تھر جیسے واقعات کے اسباب

ملک کی مقتدر اشرافیہ اس اہلیت و صلاحیت سے عاری ہے، جو مختلف نوعیت کی آفات اور مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار ہوتی ہیں


Muqtida Mansoor March 16, 2014
[email protected]

مجھے وطنِ عزیز میں کسی قدرتی آفت یا کسی بڑے سانحے سے ہونیوالے جانی و مالی نقصان پر کسی قسم کی حیرت اس لیے نہیں ہوتی، کیونکہ ملک کی مقتدر اشرافیہ اس اہلیت و صلاحیت سے عاری ہے، جو مختلف نوعیت کی آفات اور مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ معاملہ صرف تھر کے صحرائی علاقہ میں قحط سالی سے ہونے والی ہلاکتوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ ملک کو درپیش دیگر مختلف مسائل کا مشاہدہ کیا جائے، تو ان مسائل کے حل میں بھی حکمران اشرافیہ کی بے بصیرتی، بے عملی اور نااہلی کے ان گنت شواہد و مظاہر سامنے آتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جو قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچر کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہو، وہاں گورننس کے جدید اصولوں کے مطابق حکمرانی کی توقع کرنا خیال خام ہے۔ کیونکہ ایسے معاشروں میں ریاستی اداروں کے بجائے شخصیت اور قانون پسندی کی جگہ قانون شکنی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جب کہ میرٹ، شفافیت اور احتساب جیسے اصولوں سے محض اس لیے صرفِ نظر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان پر عملد رآمد کے نتیجے میں اختیارات کی مرکزیت ختم ہوتی ہے۔

تھر میں رونماء ہونے والا حالیہ سانحہ ہو یا2010میں آنے والا بدترین سیلاب ہو یا پھر2005 میں آنے والا قیامت خیز زلزلہ۔ تجربات نے ثابت کیا ہے کہ ہماری حکومتیں آفات سے نمٹنے کی انتظامی صلاحیت(Disaster Management) سے قطعی طور پر بے بہرہ ہیں۔Disaster Management دراصل حکمرانی (Governance) ہی کا ایک شعبہ ہے، جس میں رہ جانے والی خامیاں دراصل حکمرانی میں پائی جانے والی خامیوں اور کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ اب تک کے ناکام تجربات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری سیاسی اور غیر سیاسی حکومتیں گورننس میں مکمل طور پر نااہل رہی ہیں۔ حالانکہ انگریز نے جاتے ہوئے ہمیں مختلف قوانین کے سیٹ تفویض کرنے کے علاوہ مختلف شعبہ جات کی گورننس کے قواعد و ضوابط بھی سکھائے تھے۔ مگر حکمران اشرافیہ جو یا تو موروثیت یا پھر بندوق کی نال پر حکمرانی کرنے کی عادی رہی ہے، قانونی موشگافیوں اور انتظامی باریکیوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی پیچیدہ صورتحال پیدا ہوتی ہے، تو انتظامی ڈھانچے میں موجود کمزوریاں، کوتاہیاں اور خرابیاں واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہیں۔

انگریز حکمرانی کے فن سے بخوبی آگاہ تھے۔ یہی سبب ہے کہ سندھ جتنا رقبہ اور آبادی رکھنے والے ملک نے صرف برصغیر ہی پر حکمرانی نہیں کی بلکہ دنیا کے ہر خطے میں کئی ایک ممالک اس کی نوآبادیات تھے۔ ہندوستان آمد کے فوراً بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور ہی سے انگریزوں نے برصغیر کے مختلف علاقوں کے بارے میں گہرے مطالعہ اور مشاہدے کا آغاز کر دیا تھا۔1957 کے بعد انھوں نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں ہر علاقے کی جغرافیائی کیفیت اور سماجی ضروریات کے مطابق بعض انتہائی اہم، دور رس اور مربوط فیصلے کیے تھے۔ یہی سبب ہے کہ تھر کا علاقہ جو متحدہ ہندوستان میں سندھ کے تین جنوبی اضلاع سے راجھستان اور گجرات کے کچھ علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بارے میں 1890 میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر کسی سال15 اگست تک بارش نہ ہو تو کلکٹر (ڈپٹی کمشنر) کی رپورٹ پر صوبائی حکومت یکم ستمبر سے اس علاقہ کو آفت زدہ قرار دے کر ہنگامی بنیادوں پر پانی اور غذائی اجناس سمیت دیگر اشیائے ضرورت مہیا کرنے کا حکمنامہ جاری کرے گی۔ اس حکمنامے پر قیامِ پاکستان کے بعد بھی کسی نہ کسی طور عمل ہوتا رہا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور سے اس حکم نامہ کو طاقِ نسیاں کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے اس علاقے میں ہر چند برس بعد اس نوعیت کے مسائل زیادہ شد و مد سے سامنے آنا شروع ہو گئے۔

