔ یا فلاں کی بیگم۔ اب لکھنے والیوں کا نام بھی اچھل رہا ہے۔ چہرہ بھی طباق کی طرح عالم آشکارا ہے اور دیدہ پھٹا ہوا ہے۔
تو ایسے زمانے میں ہم جی رہے ہیں۔ پاکستان کے امیج (image) پر تو داغ آنا ہی ہے۔
رپورٹر نے تو یہ سمجھا ہو گا کہ ملّا کہیں یا طالبان کہہ دیں کیا فرق پڑتا ہے۔ نہیں بہت فرق پڑتا ہے۔ جب ہی تو ہمیں تصحیح کی ضرورت پیش آئی۔ جس کردار کو ہم ملّا کے طور پر جانتے ہیں اس کے پیچھے راسخ العقیدگی کی ایک لمبی روایت ہے۔ اس روایت میں راسخ العقیدہ جید علما نظر آئیں گے۔
راسخ العقیدہ یعنی Orthodox۔ یہ وضاحت ہم نے اس لیے کی کہ آج کل لوگ اپنی تہذیبی اور دینی اصطلاحوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ اسی بات کو انگریزی میں کہو تو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اس روایت کے اصل نمایندے تو وہ راسخ العقیدہ علماء ہیں جنہوں نے قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ کیا اور اپنی سمجھ کے مطابق ان کی تعبیر کی۔ ملا کا خطاب جب ان تک محدود رہا تو اس کا بہت وقار تھا۔ مگر جس نے مدرسے میں واجبی واجبی دینی تعلیم حاصل کی اور اپنے آپ کو اسی مقام پر رکھ کر اسی تحکم کے ساتھ بات کرنے لگا بلکہ فتوے دینے لگا تو اس وقار میں بہت فرق آ گیا۔
بہرحال کہنے کا مطلب یہاں یہ ہے کہ طالبان کے پیچھے ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ انھیں ابھی تک کوئی ایسا عالم یا شارح دین میسر نہیں آیا ہے جس کی شرح دین ان کے متشددانہ فعل و عمل کے لیے سند بنے۔ تو ہمارے معاشرے میں بیدار ہوتی ہوئی عورت کا ٹکرائو جس ادارے سے ہے وہ ملّا ہے جس نے اسی زمانے میں زیادہ طاقت پکڑی ہے۔ پھر اس کے پیچھے اتنی لمبی روایت۔ مقابلہ سخت ہے اور جان عزیز۔
اور اب ذرا تھوڑی بات اپنے یہاں کی اخباری رپورٹنگ کے بارے میں ہو جائے۔ اصل میں ہمارے یہاں رپورٹر کو زیادہ تو سیاسی لیڈر ہی سے پالا پڑتا ہے۔ اسی کے بیانات سب سے بڑھ کر اخبار کی زینت بنتے ہیں اور ہمارے سیاسی رہنما ایسے کوئی مدبر ہوتے نہیں کہ ان کے بیان کو سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے۔ موٹے موٹے لفظوں میں بات کرتے ہیں۔ پھر جب بعد میں بیان چھپنے پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ بے سوچے سمجھے وہ کیا کچھ کہہ گئے۔ پھر ان کی طرف سے زور دار تردیدیں آتی ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اس طرز گفتگو سے تو ہمارا رپورٹر خوب آشنا ہے۔ مگر جب ادبی تقریب میں وہ کسی ادیب کو بات کرتے دیکھتا ہے تو اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کونسی زبان بول رہا ہے۔ اس لیے اس کے بیان کی رپورٹنگ میں گھپلا ہونا لازم ہے۔ مگر اب جب کہ ادبی فیسٹیول بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور اخبارات کم از کم انگریزی اخبارات ان کی رپورٹ شایع کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں تو کیا مضائقہ ہے کہ وہ اس کی رپورٹنگ پر بھی توجہ کر لیں۔ آخر اگر کوئی ایسا سمینار ہو رہا ہے جہاں اقتصادی معاملات زیر بحث ہیں تو وہاں کوریج کے لیے کسی کرائم رپورٹر کو تو نہیں بھیجا جائے گا۔ تو جو ادبی سیمینار کانفرنسیں، فیسٹیول ہوتے ہیں ان کی رپورٹنگ بھی کسی کرائم رپورٹر کے تو سپرد نہیں ہونی چاہیے۔ کرائم رپورٹر تو دفتر میں بیٹھے بیٹھے ہی تھانے میں فون کر کے واقعہ کی تفصیل معلوم کر کے آسانی سے خبر بنا لیتا ہے۔ لٹریچر فیسٹیول کی رپورٹنگ الگ قسم کا رپورٹر مانگتی ہے۔
اور اب ذرا پاکستان کی عورت کے بارے میں بات ہو جائے، جس کے تیور اب بہت بدلے بدلے ہیں۔ ابھی جب ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں تو اخبار کی ایک سرخی پر ہماری نظر جا پڑی۔ یہ مختاراں مائی کا ایک بیان ہے۔ اس نے زنا بالجبر کے آئے دن ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اصل میں اس کی جڑیں ہمارے جاگیرداری نظام میں اور برادری نظام میں ہیں۔ دیکھا آپ نے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب مولانا حالیؔ نے نظم 'چپ کی داد' لکھ کر غریب و مسکین عورت کو سب کچھ خاموشی سے سہار لینے پر داد دی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارے معاشرے کی عورت کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے۔ ساس کے منہ میں تو زبان ضرور ہوتی تھی مگر وہ بھی بہو کی حد تک۔ اب وہ زمانہ آیا ہے کہ خالی لاہور، کراچی، اسلام آباد کی پڑھی لکھی لڑکی پر موقوف نہیں، دیہات تک میں عورت بولنے لگی ہے اور مختاراں مائی اپنے ملک سے نکل کر امریکا تک میں جا کر خوب بولی۔ تب غیرتمند پاکستانی پریشان ہوئے کہ اس بولنے سے تو پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ ارے جب اس کے ساتھ واردات گزری تھی اس وقت تو امیج خراب نہیں ہوا۔ پاکستان کا امیج اس کے بول پڑنے سے خراب ہوا۔ مگر زبان ایک مرتبہ کھلی سو کھلی۔ سو اب صورت ہماری آپ کی یہ ہے کہ ؎
سنتا جا شرماتا جا
غیرت کے نام پر کتنے قتل ہو رہے ہیں۔ لیکن لڑکیاں باز نہیں آ رہیں۔ اپنی مرضی سے شادی کرنے پر تلی نظر آتی ہیں۔ غیرت مند بھائیوں، باپوں کی غیرت جاگتی ہے۔
خاندان کی ناک جو کٹ گئی۔ نتیجہ غیرت کے نام پر قتل۔
ہاں یہ جو خاندان کی ناک کٹنے کا معاملہ ہے اب بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔ پہلے جب عورت کی طرف سے ایسی کوئی حرکت سرزد ہوتی تھی تو خاندان کی ناک کٹ جاتی تھی۔ اب ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔ یعنی خالی اپنی برادری میں تھڑی تھڑی نہیں ہوتی۔ پوری دنیا میں رسوائی ہو جاتی ہے۔
سنا ہے کہ ادھر سعودی عرب میں عورتیں تقاضا کر رہی ہیں کہ ہمیں موٹر چلانے کی آزادی ملنی چاہیے۔ ادھر عالم یہ ہے کہ موٹر چلانے کی تو کوئی اوقات ہی نہیں رہی۔ عورتیں جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔
ہاں 'تہذیب نسواں' اور 'عصمت' ایسے نسوانی رسالوں کو یاد کیجیے۔ بی بی کا مضمون چھپ رہا ہے۔ لیکن ان کا اپنا نام پردے میں ہے۔ فلاں کی والدہ یا فلاں کی دختر نیک اختر۔ یا فلاں کی بیگم۔ اب لکھنے والیوں کا نام بھی اچھل رہا ہے۔ چہرہ بھی طباق کی طرح عالم آشکارا ہے اور دیدہ پھٹا ہوا ہے۔
تو ایسے زمانے میں ہم جی رہے ہیں۔ پاکستان کے امیج (image) پر تو داغ آنا ہی ہے۔