چالاک سیاست دان اور چالاک کالم نگار
آج کل کے سیاست دان بڑے چالاک ہوگئے ہیں۔ کوئی بھی پروگرام ہو، وہ اپنی تقریر میں اپنی بات کہہ ہی جاتے ہیں
آج کل کے سیاست دان بڑے چالاک ہوگئے ہیں۔ کوئی بھی پروگرام ہو، وہ اپنی تقریر میں اپنی بات کہہ ہی جاتے ہیں۔ گھما پھرا کر اپنی پارٹی کا پروپیگنڈا کر ہی دیتے ہیں۔ چاہے کوئی مذاکرہ ہو یا مباحثہ، کوئی سیمینار ہو یا ورکشاپ۔ اٹھارویں ترمیم سے متعلق ایک فورم پر نثار کھوڑو مہمان خصوصی تھے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کی تعریف کرنے اور اپنی قیادت کو اچھا ظاہر کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ سوالات بڑے جارحانہ تھے۔ اچھے مقرر اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکنے والے وزیر نے ''پلڈاٹ'' کی ورک شاپ میں بے رحم سوالات کے جوابات اچھے انداز میں دیے۔ صرف دو تین لوگ انٹرویو کریں تو بچت کی گنجائش ہوتی ہے، چند صحافی پیس کانفرنس میں سوالات پوچھ رہے ہوں تو ایک ہی شعبے کا ایک جیسا انداز ہوتا ہے۔ اگر ماہرین تعلیم، وکلا، ڈاکٹر، اساتذہ، افسران و بینکاروں کی جراحی ہو تو اچھے اچھوں کا بچ نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ نثار کھوڑو ان دنوں اس گھیرے میں آئے تھے جب تھر پار کر میں سو سے زائد بچوں کی المناک موت پر ان کی پارٹی شدید تنقید کی زد میں تھی۔
لنچ پر ان سے کہاکہ آپ نے کمزور پارٹی کا مقدمہ مضبوطی سے لڑا۔ وہ تعریف پر شرما سے گئے۔ پانچ منٹ بعد جب سویٹ ڈش کا دور تھا تو وہ قریب آئے اور تفصیل پوچھی کہ ابھی آپ کیا کہہ رہے تھے؟ ان سے کہاکہ پیپلزپارٹی کا دفاع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کا سوال تھا کہ وہ کیوں؟ جواب دیا کہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا دفاع کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، ان کے مسلم لیگ کے بارے میں سوال پر کہاکہ وہ بہت بڑی تبدیلی کا نعرہ نہیں لگاتے۔ یوں ایک کالم نگار نے نہایت چالاکی سے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ دائیں بازو کی جماعت اسلامی اور بائیں بازو کی ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی۔ اب ہم اس کی وجہ بتائیںگے۔ سیاست دان کی طرح کالم نگار کی ایک اور چالاکی بھی ہے۔ یہ آپ کو پورا کالم پڑھنے پر پتہ چلے گا۔ اگر قاری نے چالاکی سے کالم کا اختتامی پیرا گراف پہلے پڑھ لیا تو زیادتی ہوگی، کسی ناول یا افسانے کے آخری صفحات کو پہلے پڑھ لینا مزہ کرکرا کردیتا ہے۔ چالاکی کو دو لوگوں تک محدود ہونا چاہیے۔ سیاست دان اور کالم نگار کے علاوہ قاری نے چالاکی دکھائی تو گڑ بڑ ہوجائے گی۔ آیئے جانتے ہیں کہ پی پی، جماعت اسلامی اور متحدہ کا دفاع کرنا کیونکر مشکل ہوتا ہے؟
پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو بڑے انقلابی نعروں کو لے کر پاکستانی سیاست میں آئے تھے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی بات پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی ''ملیں لٹیروں سے لے لو، کھیت وڈیروں سے لے لو'' جیسے نعرے تھے تو جالب کے لیکن یہ منشور بھٹو کا دیا ہوا تھا۔ اقتدار ملنے کے بعد جاگیر داروں اور وڈیروں کی پارٹی میں شمولیت نے انوکھی صورت حال پیدا کردی۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کے فیصلے نے معاشی پہیہ الٹا گھمادیا۔ اس سوال کا جواب بھی جیالوں کے لیے دینا مشکل ثابت ہورہا ہے۔ تعلیمی اداروں کو قومیانے کے فیصلے کو ''ایک جیسی تعلیم سب کے لیے'' بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ بے نظیر کے دور تک پیپلزپارٹی والوں کے لیے دفاع کے یہی مقامات تھے۔ اپنی چیئر پرسن کے قاتلوں کی عدم گرفتاری اور وصیت سے پارٹی کی لیڈر شپ جیسے جوابات سے نئی صدی میں نمٹنا پڑ رہا ہے۔
