قدامت پسندوں کے ٹارگٹ

تھر پارکر کی قحط سالی نے اور کچھ کیا یا نہیں کیا طالبان کے ساتھ معاملے کو وقتی طور پر پس منظر میں دھکیل دیا

تھر پارکر کی قحط سالی نے اور کچھ کیا یا نہیں کیا طالبان کے ساتھ معاملے کو وقتی طور پر پس منظر میں دھکیل دیا کہ عوام کی ساری توجہ بھوک اور بیماری کے ہاتھوں مرتے ہوئے بچوں پر مرکوز ہو گئی۔ میڈیا نے بھی اس سانحہ کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے بھر پور کوشش کی۔ اس طرح سے ایک تیر میں کئی شکار کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔ طرفہ تماشا دیکھیں کہ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سندھ سے استعفیٰ مانگنے والے حال ہی میں اسلام آباد کچہری میں ہونیوالے سانحے کے ذمے دار سے استعفیٰ مانگنے کے روادار نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں اپنی نااہلی پر استعفیٰ دینے کی روایت نہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں پچھلے چند سالوں میں ایسے کئی سانحات ہو چکے ہیں جس میں ہزاروں افراد حکومتی نااہلی سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ان کو سزا دینا تو درکنار الٹا انھیں کچھ عرصے بعد زیادہ بہتر عہدوں سے نوازا گیا۔

اگر ماضی میں ایسی کوئی مثال قائم ہو جاتی تو آج اس کی پیروی کی جا سکتی تھی۔ پنجاب کے دریا بیچ دیے گئے، کسی کی آنکھ سے آنسو بھی نہ ٹپکا۔ پاکستان ٹوٹ گیا لیکن جو اس کے اصل ذمے دار تھے ان کو کسی نے ہاتھ بھی نہ لگایا بلکہ قومی پرچم میں لپیٹ کر سلامی دی گئی۔ یہ تو انتہائی سنگین واقعات ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس سے کم درجے کے افسوسناک سیکڑوں واقعات نظر آئیں گے۔ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں دہرے معیار ہیں۔ منافقت اپنے عروج پر ہے۔ جب کوئی ''اپنا'' گناہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کو قالین کے نیچے چھپا دیا جاتا ہے اور جب کوئی ''غیر'' غلطی کرتا ہے تو انھیں اسلامی تاریخ بھی یاد آ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ انصاف کا ترازو تھامتے ہوئے اصول و قانون کی وہ دہائی دیتے ہیںکہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سندھ میں اس وقت دو ہی طاقتیں ہیں جو جیسی کیسی بھی ہیں ،شدت پسندوں کے مقابلے پر کھڑی ہیں۔ اگر وہ کسی بحران کا شکار ہوتی ہیں تو شدت پسندوں اور ان کے حمایتوں کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ دلی خواہش تو ان کی یہی ہے کہ جو مزاحمت سندھ سے ہو رہی ہے وہ خاموش ہو جائے حالانکہ دونوں پارٹیوں کا مؤقف شدت پسندی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے دل کی آواز ہے۔ اگر یہ آواز بھی خاموش ہو جاتی ہے تو پورے ملک پر شدت پسندوں اور ان کے ہمدردوں کا قبضہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں ہر طرف قبرستان کی سی خاموشی طاری ہو جائے گی۔ عوام کی سوچوں پر پہرہ بٹھانا اور زبان بندی کا مشاہدہ پاکستان کی تاریخ میں ہم کئی بار کر چکے ہیں۔ اس دفعہ انتہا پسند اور ان کے ہمدرد ایک انوکھے خطرناک انداز سے عوام کی سوچ پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ شدت پسندی کامقابلہ اپنی تہذیبی و ثقافتی روایات کو زندہ کر کے کیا جا سکتا ہے لیکن ایک منظم سازش کے تحت ان روایات کو دیس نکالا دیا جا رہا ہے۔ ہمارے عظیم صوفیائے کرام خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور امیر خسرو نے بسنت منائی لیکن آج اس پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے۔ بسنت ایک موسمی تہوار ہے۔

