غیر اخلاقی حرکت…
ایک قومی اسمبلی کے رکن کو پی آئی اے کی فلائٹ سے کثرت شراب نوشی کے سبب اتار دیا گیا
یقیناً کالم کا عنوان دیکھ کر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ موصوف کچھ ایسی باتیں لکھیں گے جو غیر اخلاقی ہوں گی۔ اس لیے اس قسم کی کوشش کو پہلے ہی غیر اخلاقی حرکت قرار دے دیا ہے۔ آپ کو یقینی مایوسی ہوگی کہ کالم میں ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ہوگا جسے غیر اخلاقی کہا جاسکے۔ اب اخلاقی یا غیر اخلاقی حرکت کی گردان کے بجائے براہ راست موضوع پر آجاتا ہوں کہ آخر غیر اخلاقی حرکت سے مراد کیا ہے؟ حالانکہ یہ بھی غیر اخلاقی بات ہے کہ کسی بھی ''حرکت'' کو غیر اخلاقی کہہ کر اخلاقیات سے تجاوز کیا جائے۔
ایک قومی اسمبلی کے رکن کو پی آئی اے کی فلائٹ سے کثرت شراب نوشی کے سبب اتار دیا گیا۔ یقینی طور پر یہ رکن قومی اسمبلی کی غیر اخلاقی حرکت تھی کہ انھوں نے اتنی زیادہ شراب پی لی تھی کہ پی آئی اے کو انھیں آف لوڈ کرنا پڑا۔ ویسے تو جمشید دستی نے بھی غیر اخلاقی حرکت کی کہ پارلیمنٹ لاجز میں چرس کی بو، شراب کے بھبھکے اور مجرے دکھائی دیے اور انھوں نے میڈیا میں آکر اس ''راز'' کو طشت ازبام کردیا۔ پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑایا گیا، کوئی دل جلا ان کے اپارٹمنٹ کے باہر خالی بوتل چھوڑ گیا، تو انھوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر بڑی تعداد میں ''بوتلیں'' برآمد کر ڈالیں۔ ویسے ہمارے پاس بھی بڑے دل جلے ہیں۔ اس میں سے ایک نے کہہ دیا کہ جمشید دستی کو محفل فنکاراں میں حصہ نہیں ملا ہوگا اس لیے انھوں نے یہ غیر اخلاقی حرکت کی۔
ان غیر اخلاقی حرکات پر یاد آیا کہ دنیا میں کسی مذہب میں شراب کو حلال نہیں قرار دیا گیا، لہٰذا اس ام الخبائث کو مملکت خداداد پاکستان میں کشید کرنے اور فروخت کرکے حکومت کے خزانے میں ٹیکس کی صورت میں آنے والی بھاری رقومات کو کون سی حرکت قرار دیا جائے۔
ویسے بھی بہت کم پاکستانیوں اور دنیا کی جمہوری و غیر جمہوری مملکتوں کو یہ معلوم تھا کہ پاکستان کا آئین، اسلامی، قرآن و سنت کے مطابق ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ طالبان مذاکراتی کمیٹی نے توثیق کردی کہ پاکستان کا آئین مکمل اسلامی ہے، اب یہ ان مذہبی جماعتوں کی غیر اخلاقی حرکت ہوئی جو عوام کو بار بار سڑکوں پر لاتے ہیں کہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔ بھلا اب آئین اسلامی ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟
عتیقہ اوڈھو کے خلاف شراب برآمد ہونے کی غیر اخلاقی حرکت پر نوٹس لینے پر قوم کے علم میں آیا کہ غیر ملکی شراب کا برآمد ہونا، غیر اخلاقی حرکت تھا، جس سے پاکستان کا اسلامی آئین حرکت میں آیا۔ ویسے بھی شراب جرم نہیں بلکہ شراب پی کر غل غپاڑہ مچانا قابل تعزیر جرم ہے۔ خیر کراچی کے علاقے میں ایک مزار، جہاں پاکستان کے بانی المعروف قائداعظم محمد علی جناح دفن ہیں، اس کے باہر ایک جماعت نے مظاہرہ کیا کہ احاطہ مزار کے قرب و جوار میں غیر اخلاقی حرکتیں ناقابل برداشت ہیں۔
بابائے قوم کے مزار کے زیریں احاطے میں غیر اخلاقی حرکات کے لیے استعمال ہونے کے اسکینڈل نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ لیکن غیر اخلاقی حرکت یہ تھی کہ اس پرائیویٹ نیوز چینل نے ریٹنگ کے لیے بابائے قوم کی آڑ لے کر پوری قوم کو شرمندہ کر ڈالا، اور کسی نے ان کی اس غیر اخلاقی حرکت کی باز پرس نہیں کی، ویسے بھی پولیس اور مزار انتظامیہ کی بھی یہ غیر اخلاقی حرکت تھی لیکن۔۔۔۔۔ ان کی اس غیر اخلاقی حرکت کو سامنے لانے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ قطعاً غیر اخلاقی تھا۔ ویسے بھی ان چینلوں کے ڈراموں اور فلموں میں ایسی کوئی غیر اخلاقی حرکت ''دکھائی'' تو نہیں دی جاتی، لیکن بہرحال تھی تو غیر اخلاقی حرکت۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ غیر اخلاقی حرکت کے خلاف سابق صدر جنرل ضیا الحق مرحوم نے ایکشن لیا تو لاہور کے تمام تھانے ان خواتین سے بھر گئے جو حکومت کو ٹیکس دے کر مجرے کیا کرتی تھیں۔ بازار حسن کو تالے لگا دیے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ غیر اخلاقی حرکت کرنے والیاں محلوں محلوں پھیل گئیں۔ اب انھیں فیشن کے ریمپ پر مٹکتے و تھرکتے ہوئے غیر اخلاقی حرکت نہیں قرار دیا جاتا بلکہ ٹیلنٹ کہا جاتا ہے۔
اعتراض تو ان گرلز کالجوں و یونیورسٹیوں پر بھی غیر اخلاقی حرکت پر کیا گیا جب انھوں نے ہفتہ طلبا میں اپنے ایونٹس میں ڈانس اور میوزک پر طالبات کو ''ٹیلنٹ'' دکھانے کا بھرپور موقع دیا اور نیوز چینلوں پر طالبات نے بتایا کہ انھیں اپنے ''ٹیلنٹ'' دکھانے کا بھرپور موقع ملا ہے۔ لہٰذا ایسے ایونٹس ہفتے میں مسلسل ہونے چاہئیں۔ ان طالبات کی غیر اخلاقی حرکت کو والدین نے محسوس اس لیے نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ غیر اخلاقی حرکت نہیں تھی جب کہ والدین کی کثیر تعداد نے اس غیر اخلاقی حرکت پر احتجاج کیا اور مظاہرہ کیا۔
ویسے جاتے جاتے غیر اخلاقی حرکت کے لیے بغیر ڈاکومنٹ، مشرق وسطیٰ کی لڑکیوں کو اسلام آباد لانے کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ کس آسانی سے غیر اخلاقی حرکت کے لیے غیر اخلاقی عمل کیا جاتا ہے۔ یہ غیر اخلاقی حرکت کرنے والیاں پکڑی جاتی ہیں اور ایک شور و غوغا ہوکر معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔
غیر اخلاقی حرکت تو یہ بھی ہے کہ کسی کے ''ذاتی عمل'' کا ٹھیکیدار کیوں بن رہا ہوں تو مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا آئین ''اسلامی'' ہے۔ اب کوئی مجھے یہ سمجھائے کہ یہ کون سا اسلام ہے، جس میں شراب کشید کرنے اور فروخت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور جب ایوان میں شراب خانوں کے خلاف، اس کی فروخت کے خلاف قانون لایا جائے تو اسے نامنظور کردیا جائے اور کروڑوں روپوں میں لائسنس فروخت کیا جائے۔ یہ کون سا اسلامی آئین ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں مجرے ہوں، فلموں میں مجرے ہوں، لاکھوں تماش بین ٹکٹ لے کر وہ مجرے فلموں میں دیکھیں، پرائیویٹ مجرے ہوں تو 9 سے 12 اس کا وقت مقرر ہو، اسٹیج ہال و ڈراموں میں مہنگے ٹکٹس لے کر دیکھے جائیں، کیبل میں آن ایئر کیے جائیں اور پھر انھیں ثقافت قرار دے کر سینماؤں، چینلوں میں دکھایا جائے، لیکن اسے غیر اخلاقی نہ سمجھا جائے۔ اگر سرکاری تقریبات میں ناچ گانے ہوں تو وہ ثقافت ہے۔ کوئی کسی خوشی کی تقریب میں کرے تو علاقہ تھانہ اس کو اخلاقی قرار دے۔ مزار قائد میں ہوں تو غیر اخلاقی ہیں، فائیو اسٹار میں ہوں تو وہ اخلاقی بن جائیں۔ بھلا یہ کون سا نظام ہے۔ لگتا ہے کہ نظام ہی غیر اخلاقی ہے۔
اصل میں کام یہ نہیں کہ غیر اخلاقی حرکت کو بند کیا جائے، بلکہ اصل کام یہ ہے کہ غیر اخلاقی حرکت کا قلع قمع کرنے کے لیے آئین میں تبدیلی کی جائے۔ اگر شراب حرام اور جرم ہے تو اسے پورے ملک میں یکساں نافذ کیا جائے۔ مجرا اگر جرم ہے تو پھر فلموں، اسٹیج و ڈراموں میں بھی پابندی لگائی جائے۔ مجرا تو مجرا ہوتا ہے جس کی اساس روپیہ خرچ کرنا ہے۔
خیر یہ کالم تو کچھ زیادہ غیر اخلاقی ہوگیا ہے۔۔۔۔ کیا کریں جیسا دیس ویسا بھیس۔