قحط کی لہر اور ریاست کا جبر
اب تک قحط اور بیماری میں مرنے والے لوگوں کی تعداد سیکڑوں سے تجاوز کرچکی ہے۔
ہمارا ملک چاول برآمد کرتا ہے، لاکھوں میٹرک ٹن گندم اسٹاک میں پڑی رہتی ہے، رواں سال گندم کی خریداری کا ہدف 80 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ میں بیرون ملک سے پاکستانی محنت کشوں نے دس ارب 24 کروڑ ڈالر بھیجے۔ جس ریگستان تھرپارکر میں خشک سالی، قحط، بیماری اور بھوک سے بچوں سمیت سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں، اسی تھر پارکر میں جب برسات میں بارش ہوتی ہے تو چند دنوں میں یہاں کی زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے، مور ناچنے لگتے ہیں، ہرن دوڑتے نظر آتے ہیں اور پرندوں کی چہچہاہہٹ کی آواز ریگستان کو چمن میں تبدیل کردیتی ہے۔ یعنی کہ یہاں کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ پودے تیزی سے بڑھتے ہیں اور پھل و اناج تیز رفتاری سے تھری عوام کی خدمت میں نمودار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمراں اگر تھر میں ٹیوب ویل کا جال بچھا دیں تو ملک کے ہر حصے کے مقابلے میں زیادہ زرعی پیداوار ہو سکتی ہے۔ پھر اربوں میٹرک ٹن کوئلے کے ذخیرے بھی تو ہیں۔ اتنی دولت سے مالا مال علاقے کے قدیم ترین باسی دھرتی کے مالک، دھرتی کی پیداوار سے محروم ہو کر تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ اور اسی تھر کے جاگیردار جو کہ ان ہی کے ووٹ لے کر ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں اور وہ ان کے خون پسینے کی کمائی کی دولت کو سوئٹزرلینڈ اور انگلینڈ کے بینکوں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ یہ ہے سرمایہ داری اور اس کی محافظ ریاست۔
اب تک قحط اور بیماری میں مرنے والے لوگوں کی تعداد سیکڑوں سے تجاوز کرچکی ہے۔ تھر کے باسیوں نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ صرف منظور نظر لوگوں اور اپنی پارٹی کارکنوں کو ہی اجناس بانٹ رہے ہیں۔ اب تک سول اسپتال مٹھی میں 45 بچوں کو داخل کیا گیا۔ ایک بڑی دلچسپ اور حکمرانوں کے لیے باعث شرم بات یہ ہے کہ تھر میں جب خشک سالی ہوتی ہے تو آخر وقت تک 'بتھوا' کا ساگ شبنم کی نمی سے بڑھتا رہتا ہے۔ جب کہ گزشتہ کئی ماہ سے 'بتھوا' بھی سوکھ گیا اور بڑھوتی رک گئی۔ جب بتھوا کی نشوونما رک گئی تو حکمرانوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے تھا، اس لیے کہ خشک سالی کی وجہ سے لوگ مر سکتے ہیں اور قبل از وقت عوام کو غذا کی فراہمی کرنی چاہیے تھی۔ جب کہ حکمرانوں نے اس جانب دھیان ہی نہیں دیا۔ ایکسپریس نیوز کی نشاندہی پر مٹھی شہر میں بھی تھرپارکر انتظامیہ نے گندم کی تقسیم کا عمل شروع کیا ہے لیکن یہ عمل کسی سرکاری افسر سے کرانے کے بجائے مقامی بااثر افراد کے سپرد کیے جانے کے باعث مقامی افراد نے گندم کی جانبدارانہ تقسیم کا الزام لگایا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے دی جانے والی گندم کی تقسیم کا عمل انتہائی سست ہے اور یہ امداد بھی مٹھی اور دیگر شہروں اور مخصوص علاقوں تک ہی فراہم کی جا رہی ہے۔ دور دراز دیہی علاقے اس سرکاری عنایت سے محروم ہیں۔ اسلام کوٹ اور چھاچھرو کے متاثرین نے تو گندم نہ ملنے اور گندم کی من پسند افراد کو تقسیم کے خلاف اپنے اپنے شہروں کے پریس کلب پر مظاہرے بھی کیے اور الزام لگایا کہ دیہات میں بااثر افراد اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کو گندم دی جا رہی ہے جب کہ غریب عوام کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت میں ہر خاندان کو ایک بوری گندم دینے کو کہا تھا لیکن تقسیم کرنے والے افراد اس میں سے رشوت کے طور پر 25 فیصد گندم خود بھی رکھ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی عدم دلچسپی اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے امداد کی تقسیم کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہ بنائے جانے کے باعث امداد کا متاثرین تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ امدادی سرگرمیاں بھی مٹھی ڈیپلو، ننگرپارکر، چھاچھرو اور اسلام کوٹ کے شہری علاقوں تک ہی محدود ہیں، وہ دیہی علاقے خوراک اور طبی امداد سے اب تک محروم ہیں جس کے باعث دیہی علاقوں میں صورت حال انتہائی خراب ہوتی جا رہی ہے اور سیکڑوں بچے روزانہ مختلف امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
تھر کی موجودہ صورت حال 2010-11 کے سیلاب کا نتیجہ ہے، تھر میں جو امداد دی جا رہی ہے اس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ ثقافتی میلوں اور اس کے پروپیگنڈوں پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والے حکمران امدادی کاموں میں سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ادھر بھوک سے سیکڑوں بچے لقمہ اجل بن رہے ہیں اور ہزاروں تڑپ رہے ہیں تو دوسری جانب سندھ میں محکمہ تعلیم میں 1500 اسامیوں پر 23000 بھرتیاں کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان بھرتیوں کے لیے تین سے اٹھارہ لاکھ روپے رشوت لی گئی۔ ایک شناختی کارڈ پر 190 افراد کی بھرتی ہوئی۔ یہ رپورٹ محکمہ تعلیم سندھ کی ہے۔ محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ 2012 میں جعلی بھرتی کے 14500 ملازمین کے نام اور دیگر کوائف معلوم کیے جا چکے ہیں۔ قواعد کے خلاف کی گئی مزید 8 سے 9 ہزار تقرریوں کے ثبوت جمع کیے جا رہے ہیں۔ کہا گیا کہ سابق ڈائریکٹر اسکول نے اپنی تعیناتی کے دوران صرف ایک ماہ میں گیارہ ہزار سے زائد بھرتیاں کیں۔ اس میں اعلیٰ افسران ملوث ہیں۔
ریاست بنیادی طور پر جبر اور لوٹ کا ادارہ ہے، یہ دولت مندوں اور بااختیار افراد کا محافظ ہے۔ گزشتہ برسوں میں کشمیر کے زلزلوں اور ملک بھر کے سیلابوں اور اب تھر کے قحط زدہ محنت کشوں کے ذریعے ملک اور دنیا بھر سے بے شمار امداد آئی اور آرہی ہے، اور عوام ضرورت مندوں کی مدد بھی کر رہے ہیں لیکن ریاست کے آلہ کار ان امدادی سامان کی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ بات اب اتنی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ امدادی سامان ضرورت مندوں کو ملنے کے بجائے بازاروں میں فروخت ہوتے ہیں اور گوداموں میں ذخیرے کیے جاتے ہیں۔ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب پوری دنیا کے مالک یہاں کے سارے شہری ہوں گے۔ سب مل کر پیداوار کرتے ہیں تو پھر مل کر بانٹیں گے بھی۔