نظام انصاف اور لارڈ میکالےii

آپ اپنے ارد گرد کے حالات ملاحظہ کریں، آپ کو ہر کونے، ہر شعبہ اور ہر قریہ میں نا انصافی کا بے رحم راج نظر آئے گا۔


راؤ منظر حیات March 16, 2014
[email protected]

آپ اپنے ارد گرد کے حالات ملاحظہ کریں، آپ کو ہر کونے، ہر شعبہ اور ہر قریہ میں نا انصافی کا بے رحم راج نظر آئے گا۔ آپ سطحی طور پر بھی مشاہدہ کریں تو آپ کو میری گزارشات کو رد کرنا قدرے مشکل ہو گا۔ آج کے اخبارات میں ایک نوجوان لڑکی کی تھانہ کے باہر خود سوزی کے واقعات کا چرچہ ہے۔ مجھے اس واقعے پر دلی افسوس ہے مگر مجھے اس پر ہر گز کوئی تعجب نہیں۔ ہمارے نظام عدل کے غیر فعال اور بوسیدہ ہونے کی اس سے بھر پُور مثال اور کوئی نہیں ہو سکتی! میں اپنا موقف ایک اور زاویہ سے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح کی خود سوزی، انگلینڈ، امریکا یا سویڈن میں کیوں نہیں ہوتی؟ صرف اس لیے کہ ان ملکوں نے اپنے عوام کے لیے برق رفتار انصاف مہیا کرنے کا مکمل انتظام کیا ہوا ہے۔ کسی سیاسی بونے کی جرات نہیں کہ وہ اس میں دخل اندازی کا سوچ بھی سکے۔ بارک اوباما دنیا کا طاقتور ترین شخص ہے۔ ہمارے تمام حکمران اُس سے چند منٹ ملنے کے لیے سالوں انتظار کرتے ہیں۔ اس ملاقات کی تصاویر پاکستان کے میڈیا میں فاتحانہ انداز میں ہفتوں دکھائی جاتی ہیں۔ مگر دنیا کا یہ طاقتور ترین صدر، اپنی بیوی یا بیٹی یا کسی دوست کو، تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے پکڑے جانے پر کسی ٹریفک کانسٹیبل کو چالان چھڑوانے کے لیے فون نہیں کر سکتا۔ فون تو دور کی بات، وہ اس کے چالان کی رقم کو ایک ڈالر بھی کم نہیں کروا سکتا۔ یہ ہے ''رُول آف لاء اور انصاف'' پر مبنی نظام۔

ہم ہر طرح کی تفریق کا شکار ہیں۔ لسانی، مذہبی، علاقائی اور فرقہ واریت پر مبنی ہر منفی رویہ ہمارے ریشہ ریشہ میں پیوست ہے لیکن ایک اور ساخت کی تفریق بھی معاشرے میں وجود رکھتی ہے۔ ہماری سوسائٹی کے چند عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اصلی شکل کا نفاذ ہی ہمارے ہر مسئلہ کا حل ہے۔ وہ قانون کے نظام کو بھی اسلامی اصولوں کے مکمل تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک اور طبقہ بھی موجود ہے جو دینی رجحانات کو اس نظام کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ وہ اپنے ملک میں سیکیولر طرز کی حکمرانی دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ ہمارے قانون میں اسلام کی بنیاد پر کوئی شق قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دونوں طرف کے قائدین کے پاس اپنے اپنے حق میں دلائل اور واقعات کا انبار ہے۔ دونوں اپنے سچ کو قطعی سچ سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ایک بھی ایسی بلند پایہ شخصیت نہیں جو ان فکری متحارب گروہوں کے درمیان ایک پُل کا کام کر سکے۔

اسلام کے ابتدائی دور پر نظر دوڑائیے۔ آقا ﷺ کی سیرت پاک سے آپ کو قانون کی حکمرانی کے بیش قیمت واقعات نظر آئینگے۔ خلفاء راشدین کی طرز حکومت اور ان کا نظام انصاف بھی آپ کو تعصبات سے بالا تر نظر آئے گا۔ اوائل اسلام میں انتظامی اور عدالتی صیغے ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد ان دونوں شعبوں کو بالکل علیحدہ کر دیا گیا۔ مختلف علاقوں میں تقسیم کے لحاظ سے قاضی مقرر کیے گئے۔ ان منصفین کے انتخاب میں حد درجہ احتیاط کی جاتی تھی۔ صرف اہل لوگوں کو قاضی مقرر کیا جاتا تھا۔ کوئی سفارش یا عصبیت اس انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی۔ ان افراد کی تنخواہ بہت زیادہ مقرر کی جاتی تھی تا کہ وہ رشوت کی طرف مائل نہ ہوں۔ کئی مقدمات میں خلیفہ وقت بھی قاضی کے سامنے پیش ہوتا تھا۔ ہمارے پاس ایسی سنہری مثالیں موجود ہیں جس میں قاضی نے امیرالمومنین کے خلاف فیصلہ دیا اور اسے مکمل احترام کے ساتھ تسلیم کیا گیا۔ قرآن حکیم، سیرت پاک اور خلافت راشدہ کے اندر وہ جوہری اصول موجود ہیں جو کسی بھی نظام انصاف کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ حیرت کا اَمر یہ ہے کہ کئی غیر مسلم ممالک نے ان سے بھر پُور استفادہ کیا ہے اور اپنے نظام کو نام کے استعمال کے بغیر اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار کیا ہے۔

اب آپ برصغیر کے نظام کو دیکھیے۔ سلاطین اور مغل بادشاہوں نے یہاں سیکڑوں برس حکومت کی۔ ان میں سے اکثریت نے نظام انصاف کو علاقائی اور مذہبی، دونوں سمتوں سے نہ صرف مضبوط کیا بلکہ اس کی بے پناہ حفاظت بھی کی۔ شہروں میں کوتوال کا منصب انتہائی طاقتور تھا۔ مقامی امن کو برقرار رکھنا اس کی بنیادی ذمے داری تھی۔ ہمارے موجودہ نظام میں اتنا با اختیار عہدہ موجود نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ کام "فوجدار" کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ نظام اس وقت کے تقاضوں سے چوری، ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم کو روکنے کے لیے بہت موثر تھا۔ نظام عدل میں مرکزی سطح پر قاضی القضات کا عہدہ موجود تھا۔ صوبائی دارالحکومت میں قاضی موجود تھے۔ یہ ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے لوگوں کے مقدمات سنتے تھے۔ مفتی صاحبان اسلامی قوانین کو قاضی کی عدالت میں بیان کرتے تھے اور عدالت کو مقدموں کا فیصلہ کرنے میں مدد گار ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے مقدمات کے لیے اسلامی قوانین کا نفاذ تھا جسکا ماخذ قرآن اور سیرت طیبہؐ تھی۔ قاضی کو بے پناہ اختیار دیے گئے تھے مگر ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔

وہ کسی سے تحفہ وصول نہیں کر سکتے تھے۔ وہ سماجی تقریبات میں شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ گائوں کی سطح پر پنچائیت کا نظام موجود تھا۔ تمام مقامی مسائل مقامی سرپنچ کی موجودگی میں حل کیے جاتے تھے۔ بادشاہ کا اختیار صرف یہ تھا کہ وہ کسی بھی قاضی یا منصف کی دی گئی سزائے موت کو رد کر سکتا تھا۔ اکثر حالات میں ان کے فیصلوں کی توثیق ہوتی تھی۔ مگر بادشاہ کے پاس کسی بھی مقدمہ کو سائل کی موجودگی میں سماعت کا اختیار بھی موجود تھا۔ یہ حق اس وقت برطانیہ کے شہریوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ ان کا بادشاہ حاکم کُل تھا اور وہ کسی کا بھی پابند نہیں تھا۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ برطانیہ میں بادشاہوں کو انصاف کا پابند بنانے کے لیے باقاعدہ جنگیں ہوئیں ہیں۔ ہمارے مقامی نظام میں ہر حالت میں ممکن بنایا جاتا تھا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہ ہو۔ اکثر حالات میں سزا بھی لوگوں کے سامنے دی جاتی تھی تا کہ جرم کرنے کا رجحان خوف کی وجہ سے کم ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ نظام ہر سقم سے مُبرّا تھا مگر اس زمانے کے معروضی حالات اور تناظر میں دیکھا جائے تو یہ رعایا کو انصاف فراہم کرنے میں کافی حد تک کامیاب تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہت تیزی اور مہارت سے برصغیر پاک و ہند کو اپنے تسلط میں کیا۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانیہ نے ہمارے مقامی نظام انصاف کو 1857 میں ختم کیا۔ اس تاثر کے بالکل برعکس 1624 میں ہی کمپنی کو برطانوی بادشاہ نے اختیار دے رکھا تھا کہ وہ اپنے علاقوں میں عدالتی فیصلے کر سکتی ہے۔ انگریزوں کا مقصد برصغیر کے لوگوں کو انصاف دینا ہرگز ہرگز نہیں تھا۔ ان کے نزدیک یہ عنصر بالکل اہم بھی نہیں تھا۔ ان کا بنیادی مقصد برصغیر سے بھر پور معاشی فائدہ اٹھانا بلکہ خوفناک لوٹ مار کرنا تھا۔ دوسرا ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاج برطانیہ کی حکومت نے ہر قیمت پر ثابت کرنا تھا کہ ہمارے خطہ کا نظام انصاف فرسودہ اور بے کار ہے اور اُس کو ہر قیمت پر ختم ہونا چاہیے۔ انھوں نے حکومت مسلمانوں سے حاصل کی تھی لہٰذا وہ ان کی کسی خوبصورت روایت اور دینی رجحان پر مبنی نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ نفرت کا عنصر انتہائی غور طلب ہے۔ اسی نفرت کی بنیاد پر ہمارے روایتی نظام انصاف کو تحلیل کیا گیا۔ ہماری عدالتی اور سرکاری زبان بھی تبدیل کر دی گئی۔ فارسی کی جگہ انگریزی زبان نے لے لی۔ ہمارا نظام اپنی اہلیت اور سنجیدگی کے باوجود کوڑے دان کی زینت بنا دیا گیا۔ اگر انگریز کی نیت مقامی لوگوں کو صرف انصاف دینا ہوتی تو وہ صدیوں سے منظم نظام کی خامیوں کو ٹھیک کرنے کی استطاعت رکھتا تھا۔ لیکن قصداً ایسا نہیں کیا گیا۔ ہمارے قاضی اور مفتی جو ہمارے نظام میں بہت احترام کے حامل تھے، انکو بد نیتی سے کام لیتے ہوئے نشان عبرت بنا دیا گیا۔

سول کورٹس، سیشن کورٹس، ہائی کورٹس اور پریوی کو نسل کا نظام بنایا گیا۔ پنچائیت کے لوکل نظام کو بھی بہت حد تک متروک کر دیا گیا۔ یہ تمام نظام نہ صرف برصغیر کے لیے خوفناک حد تک نیا تھا بلکہ یہ ہمارے معاشرتی اقدار اور مذہبی روایات سے بھی بہت دور تھا۔ 1834میں ایک لاء کمیشن ترتیب دیا گیا۔ لارڈ میکالے اس کمیشن کا حصہ تھا۔ پینل کوڈ اس نے ہی بنایا اور لکھا تھا۔ اس کے بعد کریمینل پروسیجر کوڈ اور سول پروسیجر کوڈ بھی لکھے گئے۔ یہ ان تمام قوانین اور ضوابطہ کو لکھتے ہوئے برصغیر کے معروضی حالات کو قطعاً ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ہماری شاندار روایات سے کچھ سیکھنے کے بجائے ان کو شدید حقارت سے رد کر دیا گیا۔ یہ تمام قوانین آج بھی بہت معمولی رد و بدل کے بعد پاکستان میں رائج ہیں۔ ان تمام قوانین کو ترتیب دیتے وقت، مقصد انصاف کی فراہمی کے بجائے لوگوں کو جبر اور ظلم کے زور پر غلام رکھنا تھا۔ انتہائی توجہ طلب بات یہ ہے کہ جو قوانین برصغیر میں رائج کیے گئے، وہ برطانوی حکومت نے برطانیہ میں اپنے شہریوں پر قطعاً لاگو نہیں کیے۔ ہماری پولیس، جیل اور آج کی عدلیہ اسی قانون کے تحت بنائی گئی جو لارڈ میکالے نے لکھا اور بنایا تھا۔

میکالے نے یہ قوانین لکھتے ہوئے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا،"ہم برصغیر کو ایک آزاد نظام نہیں دے سکتے مگر ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو ایک بہتر نظام دے سکیں"۔ ہم سب کچھ جانتے ہوئے آج بھی غلام ہیں۔ یہ طوق اب ہماری پہچان ہے اور ہمیں اس پر فخر نہیں بلکہ غرور ہے۔ ہم تخلیق اور تبدیلی کی قوت سے نا آشنا ہیں۔ ہم ظلم کی بوسیدہ کشتی کو غلامی کے پتوار سے چلا کر جرم کے سمندر کو عبور کرنا چاہتے ہیں اور پھر ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اس کشتی کا نام رُول آف لاء تسلیم کریں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں