شیرے کی انگلی
شیطان نے اس شخص کی طرف مسکراکر دیکھتے ہوئے کہا، میں نے صرف شیرے کی انگلی لگائی تھی
کسی نے شیطان سے پوچھاکہ تم کیسے یہ اتنی بڑی بڑی جنگیں برپا کردیتے ہو۔ شیطان نے کہا جنگیں ،میں نہیںبرپا کرتا۔میں تو صرف ''شیرے ''کی ایک انگلی لگا دیتا ہوں باقی انسان خود ہی لڑتے مرتے ہیں۔
پوچھنے والے نے مزید پوچھا ۔وہ کیسے؟ تو شیطان نے عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے قریبی حلوائی کے شیرے میں ایک انگلی ڈبوئی اوردیوار پرمل دی اور اس شخص سے کہا،اب آرام سے کھڑے ہوکر دیکھنا۔ تھوڑی دیرمیں شیرے کی انگلی کے اس نشان پر مکھیاں آکر بیٹھ گئیں تو کسی کونے سے ایک چھپکلی نکل کرمکھیوں کا شکار کرنے لگی،چھپکلی کو دیکھ کر چارپائی کے نیچے لیٹی ہوئی بلی اٹھی اورچھپکلی پرجھپٹ پڑی،بازارسے ایک شخص گزررہاتھا۔
اس نے اپنے لاڈلے کتے کی زنجیرپکڑی ہوئی تھی ،کتے کو بلی نظرآگئی تو زورلگا کرزنجیرسمیت بلی پر جھپٹ پڑا، کتے کی اس دھینگا مشتی سے حلوائی کی کئی تھالیاں الٹ گئیں تو حلوائی نے کتے کو کڑچھا مارا۔ضرب کتے کے سرپرلگی تووہیں جان نکل گئی،کتے کے مالک نے اپنے لاڈلے کتے کے مرنے پر تلوارنکالی اورحلوائی کی گردن اڑادی، دوسرے دکانداروںکو پتہ چلاتو انھوں نے کتے والے پر ہلہ بول دیا،کتے والے کے کچھ شناسا دوڑ کر اس کے عزیزوں کے پاس گئے ،سانحے کی اطلاع دی تو وہاں سے ایک مسلح بپھراہوا ہجوم دکانداروں پر پل پڑا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہاں گھمسان کا رن پڑ گیا۔
شیطان نے اس شخص کی طرف مسکراکردیکھتے ہوئے کہا، میں نے صرف شیرے کی انگلی لگائی تھی ، وہ بھی دیوارپر۔شیطان واقعی شیطان تھا، واقعی اس نے دیوار پر صرف ایک شیرے کی انگلی لگائی،لیکن سارے فساد کی جڑتو شیرے کی انگلی ہے جو سناہے آج کل کسی نے اسلام آباد کی ایک دیوار پر لگائی ہوئی ہے ،ظاہر ہے کہ اب شیرے کے رسیا لوگوں میں لڑائی تو ہو گی۔
نیاکی تمنا ہے کہ ہیرا اسے مل جائے
چاہے مری جان جائے چاہے میرادل جائے
وہ ایک افیمی نے افیم کے دکاندار سے ''دوپیسے'' کی افیم مانگی تو دکاندار نے کہا دوپیسے کی افیم سے کیا نشہ ہوگا۔ افیمی نے کہا،نشہ میرے اپنے سرمیں بہت ہے صرف ایک بہانہ چاہیے ۔ یہاں بھی اقتدار کے افیمیوں کے سر نشے سے بھرے ہوئے ہیں جو ذرا سی افیم میں بھی چل پڑتے ہیں۔ اکثرسرتو پیدائشی اورخاندانی نشیؤں کے ہیں کہ کئی پشتوں سے یہی ان کاکام ہے لیکن یہ جو ایک ''نیا سر''پیداہوا ہے...ارے خدا کے بندے اچھے خاصے کرکٹ کے ہیرو تھے، اچھی خاصی ایک خوبصورت میم اوربچے حاصل تھے ۔پھر اسپتال بناکر مزید مقبول ہوئے اگر یہی سلسلہ چلاتے تو آج ''ایدھی'' ہوتے لیکن نہیں۔ میں تو پرائم منسٹر بنوں گا۔تبدیلی لاؤں گا نیا پاکستان بناؤں گا ۔ریاست مدینہ بناکر خلیفۃ المسلمین بنوں گا۔
اگر اس سارے کیس پر نظرڈالیے تو آپ کو اس میں بھی ایک شیرے کی انگلی نظر آئے گی ،باباجی ڈیموں والی سرکارنے نوازشریف سے اپنا انتقام لینے کے لیے جو شیرے کی انگلی لگائی تھی یہ سب کچھ اسی کاشاخسانہ ہے ،صادق و امین اورریاست مدینہ اسی کی ایجادات ہیں ،اب تو سناہے وہ اپنے ''ہنی مون'' میں مصروف ہیں اورسوچتے تک نہیں ہوں گے کہ اس نے اس ملک کو کیاکیا تحفے دیے، کتنے مقدسات کا خون کیا، کتنی مقدس چیزوں اورہستیوں کی توہین اوربے حرمتی ہوئی اورہو رہی ہے ۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
لواینڈ وار شروع ہوچکی ہے ،اب اس میں اورکتنی توہین وتضحیک ہوگی، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ تمام مقدسات کو تو گلی کوچوں میں پہنچایا جاچکا ہے۔
نیند اب تیرے مقدرمیں نہیں
رات کے پچھلے پہرسوتاہے کیا
شیرے کی انگلی۔حلوائی کی دکان ۔دیوارپر لگائی جاچکی ہے، سارے جانورآپس میں الجھ چکے ہیں، اب بات انسانوں تک پہنچ چکی ہے۔
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
اوریہ سلسلہ صرف اس شیرے کی انگلی کا شاخشانہ ہے جو خود نہ جانے کس جہاں میں جاکر کھوگئی، شاید کسی ڈیم کے پشتے پر چارپائی ڈال کر چوکیداری کررہی ہو یا ڈیموں کے لیے کہیں سے چندہ وصول کر رہی ہے، اس سے بے خبر کہ وہ کتنا بڑا عذاب قوم کی گردن میں ڈال چکی ہے۔