بلاول بھٹو کا مجوزہ دورہ پنجاب
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ماہ رواں میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دورہ کرنے والے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ماہ رواں میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ملک بھر کے مبصرین، تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت بلاول بھٹو کے مجوزہ دورہ پنجاب کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ دراصل 2013 کے عام انتخابات میں پی پی پی کو پنجاب میں غیر متوقع طور پر بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا۔ پی پی پی کی قیادت، رہنماؤں اور کارکنوں کو پنجاب میں پارٹی کی شکست نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت صدر آصف علی زرداری نے سیاسی بصیرت، دانش مندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنانے کی خاطر شکست کا کڑوا گھونٹ بڑے صبر و تحمل سے پیتے ہوئے انتخابی نتائج کو قبول کرلیا تاہم پارٹی کے اندر اس غیر متوقع شکست کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا جاتا رہا ہے اور پنجاب میں پی پی پی کے ووٹ بینک کو دوبارہ منظم و متحد کرنے کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق پنجاب میں پی پی پی جیسی مقبول سیاسی جماعت کی شکست کی سب سے بڑی وجہ عسکریت پسندوں کی جانب سے پی پی پی کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے اور اس کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی مبینہ دھمکیاں تھیں جس کے باعث پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پورے ملک بالخصوص پنجاب میں منظم اور موثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے کے مواقعے نہ مل سکے، کیونکہ پارٹی قیادت کے نزدیک رہنماؤں، کارکنوں اور عوام کی زندگیاں سب سے قیمتی ہیں، اسی باعث پنجاب میں بڑے انتخابی جلسے اور جلوسوں سے گریز کیا گیا۔ شکست کی دوسری اہم وجہ پی پی پی کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی سمجھا جانا ہے۔ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو اور اب آصف علی زرداری تک پی پی پی کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالف جماعت قرار دیا جاتا رہا ہے اور اسے اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے کے لیے غیر مرئی قوتیں اپنی خفیہ حکمت عملیوں کے تحت پی پی پی کے مضبوط انتخابی حلقوں میں ''منفی سرگرمیوں'' کے ذریعے اس کے ووٹ بینک پر ڈاکا ڈالتی رہی ہیں اور بڑے انجینئرڈ طریقے سے پارٹی کی یقینی فتح کو بھی شکست میں بدل دیا جاتا ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص پنجاب میں جہاں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ تھا، وہاں مسلم لیگ (ن) نے غیر متوقع طور پر دونوں پارٹیوں پر بھاری سبقت حاصل کی جس نے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کو بھی سوالات اٹھانے پر مجبور کردیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے پی پی پی اور پی ٹی آئی سمیت متعدد جماعتیں سراپا احتجاج ہیں، ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی جانب سے قومی اسمبلی کی 266 نشستوں کے انتخابی نتائج کے حوالے سے جو تازہ رپورٹ شایع ہوئی ہے وہ ملک میں الیکشن کا انعقاد کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ نہایت انجینئرڈ طریقے سے دھاندلیاں کرکے پی پی پی کو دیوار سے لگا دیا گیا۔
بلاول بھٹو زرداری کے لیے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا، ناراض و دلبرداشتہ مخلص کارکنوں و ہمدردوں اور عوام کو پھر سے پارٹی کی طرف راغب، متحرک، منظم، فعال اور پرجوش کرنا اور بی بی شہید اور بھٹو کے سیاسی فکر و فلسفے کی روشنی میں پارٹی کو پنجاب کی پیچیدہ سیاست میں ایک ایسا باوقار اور قابل فخر مقام دلانا جو شہید قائدین کے دور میں پارٹی کو حاصل رہا یقیناً ایک بڑا اور مشکل چیلنج ہے لیکن سیاسی حلقوں میں اس امید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا اور والدہ کی طرح پیپلز پارٹی کو پنجاب میں باعزت مقام دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ وہ نوجوان اور خاصے پرجوش ہیں، وہ پارٹی رہنماؤں، کارکنوں اور عوام سے رابطے کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح باخبر ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سیاست میں متحرک ''کرداروں'' سے وہ بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور پیپلز پارٹی کی جمہوریت کے اپنے طویل جدوجہد اور قربانیوں کا انھیں پورا علم ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ سانحہ سقوط بنگال کے بعد ایوبی آمریت کے خلاف توانا آواز بلند کرنے والے ملک کے مقبول سیاستدان اور ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے کس عزم و یقین کے ساتھ خستہ حال باقی ماندہ پاکستان کی قیادت کا بارگراں اور مایوس و شکست خوردہ قوم کے اندر پھیلتی مایوسی و ناامیدی کو روشن و تابناک مستقبل سے بدلنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ بلاول بھٹو یقیناً ان اسباب و عوامل اور محرکات سے کماحقہ آگاہ ہیں جن کے باعث بھٹو مختصر عرصے میں ملک کے کروڑوں غریبوں، کسانوں، ہاریوں، طالب علموں، مزدوروں اور پسماندہ طبقات کے دلوں کی آواز بن گئے تھے۔ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں وطن عزیز کو دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنایا۔ شراب پر پابندی اور جمعے کی تعطیل کا اعلان کیا گیا اور لاہور میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ بھٹو کا سب سے اہم و یادگار کارنامہ 1973 کا متفقہ آئین تھا جس پر اس وقت کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اتفاق رائے کے بعد دستخط کیے تھے۔
بھٹو پاکستان کو دنیا میں ایک باوقار ملک کے طور پر بہت آگے لے جانا چاہتے تھے لیکن پاکستان مخالف قوتوں کو بھٹو ازم سے خطرات لاحق ہوگئے نتیجتاً 5 جولائی 77 کو انھیں نہ صرف اقتدار سے محروم کردیا گیا بلکہ عالمی دباؤ کے باعث ملک کے مقبول ترین سیاسی لیڈر کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔ بھٹو کی بیٹی اور بلاول بھٹو کی والدہ نے طویل سیاسی جدوجہد کے بعد دو مرتبہ اقتدار حاصل کیا اور ملک کو میزائل ٹیکنالوجی کا تحفہ دیا لیکن دونوں مرتبہ سازشی عناصر نے انھیں اقتدار سے بے دخل کردیا اور بالآخر 27 دسمبر 2007 کو دہشت گردی کے واقعے میں انھیں راستے سے ہٹادیا گیا۔ اب بلاول بھٹو میدان سیاست میں داخل ہوچکے ہیں۔ سندھ میں پی پی پی کو کامل عوامی حمایت اور اقتدار حاصل ہے۔ ان کا اصل امتحان پنجاب کا سیاسی قلعہ فتح کرنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا مجوزہ دورہ پنجاب اس پس منظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پنجاب میں اپنے نانا اور والدہ جیسی فتوحات سمیٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق پنجاب میں پی پی پی جیسی مقبول سیاسی جماعت کی شکست کی سب سے بڑی وجہ عسکریت پسندوں کی جانب سے پی پی پی کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے اور اس کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی مبینہ دھمکیاں تھیں جس کے باعث پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پورے ملک بالخصوص پنجاب میں منظم اور موثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے کے مواقعے نہ مل سکے، کیونکہ پارٹی قیادت کے نزدیک رہنماؤں، کارکنوں اور عوام کی زندگیاں سب سے قیمتی ہیں، اسی باعث پنجاب میں بڑے انتخابی جلسے اور جلوسوں سے گریز کیا گیا۔ شکست کی دوسری اہم وجہ پی پی پی کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی سمجھا جانا ہے۔ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو اور اب آصف علی زرداری تک پی پی پی کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالف جماعت قرار دیا جاتا رہا ہے اور اسے اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے کے لیے غیر مرئی قوتیں اپنی خفیہ حکمت عملیوں کے تحت پی پی پی کے مضبوط انتخابی حلقوں میں ''منفی سرگرمیوں'' کے ذریعے اس کے ووٹ بینک پر ڈاکا ڈالتی رہی ہیں اور بڑے انجینئرڈ طریقے سے پارٹی کی یقینی فتح کو بھی شکست میں بدل دیا جاتا ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص پنجاب میں جہاں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ تھا، وہاں مسلم لیگ (ن) نے غیر متوقع طور پر دونوں پارٹیوں پر بھاری سبقت حاصل کی جس نے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کو بھی سوالات اٹھانے پر مجبور کردیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے پی پی پی اور پی ٹی آئی سمیت متعدد جماعتیں سراپا احتجاج ہیں، ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی جانب سے قومی اسمبلی کی 266 نشستوں کے انتخابی نتائج کے حوالے سے جو تازہ رپورٹ شایع ہوئی ہے وہ ملک میں الیکشن کا انعقاد کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ نہایت انجینئرڈ طریقے سے دھاندلیاں کرکے پی پی پی کو دیوار سے لگا دیا گیا۔
بلاول بھٹو زرداری کے لیے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا، ناراض و دلبرداشتہ مخلص کارکنوں و ہمدردوں اور عوام کو پھر سے پارٹی کی طرف راغب، متحرک، منظم، فعال اور پرجوش کرنا اور بی بی شہید اور بھٹو کے سیاسی فکر و فلسفے کی روشنی میں پارٹی کو پنجاب کی پیچیدہ سیاست میں ایک ایسا باوقار اور قابل فخر مقام دلانا جو شہید قائدین کے دور میں پارٹی کو حاصل رہا یقیناً ایک بڑا اور مشکل چیلنج ہے لیکن سیاسی حلقوں میں اس امید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا اور والدہ کی طرح پیپلز پارٹی کو پنجاب میں باعزت مقام دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ وہ نوجوان اور خاصے پرجوش ہیں، وہ پارٹی رہنماؤں، کارکنوں اور عوام سے رابطے کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح باخبر ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سیاست میں متحرک ''کرداروں'' سے وہ بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور پیپلز پارٹی کی جمہوریت کے اپنے طویل جدوجہد اور قربانیوں کا انھیں پورا علم ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ سانحہ سقوط بنگال کے بعد ایوبی آمریت کے خلاف توانا آواز بلند کرنے والے ملک کے مقبول سیاستدان اور ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے کس عزم و یقین کے ساتھ خستہ حال باقی ماندہ پاکستان کی قیادت کا بارگراں اور مایوس و شکست خوردہ قوم کے اندر پھیلتی مایوسی و ناامیدی کو روشن و تابناک مستقبل سے بدلنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ بلاول بھٹو یقیناً ان اسباب و عوامل اور محرکات سے کماحقہ آگاہ ہیں جن کے باعث بھٹو مختصر عرصے میں ملک کے کروڑوں غریبوں، کسانوں، ہاریوں، طالب علموں، مزدوروں اور پسماندہ طبقات کے دلوں کی آواز بن گئے تھے۔ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں وطن عزیز کو دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنایا۔ شراب پر پابندی اور جمعے کی تعطیل کا اعلان کیا گیا اور لاہور میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ بھٹو کا سب سے اہم و یادگار کارنامہ 1973 کا متفقہ آئین تھا جس پر اس وقت کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اتفاق رائے کے بعد دستخط کیے تھے۔
بھٹو پاکستان کو دنیا میں ایک باوقار ملک کے طور پر بہت آگے لے جانا چاہتے تھے لیکن پاکستان مخالف قوتوں کو بھٹو ازم سے خطرات لاحق ہوگئے نتیجتاً 5 جولائی 77 کو انھیں نہ صرف اقتدار سے محروم کردیا گیا بلکہ عالمی دباؤ کے باعث ملک کے مقبول ترین سیاسی لیڈر کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔ بھٹو کی بیٹی اور بلاول بھٹو کی والدہ نے طویل سیاسی جدوجہد کے بعد دو مرتبہ اقتدار حاصل کیا اور ملک کو میزائل ٹیکنالوجی کا تحفہ دیا لیکن دونوں مرتبہ سازشی عناصر نے انھیں اقتدار سے بے دخل کردیا اور بالآخر 27 دسمبر 2007 کو دہشت گردی کے واقعے میں انھیں راستے سے ہٹادیا گیا۔ اب بلاول بھٹو میدان سیاست میں داخل ہوچکے ہیں۔ سندھ میں پی پی پی کو کامل عوامی حمایت اور اقتدار حاصل ہے۔ ان کا اصل امتحان پنجاب کا سیاسی قلعہ فتح کرنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا مجوزہ دورہ پنجاب اس پس منظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پنجاب میں اپنے نانا اور والدہ جیسی فتوحات سمیٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