یہ ثقافتی روایات ہی ہیں جو انسان میں برداشت، رواداری اور انسانیت پیدا کرتی ہیں۔ ورنہ دوسری صورت میں یہی انسان خودکش بمبار بن جاتاہے۔ دنیا مریخ پر پہنچ گئی ہے لیکن ہم ایک دھاتی دوڑ کا خاتمہ نہیںکر سکے ۔ دھاتی ڈور قدامت پسندوں کے ہاتھ ہتھیار بن گئی ہے۔ نہ دھاتی ڈور ختم ہونے دی جائے گی نہ بسنت منائی جا سکے گی۔ مجھے تو یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش لگتی ہے۔ آپ بھی اس نکتے پر غور فرمائیں! وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کے اس اعلان سے کہ اس دفعہ بسنت پر پابندی اٹھالی جائے گی، عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن پھر اس اعلان کو واپس لے لیا گیا۔ کیا حکومت پھر ڈر گئی۔ بسنت پر دھاتی ڈور کا استعمال اور فائرنگ، اچھی گورنس کے ذریعے اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک مضبوط و مستحکم ارادے کی ضروت ہے۔ اب تو شادی بیاہ پر غیر قانونی فائرنگ ایک معمول بن گئی ہے جس میں دلہا دلہن ان کے عزیز و اقارب سمیت دیگر افراد اندھی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں، تو اب شادی پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیوں کہ جانی اتلاف ہوتا ہے۔

جانی اتلاف سڑکوں ٹرینوں اور ہوائی جہاز حادثات میں بھی ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر طرح نقل و حرکت بند کر کے گھر بیٹھ جایا جائے، بجائے اس کے نظام کی خامیوں، خرابیوں کو دور کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں پر بھر پور توجہ دے کر ایک صحت مند قدم اٹھایا ہے۔ اسی طرح بلاول بھٹو زرداری کا سندھ فیسٹیول کا انعقاد قابل تحسین ہے۔ ان پر تنقید کرنے والے نہیں جانتے کہ وہ نادانستگی میں رجعت پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ تیس سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اس ملک میں ثقافتی سماجی سمیت ہر طرح کی سرگرمی کو کچلنے کی بھر پور سازش کی گئی۔ صرف ایک ہی راستہ کھلا رکھا ہے۔ جنونیت اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے کا راستہ، جس پر چل کر ہم اجتماعی خودکشی کے راستے پر گامزن ہو گئے ہیں۔


ہاں تو بات تھر کی ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف تھر پہنچے تو بلاول بھٹو زرداری بھی ساتھ تھے۔ ان لوگوں پر تو یہ بات بجلی بن کر گری جو اس بہانے ان دونوں قوتوں کے درمیان محاذ آرائی کے متمنی تھے لیکن یہ محاذ آرائی اب دکھائی نہیں دے رہی جس کے نشے کے یہ کئی دہائیوں سے عادی رہے ہیں۔ نواز شریف بھی تھرکول پاور انرجی کے افتتاح کے موقع پر کہہ چکے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا اتحاد کچھ قوتوں کو برا لگے لیکن اب ہم ماضی دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس محاذ آرائی کی وجہ سے ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ غربت و پس ماندگی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔

اب تو تھر کے حوالے سے بہت سے حقائق سامنے آ گئے ہیں۔ تھر برصغیر کا عظیم صحرا ہے جس میں تھر، چولستان کے علاوہ انڈیا کا راجستھان بھی شامل ہے۔ جو حال تھر کا ہے بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس سے ملتا جلتا چولستان صحرا کا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بیورو کریسی نے حکومت کو بے خبر رکھا ہوا ہے۔ ہماری بیوروکریسی بڑی فنکار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے انھیں نکیل ڈالی ہوئی ہے لیکن ابھی بہت کچھ درست ہونا باقی ہے۔

اس عظیم صحرا کا وہ حصہ جو انڈیا کا راجھستان کہلاتا ہے اس میں خاصی ترقی ہوئی ہے جب کہ سندھ تھر کے حالات تباہ کن ہیں۔ شاید اس کی وجہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ہے جو انسانوں کو انسان ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ مذہب کے نام پر تفریق کرتا ہے۔ تھر میں آباد لوگوں کی ایک بڑی تعداد اچھوت ہندوئوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ہندو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہیں۔ ایک اچھے مسلمان کا شیوہ نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر انسانوں میں تفریق کرے۔

ہمارے ہاں ماشاء اللہ سے سارا سال حقوق اللہ کابہت پرچار رہتا ہے لیکن اگر حقوق العباد بھی اسی پیمانے پر ادا ہو جائیں تو تھر اور چولستان میں موجود اللہ کی مخلوق کی قسمت بدل جائے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا مصلحت اور منافقت کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسی طرح چولستان کے مسائل اجاگر کرے گا جس طرح اس نے تھر میں ہونے والی تباہ کاریوں سے قوم کو آگاہ کیا۔ اس طرح تھر اور چولستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسے کاموں کا آغاز کر سکیںگی جس کے نتیجے میں ان کو خشک سالی میں پانی اور بھوک میں خوراک مل سکے۔

٭...لاپتہ ملائیشین طیارے کے حوالے سے فوری طور پر اہم تاریخیں 19-18-16 تا 21 مارچ ہیں۔

سیل فون:۔ 0346-4527997
Load Next Story