برطانوی دور میں ضلع کے کلکٹر (ڈپٹی کمشنر) کا عہدہ بے انتہائی اختیارات کا حامل ہوا کرتا تھا۔ بیک وقت تین ذمے داریوں کے ساتھ وہ ضلع کا مکمل منتظم ہوا کرتا تھا۔ اسے تین ذمے داریاں نبھانا ہوتی تھیں۔ اول، وہ ضلع کا انتظامی سربراہ ہوتا تھا۔ دوئم، وہ ریونیو کلکٹر ہوتا تھا اور سوئم، وہ ضلع کی فوجداری عدالت کا ضلعی مجسٹریٹ بھی ہوا کرتا تھا۔ اس طرح ضلع کے تمام معاملات اس کی صوابدیدی اختیار میں ہوا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ اختیارات کسی حد تک برقرار رہے۔ لیکن یہ نوآبادیاتی بندوبست تھا۔ آزادی کے بعد اس میں تبدیلی ضروری تھی۔ عوامی دبائو پر عدلیہ کو جب انتظامیہ سے الگ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، تو ضلعی انتظامی ڈھانچہ میں مناسب تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ شہروں کی آبادی اور شہری مسائل میں اضافہ کے بعد بھی انتظامی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی لانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ یوں ایک طرف ضلع اپنے گونا گوں مسائل کی وجہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا، جب کہ انتظامی طور پر کوئی متبادل نظام نہ ہونے کی وجہ سے مختلف نوعیت کی انتظامی کمزوریوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ مگر ابھی تک ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔

دنیا بھر میں اس وقت شراکتی جمہوریت کے فروغ کا دور ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اقتدار و اختیار کو جس قدر ممکن ہو، معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقل کیا جائے اور اس سطح پر عوام کو ان کے منتخب نمایندوں کے ذریعہ ترقیاتی منصوبہ میں شریک کیا جائے اور فیصلہ سازی میں بااختیار بنایا جائے لیکن پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنے فیوڈل اور قبائلیMindset کی وجہ سے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں حالانکہ 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں جب بعض اہم ریاستی امور کے صوبوں کو اختیارات منتقل ہوئے، تو یہ امید پیدا ہوئی کہ صوبے ضلع کی سطح کے شعبہ جات کی مزید Devolution کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ جس کی وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ مقامی حکومتی نظام کی مدت2009 میں اصولی طور پر ختم ہوگئی تھی، جسے ایک سال کی توسیع کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود 5 برس گزر جانے کے باوجود ایک تو کوئی متوازن اور یکساں مقامی حکومتی نظام تیار نہیں ہو سکا۔ دوسرے جو آڑا ترچھا نظام ہر صوبے نے اپنے طور پر تیار کیا ہے، اس کے تحت بھی انتخابات کرانے میں بھی پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔

ضلع اور اس سے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے جو صرفِ نظر کیا جا رہا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول، پاکستان کی سیاسی جماعتیں جن میں موروثیت اور مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے، کسی بھی طور سیاسی عمل کے پھیلائو کے حق میں نہیں۔ کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ اس طرح عام آدمی سیاسی عمل کا حصہ بن کر ان کی سیاسی اجارہ داری کے لیے کسی بھی وقت چیلنج بن سکتا ہے۔ دوئم، جنرل ضیاء کے دور سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوت دینے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، وہ ہنوز جاری ہے۔ مقامی حکومتی نظام کے قائم ہونے کے بعد یہ فنڈ اصولی طور پر مقامی حکومتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ اس فنڈ کی وجہ سے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو جو اثر و رسوخ اور شان و شوکت حاصل ہے، وہ ختم ہو جائے گی اور وہ محض قانون ساز بن کر رہ جائیں گے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے وہ راہنماء جو اسمبلیوں میں پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں، مقامی حکومتی نظام کے سب سے بڑے مخالفت ہیں۔

سندھ کے حوالے سے مقامی حکومتی نظام کے بارے میں سول سوسائٹی ایک اعتراض یہ اٹھاتی ہے کہ اس نظام کی وجہ سے سندھ میں جاگیرداری نظام مزید مضبوط ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض مخصوص حالات میں یہ اعتراض درست ہو۔ لیکن اس اعتراض کی بنیاد پر اقتدار و اختیار کی مرکزیت کے تسلسل کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بہتر یہ ہو گا کہ ایک ایسا نظام ترتیب دیا جائے، جس میں جاگیرداروں کے قبضے کی گنجائش کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے متناسب نمایندگی کا طریقہِ کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس نظام میں ووٹ شخصیات کے بجائے جماعتوں کو ملتے ہیں۔ یوں جماعتیں صحیح اور اہل افراد کو ایوانوں میں پہنچانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ بلکہ ہماری تو یہ بھی تجویز ہے کہ جب تک پاکستان میں خواندگی کی شرح مناسب سطح تک نہیں پہنچ جاتی اور عوام کی اکثریت قبائلیت، برادری اور جاگیردارانہ کلچر کے تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتی، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے بھی متناسب نمایندگی کے طریقہ کار کو رائج کیا جائے۔

ابھی تھر میں قحط سالی کے معاملات میں الجھے ہوئے تھے کہ مظفر گڑھ سے خبر آئی کہ زیادتی کا شکار ہونے والی طالبہ نے خود کشی کر لی۔ یہ بھی کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں، جب انصاف نہ ملنے پر متاثرہ افراد انتہائی اقدام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات بھی گورننس میں پائی جانے والی خرابیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ گورننس کے پورے ڈھانچہ کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور اقتدار و اختیار کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا، کیونکہ بیوروکریسی سے اچھے انتظام کی توقع عبث ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول بیوروکریسی کا معیار بھی اب وہ نہیں رہا ہے، جس کی بنیاد انگریز نے رکھی تھی۔ یہ نظام اپنے سلیکشن اور تقرریوں کے طریقہ کار کے باعث ایک سنگین مذاق بن چکا ہے۔ اس لیے اقتدار و اختیار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے اور سول سروس کو اس کی اصل روح (Spirit) کے مطابق ڈھالنے کے علاوہ کوئی اور صورت نظر نہیں آتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں