اتحادی حکومت شکست تسلیم کرلے
حکومت کو یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں میں یہ صلاحیت ہے ہی نہیں
موجودہ اتحادی حکومت ، عمران خان کی سخت مزاحمت کے باوجود اپنے مشترکہ اقتدار کے ساڑھے چار ماہ تو مکمل کرنے میں کامیاب رہی اور اس نے شیخ رشید احمد کے اس دعوے کو دفن کردیا کہ اتحادی حکومت 18 اگست کو ختم ہو جائے گی اور اکتوبر، نومبر میں نئے انتخابات کے بعد نئی حکومت قائم ہو جائے گی۔
18 اگست بھی گزر گیا اور پنجاب حکومت کھونے کے بعد اتحادی حکومت کمزور ہونے کے بعد مضبوط تو نظر آنے لگی ہے جو مضبوطی حکومت کے سخت اقدامات سے ظاہر بھی ہوئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو عمران خان کے آگے مسلسل شکست کا سامنا ہے جو حکومت حقائق کے باوجود تسلیم نہیں کر رہی اور عمران خان اتحادی حکومت کے خلاف گھیراؤ مسلسل کرتے جا رہے ہیں۔ عمران خان اپنے تیار کردہ غیر حقیقی بیانیوں پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ اتحادیوں پر ان کے حملے جاری ہیں اور 75 ویں جشن آزادی پر بھی انھوں نے اپنے مخالف اتحادیوں کو معاف نہیں کیا ۔
جشن آزادی پر عمران خان نے اپنے طویل خطاب میں کوئی نئی بات نہیں کی اور اپنے پرانے دعوے دہراتے رہے بس اضافہ یہ ہوا کہ خان صاحب اپنی حکومت میں سرکاری اور پسندیدہ میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین کی جو متنازعہ تقاریر نہیں چلوا سکے تھے وہ انھوں نے چاہنے والوں کو سنوائیں مگر اس میں کوئی اپنی مرضی کی تقاریر سینسر کرا کے تاکہ سننے والے ان میں بیان کردہ حقائق نہ جان جائیں۔
اقتدار سے محرومی کے ساڑھے چار ماہ بعد انھوں نے ایک بار پھر وزیر اعظم شہباز شریف کی میثاق معیشت کی پیشکش کو ٹھکرایا اور واضح کردیا کہ وہ حکومت کے خاتمے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور موجودہ حکمرانوں سے کوئی بات کریں گے اور نہ ہی انھیں تسلیم کریں گے۔ حکمران اپنی بہتری اسی میں سمجھیں کہ وہ فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان کردیں۔ عمران خان موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور اتحادی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود انھی سے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں اور یہ بھی نہیں بتا رہے کہ وہ صرف قومی اسمبلی کے انتخابات چاہتے ہیں یا چاروں صوبائی اسمبلیوں کے بھی کیونکہ پنجاب اور کے پی میں ان کی حکومتیں پہلے ہی قائم ہیں اور عمران خان کا مسئلہ دوبارہ وزیر اعظم بننے کا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے 13 اگست کے خطاب میں کی جانے والی میثاق معیشت کی پیشکش مسترد کردیے جانے کے بعد 14 اگست کے خطاب میں بھی اپنی پیشکش کو دوبارہ دہرا کر عمران خان کو رام کرنے کی ناکام کوشش ہی نہیں کی بلکہ اظہار کیا کہ اتحادی حکومت ہر حال میں عمران خان کے ساتھ میثاق معیشت کرنا چاہتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اتحادی حکومت عمران خان کے بغیر ملکی معیشت بہتر نہیں بنا سکتی۔
حکومت کو یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں میں یہ صلاحیت ہے ہی نہیں اس لیے میثاق معیشت کے لیے عمران خان کو بار بار یہ پیشکش کرکے خوشامد کی جا رہی ہے جب کہ عمران خان اپنے اقتدار اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے میثاق معیشت کی پیشکش ٹھکراتے آ رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کبھی بھی بیٹھیں گے نہ ان سے بات کریں گے۔
یہ کہتے ہوئے عمران خان بھول جاتے ہیں کہ چور ڈاکو قرار دینے کا اختیار صرف عدالتوں کا ہے مگر عمران خان سالوں سے یہ عدالتی اختیار خود غیر قانونی طور پر استعمال کرتے آ رہے ہیں ۔غیر ضروری سو موٹو نوٹس لینے والوں نے کبھی عمران خان سے نہیں پوچھا کہ وہ یہ عدالتی اختیار کیوں استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی عمران خان کی طرف سے چور ڈاکو قرار دیے جانے والوں کو پہلے یہ ہمت نہیں ہوئی اور حکومت میں آنے کے بعد اتحادی حکمرانوں میں یہ جرأت پیدا ہوئی کہ وہ عمران خان کے اعلانات کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرتے کہ وہ ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے ہوتے ہوئے وہ خود جج کیوں بنے ہوئے ہیں اور عدالتوں کے فیصلوں کے بغیر عمران خان کسی کو بھی چور ڈاکو کیسے قرار دے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں خود عمران خان پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں اور 2014 کے دھرنے کے بعد اور اب موجودہ حکومت میں ان پر نئے مقدمات بنائے گئے ہیں جن میں عمران خان پر صرف الزامات لگائے گئے ہیں ان کے خلاف ابھی کوئی عدالتی فیصلہ بھی نہیں آیا مگر اتحادی حکمرانوں نے انھیں سب سے بڑا ڈاکو کہنا شروع کررکھا ہے۔
عمران خان تو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرچکے ہیں۔ اتحادی حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے عدالتی حکم پر ہٹائے جانے والے حمزہ شہباز اپنی حکومت میں ساڑھے چار ماہ سے عدالتوں میں حاضریاں بھگت رہے ہیں کبھی عدالت سے ایک روزہ معافی کی درخواست کرتے ہیں کہ انھیں حاضری سے ایک روزہ استثنیٰ دے دیں۔ یہ درخواست بھی عدالت عالیہ سے نہیں بلکہ احتساب عدالت یا اسپیشل کورٹ سے کی جاتی ہے۔
عمران خان نے اپنے اقتدار سے برطرفی پر امریکا کی سازش کا جو بیانیہ بنایا تھا اس کی تردید فوج کے بعد سپریم کورٹ نے بھی کی مگر عمران خان دونوں اداروں کی بھی نہیں مان رہے اور اب بھی اسی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور نئے نئے الزامات بھی لگا رہے ہیں مگر حکومت میں جرأت نہیں کہ وہ عمران خان کے دعوؤں اور الزامات کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ جوڈیشل کمیشن بنوا کر حقائق منظر عام پر لاتی مگر حکومت سے یہ بھی نہ ہو سکا۔عمران خان جیسے بیانیہ بنوانے یا ان کے الزامات کا موثر جواب دینے کے لیے حکومت کے پاس عمران خان کی ٹکر کی کوئی ایک بھی سیاسی شخصیت تک نہیں ہے نہ سوشل میڈیا پر کیے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کا توڑ حکومت کرسکی ہے۔
اس لیے بہتر ہے کہ حکومت عمران خان کے آگے اپنی شکست تسلیم کر لے کیونکہ حکومتی عہدیدار سوٹ پہن کر بے مقصد پریس کانفرنسیں ہی کرسکتے ہیں حکومتی صفوں میں کوئی فواد چوہدری یا شیخ رشید ہے نہ حکومت کی موثر وکالت کرنے والا کوئی وکیل یا میڈیا پرسن۔