اب تک جیالے اپنی حکومتوں کو وقت سے پہلے ختم ہونے کو جواز بناتے تھے۔ وہ کام نہ ہوسکنے کا سبب غیر آئینی اور غیر ضروری سازشوں کو قرار دیتے۔ اب حکومتوں کی تکمیل نے ان کی کمان سے ایک دفاعی تیر کم کردیا ہے۔ کرپشن کے الزامات اور گورننس کی کمی کا الزام، پیپلزپارٹی کے پہلے دور میں نہ تھا۔ یوں جیالوں کو درجن بھر الزامات کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے جن میں سے ایک بلاول بھٹو کی کم عمری میں پارٹی کی قیادت کرنا بھی شامل ہے۔ PILDAT کی ورک شاپ میں لنچ پر نثار کھوڑو سے یہ بات کہی تھی کہ پیپلزپارٹی کا دفاع کرنا مشکل ہے اور انھوں نے کمزور مقدمے کی مضبوطی سے پیروی کی۔ آیئے دیکھیں کہ کمزور پچ پر جماعت کے کھلاڑی کس طرح طوفانی گیندوں کا سامنا کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے برصغیر میں پہلی مرتبہ اسلامی حکومت بذریعہ انتخابات کا نعرہ لگایا۔ ان پر قیام پاکستان کی مخالفت کے الزام کو سہتے سہتے جماعت نصف صدی سے زیادہ وقت گزار چکی ہے۔ کسی مسلک سے وابستہ نہ ہونے اور فرقہ واریت پر تنقید نے جماعت کو تنقید کی زد میں کردیا۔ ایوب کی مخالفت اور فاطمہ جناح کی حمایت کے باوجود جوابات دینا پڑتے ہیں۔ ضیاء الحق کی حکومت میں قومی اتحاد کے ساتھ وزارتیں قبول کرنے کا الزام جماعت کے اکابرین کو دینا ہوتا ہے۔ جنرل مشرف کی سترھویں ترمیم کو قبول کرنے والے اکیسویں صدی کے الزام کے دفاع کی ذمے داری صالحین کو نبھانی پڑتی ہے۔ کمیونٹیوں سے 60 اور 70 کے عشرے میں دلیل کے اسلحے اور 80 کی دہائی میں اسلحے کی دلیل کا دفاع تاریخ کا حصہ ہے۔ جماعت پر لبرل و سیکولر طبقے کی تنقید بڑی جارحانہ ہوتی ہے۔ ہر مقام پر تھوڑے تھوڑے ووٹ بینک کی بدولت ہر کوئی جماعت کے مقابل ہوتا ہے۔ سیاسی و مذہبی کے علاوہ سماجی این جی اوز بھی جماعت کو اپنا حریف قرار دے کر سامنے آجاتی ہیں۔ یوں جماعت کا دفاع کرنا تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف قرار پاتا ہے۔
ایم کیو ایم کا دفاع کرنا ان کی قیادت کے لیے دل گردے کا کام ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ سے ابتدا نے کراچی و حیدرآباد کے پٹھانوں اور پنجابیوں کے دل میں خوف پیدا کردیا۔ سندھ کے شہری علاقوں سے مہاجر کے نام پر ابھرنے والی قوت کو اندرون سندھ کے رہنے والوں نے خطرے کا سگنل قرار دیا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کی سیاسی قیادت کو پیچھے دھکیلنے پر مذہبی پارٹیوں نے ایم کیو ایم پر ''دوربین'' نصب کرکے تنقید کی۔ قوم پرست سندھیوں سے حیدرآباد میں ٹکرائو پر کوئی اچھا تاثر نہ لیا گیا۔ بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کے الزام کا دفاع کرنا ایم کیو ایم کی قیادت کے لیے آسان نہ تھا۔ مہاجر سے متحدہ بننے پر آفاق و عامر کی جانب سے تنقید کا جواب بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔ قائد تحریک الطاف حسین کی لندن جلاوطنی اور برطانیہ کی شہریت پر بھی متحدہ کی قیادت ربع صدی سے جواب دے رہی ہے، ضیاء الحق کی سرپرستی اور مشرف کا ساتھ دینے کا الزام چار عشروں سے لگایا جا رہا ہے۔ بھارت میں تقریر اور صحافیوں کو دھمکیوں کے الزامات پر بھی متحدہ کے لیڈر عمدگی سے جوابات دیتے رہے ہیں، لیڈروں کا پارٹی چھوڑ کر بیرون ملک چلے جانا وہ نیا سوال ہے جس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ یوں درجنوں سوالات جن کا دفاع متحدہ کی قیادت چابکدستی سے کررہی ہے۔
یہ تین پارٹیاں ہیں جن کا دفاع کرنا مشکل ہے لیکن پڑھے لکھے تجربہ کار اور سمجھ دار لیڈر ایسا کررہے ہیں، یہ بات تھی جو نثار کھوڑو سے کہی تھی۔ ابتدا ہوئی تھی سیاست دانوں کی چالاکی سے کہ وہ ہر فورم پر اپنی پارٹی کا پیغام پہنچا دیتے ہیں۔ اگر کسی مذہبی و سیاسی رہنما کو صرف دعا کے لیے کہا جائے تب بھی وہ دعائیہ انداز میں اﷲ تعالیٰ سے اپنی پارٹی کی کامیابی کی التجا کرتا ہے۔ سیاست دانوں کے علاوہ کالم نگاروں کی یہ چالاکی ہے کہ اس نے تین پارٹیوں کی خوبیوں کے انداز میں ان کی خامیاں گنوا دیں۔ کڑوی دوا کو کیپسول میں ڈال کر پلادیا ہے، قارئین سے میں نے آخری پیراگراف پہلے نہ پڑھ کر چالاکی نہ کرنے کی گزارش کی تھی۔ یہ ذہانت صرف دو لوگوں تک محدود رہنی چاہیے۔ ہمیں غور سے دیکھنا چاہیے کہ کیا کرتے ہیں چالاک سیاست دان اور چالاک کالم نگار۔