شہباز شریف اور ن کا اقلیتی گروپ
اقلیتی دھڑے کے لیے ویسے تو بہتر یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خاموش ہی رہے
پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت ایک عجیب تذبذب کا شکار نظر آرہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے اپوزیشن اتنے مسائل پیدا نہیں کر رہی جتنے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک دھڑا کر رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اکثریت شہباز شریف کے ساتھ ہے۔ ا
نھیں میاں نواز شریف کا بھی مکمل اعتماد حاصل ہے۔ لیکن ایک اقلیتی دھڑا پہلے دن سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس لیے اس اقلیتی دھڑے کے لیے ویسے تو بہتر یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خاموش ہی رہے تاہم یہ کسی بھی کمزور لمحہ پر شہباز شریف پر حملہ کرنے کا موقع جانے نہیں دیتا۔ چاہے اس سے اس کی اپنی جماعت کا زیادہ نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ویسے تو دو چار بیان کوئی جماعت کی پالیسی کے عکاس نہیں ہوتے تاہم پھر ان کی وجہ سے ایک بے وجہ کا شور ضرور پیدا ہوتا ہے۔
میاں نواز شریف نے حال ہی میں دوبارہ واضح کیا ہے شہباز شریف کو ان کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وضاحت کی بھی اس لیے ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ میڈیا میں ایک غلط تاثر جا رہا تھا جیسے اس اقلیتی گروپ کو لندن سے کوئی اشارے مل رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کی وضاحت نے ایک دفعہ سب کو پیغام دے دیا ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ ملکر چلیں۔
اور جو نہیں چلنا چاہتے وہ مسلم لیگ (ن)کے اندر رہتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہی کام کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ بات اس نہج تک پہنچ جائے گی ایسے افراد کے خلاف مسلم لیگ (ن) کو ڈسپلنری ایکشن بھی لینا ہوگا۔ کیونکہ باہر کا دشمن اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا اندر کا دشمن پہنچاتا ہے۔ شاید اب اس کا احساس مسلم لیگ (ن) میں بڑھتا جا رہا ہے۔
بجلی کے بلوں پر بھی شاید اپوزیشن کی جماعتوں نے اتنا شور نہیں مچایا جتنا اس اقلیتی گروپ نے مچایا ہے۔ ویسے تو شہباز شریف نے ایک کروڑ سے زائد صارفین کو ریلیف دے دیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ مسلم لیگ (ن) اپنے اندرونی خلفشار کی وجہ سے عوام کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ یہ سمجھانا کوئی مشکل نہیں تھا کہ آج بجلی مہنگی کیوں ہے۔
اس کی وجوہات کیا ہیں۔ عمران خان کے آئی ایم ایف سے معاہدے کیسے ہمارے گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں۔ کیوں عمران خان کے کیے ہوئے معاہدوں کی وجہ سے آج موجودہ حکومت بجلی مہنگی کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے کچھ لوگوں نے عوام کو اپنی حکومت کا موقف سمجھانے کے بجائے اپنی حکومت کے خلا ف ہی تیر برسانے شروع کر دیے ہیں۔ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں کی مصداق مسلم لیگ (ن) کے لوگ اپنی ہی حکومت کو کمز ور کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ سیاسی خود کشی ہے۔ اس سے انھیں بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس موجودہ حکومت کی اب تک کامیابیاں دکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ لیکن بحیثیت سیاسی جماعت وہ اس میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔ آج پنجاب میں سیلاب کی جو صورتحال ہے اس میں اس صوبائی حکومت کی کارکردگی وفاقی حکومت سے بہت پیچھے نظر آرہی ہے۔ اگر سیلاب پر ہی شہباز شریف کی کارکردگی کو مسلم لیگ (ن) لے کر چلے تو اس کے پاس دکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ 2010کے سیلاب میں جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور وہ جس طرح سیلاب زدہ علاقوں میں گئے اور جب تک ریلیف کا کام مکمل نہیں ہوا تب تک وہیں بیٹھے رہے۔ اس کا آج کی حکومت سے موازنہ کیا جائے تو عوام کو بتایا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کیسے بہتر حکمران ہیں۔
پھر شہباز شریف کے بین الا قوامی دوروں کو بھی صحیح طرح کیش نہیں کروا یا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کا دورہ بہت کامیاب رہا لیکن مسلم لیگ (ن) کے لوگ اس پر بات نہیں کرتے۔ حال ہی میں قطر کا دورہ کامیاب رہا ہے۔ وہاں سے سرمایہ کاری بھی آرہی ہے۔ ڈیپازٹ بھی آرہے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے لوگ اور اس کا سوشل میڈیا پتہ نہیں کیوں اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔اگر عمران خان نے یہ کامیابیاں حاصل کی ہوتیں تو تحریک انصاف آسمان سر پر اٹھا لیتی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر ان کامیابیوں پر بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھاجاتا۔
چین سے تعلقات بہتر کیے گئے۔ اس پر بھی بات نہیں کی جاتی۔ پھر آئی ایم ایف سے عمران خان معاہدہ توڑ کر اسی لیے گئے تھے کہ نئی آنے والی حکومت معاشی حا لات کو کنٹرول نہ کر سکے لیکن شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے عمران خان کے اس اسکرپٹ کو ناکام کر دیا ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ابھی جو چند کڑوی گولیاں کھائی گئی ہیں۔
ان کے بعد میں ملک کو اچھے نتائج ملیں گے۔ یہ کڑوی گولیاں ملک کے لیے کھائی جا رہی ہیں۔ شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو بجلی اور پٹرول مہنگا کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ لیکن ملک کے معاشی حالات اس کا بات تقاضہ کر رہے ہیں کہ ملک بچایاجائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کے بیان میں یہ بات درست ہے کہ شہباز شریف اور ان کی ٹیم ملک کو عمران خان حکومت کے معاشی گرداب سے نکال رہی ہے۔ یہ بیانیہ بنانا اور عوام کو سمجھانا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ وہ عوام کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ وہ سیاسی مخالف کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی بات کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔
میاں شہباز شریف ایک اتحادی حکومت لے کر چل رہے ہیں۔ انھوں نے اسٹبلشمنٹ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ایسے میں اندر سے حملہ زیادہ دکھ کی بات ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو بھی کنفیوژ کر رہے ہیں۔ جس کا مسلم لیگ (ن) میں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
شہباز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے چند ماہ میں ہی ملک کے معاشی حالات کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا ہے۔ ملک چلانے کے لیے پیسوں کا بندوبست کر لیا ہے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ اب تو شہباز شریف کے سیاسی دشمن جو پہلے کہہ رہے تھے کہ انھیں ایک پائی نہیں ملے گی اب حیران ہیں کہ شہباز شریف نے اتنے کم عرصہ میں اتنے خراب حالات کیسے ٹھیک کر لیے۔ جہاں تک ووٹ بینک کے کم زورہونے کی بات ہے تو 2012میں عمران خان بہت غیر مقبول تھے۔ اگر 2022میں مقبول نظر آرہے ہیں تو عین ممکن ہے کہ 2023 میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کی بنیاد پر اس کا ووٹ بینک پھر بڑھ جائے۔ اس لیے اب مسلم لیگ (ن) کے پاس شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
جولوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی مخالفت کر کے کوئی ووٹ بینک کا کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ سیاست کی الف ب سے بھی ناواقف ہیں۔ ویسے شہباز شریف کے لیے یہ حالات کوئی نئے نہیں ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے اندر ایسے اختلاف رائے کے عادی ہیں۔ لیکن پہلے بھی انھوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے ان کو شکست دی ہے۔ اس لیے شہباز شریف کی خاموشی پر نہ جائیں وہ وقت آنے پر ہی سیاسی حملہ کرتے ہیں۔
نھیں میاں نواز شریف کا بھی مکمل اعتماد حاصل ہے۔ لیکن ایک اقلیتی دھڑا پہلے دن سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس لیے اس اقلیتی دھڑے کے لیے ویسے تو بہتر یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خاموش ہی رہے تاہم یہ کسی بھی کمزور لمحہ پر شہباز شریف پر حملہ کرنے کا موقع جانے نہیں دیتا۔ چاہے اس سے اس کی اپنی جماعت کا زیادہ نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ویسے تو دو چار بیان کوئی جماعت کی پالیسی کے عکاس نہیں ہوتے تاہم پھر ان کی وجہ سے ایک بے وجہ کا شور ضرور پیدا ہوتا ہے۔
میاں نواز شریف نے حال ہی میں دوبارہ واضح کیا ہے شہباز شریف کو ان کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وضاحت کی بھی اس لیے ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ میڈیا میں ایک غلط تاثر جا رہا تھا جیسے اس اقلیتی گروپ کو لندن سے کوئی اشارے مل رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کی وضاحت نے ایک دفعہ سب کو پیغام دے دیا ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ ملکر چلیں۔
اور جو نہیں چلنا چاہتے وہ مسلم لیگ (ن)کے اندر رہتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہی کام کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ بات اس نہج تک پہنچ جائے گی ایسے افراد کے خلاف مسلم لیگ (ن) کو ڈسپلنری ایکشن بھی لینا ہوگا۔ کیونکہ باہر کا دشمن اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا اندر کا دشمن پہنچاتا ہے۔ شاید اب اس کا احساس مسلم لیگ (ن) میں بڑھتا جا رہا ہے۔
بجلی کے بلوں پر بھی شاید اپوزیشن کی جماعتوں نے اتنا شور نہیں مچایا جتنا اس اقلیتی گروپ نے مچایا ہے۔ ویسے تو شہباز شریف نے ایک کروڑ سے زائد صارفین کو ریلیف دے دیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ مسلم لیگ (ن) اپنے اندرونی خلفشار کی وجہ سے عوام کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ یہ سمجھانا کوئی مشکل نہیں تھا کہ آج بجلی مہنگی کیوں ہے۔
اس کی وجوہات کیا ہیں۔ عمران خان کے آئی ایم ایف سے معاہدے کیسے ہمارے گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں۔ کیوں عمران خان کے کیے ہوئے معاہدوں کی وجہ سے آج موجودہ حکومت بجلی مہنگی کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے کچھ لوگوں نے عوام کو اپنی حکومت کا موقف سمجھانے کے بجائے اپنی حکومت کے خلا ف ہی تیر برسانے شروع کر دیے ہیں۔ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں کی مصداق مسلم لیگ (ن) کے لوگ اپنی ہی حکومت کو کمز ور کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ سیاسی خود کشی ہے۔ اس سے انھیں بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس موجودہ حکومت کی اب تک کامیابیاں دکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ لیکن بحیثیت سیاسی جماعت وہ اس میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔ آج پنجاب میں سیلاب کی جو صورتحال ہے اس میں اس صوبائی حکومت کی کارکردگی وفاقی حکومت سے بہت پیچھے نظر آرہی ہے۔ اگر سیلاب پر ہی شہباز شریف کی کارکردگی کو مسلم لیگ (ن) لے کر چلے تو اس کے پاس دکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ 2010کے سیلاب میں جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور وہ جس طرح سیلاب زدہ علاقوں میں گئے اور جب تک ریلیف کا کام مکمل نہیں ہوا تب تک وہیں بیٹھے رہے۔ اس کا آج کی حکومت سے موازنہ کیا جائے تو عوام کو بتایا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کیسے بہتر حکمران ہیں۔
پھر شہباز شریف کے بین الا قوامی دوروں کو بھی صحیح طرح کیش نہیں کروا یا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کا دورہ بہت کامیاب رہا لیکن مسلم لیگ (ن) کے لوگ اس پر بات نہیں کرتے۔ حال ہی میں قطر کا دورہ کامیاب رہا ہے۔ وہاں سے سرمایہ کاری بھی آرہی ہے۔ ڈیپازٹ بھی آرہے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے لوگ اور اس کا سوشل میڈیا پتہ نہیں کیوں اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔اگر عمران خان نے یہ کامیابیاں حاصل کی ہوتیں تو تحریک انصاف آسمان سر پر اٹھا لیتی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر ان کامیابیوں پر بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھاجاتا۔
چین سے تعلقات بہتر کیے گئے۔ اس پر بھی بات نہیں کی جاتی۔ پھر آئی ایم ایف سے عمران خان معاہدہ توڑ کر اسی لیے گئے تھے کہ نئی آنے والی حکومت معاشی حا لات کو کنٹرول نہ کر سکے لیکن شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے عمران خان کے اس اسکرپٹ کو ناکام کر دیا ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ابھی جو چند کڑوی گولیاں کھائی گئی ہیں۔
ان کے بعد میں ملک کو اچھے نتائج ملیں گے۔ یہ کڑوی گولیاں ملک کے لیے کھائی جا رہی ہیں۔ شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو بجلی اور پٹرول مہنگا کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ لیکن ملک کے معاشی حالات اس کا بات تقاضہ کر رہے ہیں کہ ملک بچایاجائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کے بیان میں یہ بات درست ہے کہ شہباز شریف اور ان کی ٹیم ملک کو عمران خان حکومت کے معاشی گرداب سے نکال رہی ہے۔ یہ بیانیہ بنانا اور عوام کو سمجھانا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ وہ عوام کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ وہ سیاسی مخالف کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی بات کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔
میاں شہباز شریف ایک اتحادی حکومت لے کر چل رہے ہیں۔ انھوں نے اسٹبلشمنٹ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ایسے میں اندر سے حملہ زیادہ دکھ کی بات ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو بھی کنفیوژ کر رہے ہیں۔ جس کا مسلم لیگ (ن) میں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
شہباز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے چند ماہ میں ہی ملک کے معاشی حالات کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا ہے۔ ملک چلانے کے لیے پیسوں کا بندوبست کر لیا ہے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ اب تو شہباز شریف کے سیاسی دشمن جو پہلے کہہ رہے تھے کہ انھیں ایک پائی نہیں ملے گی اب حیران ہیں کہ شہباز شریف نے اتنے کم عرصہ میں اتنے خراب حالات کیسے ٹھیک کر لیے۔ جہاں تک ووٹ بینک کے کم زورہونے کی بات ہے تو 2012میں عمران خان بہت غیر مقبول تھے۔ اگر 2022میں مقبول نظر آرہے ہیں تو عین ممکن ہے کہ 2023 میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کی بنیاد پر اس کا ووٹ بینک پھر بڑھ جائے۔ اس لیے اب مسلم لیگ (ن) کے پاس شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
جولوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی مخالفت کر کے کوئی ووٹ بینک کا کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ سیاست کی الف ب سے بھی ناواقف ہیں۔ ویسے شہباز شریف کے لیے یہ حالات کوئی نئے نہیں ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے اندر ایسے اختلاف رائے کے عادی ہیں۔ لیکن پہلے بھی انھوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے ان کو شکست دی ہے۔ اس لیے شہباز شریف کی خاموشی پر نہ جائیں وہ وقت آنے پر ہی سیاسی حملہ کرتے ہیں۔