خصوصی بچوں کی تربیت میں والدین اوراساتذہ کا کردار

ورزش اور کھیل معذور بچوں کو نارمل ہونے کا احساس دلا سکتا ہے


مالک خان سیال March 17, 2014
ورزش اور کھیل معذور بچوں کو نارمل ہونے کا احساس دلا سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

صحت کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے اور آج بھی صحت کی افادیت سے کوئی فرد انکار نہیں کر سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بہترین ترکیب سے بنایا اور اس کو مختلف قسم کی ان گنت صلاحیتیں ودیعت کیں۔ان صلاحیتوں اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا صحیح اور بہتر استعمال بھی لازمی ہے۔ رب کائنات نے افراد میں انفرادی اختلافات اور تنوع پیدا کرنے کے لیے انہیں ایک دوسرے سے مختلف صلاحیتوں اور نعمتوں سے نوازا۔کسی کو کوئی چیز کم اور کسی کو زیادہ عطا فرمائی۔ جہاں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتیںعطا کرتا ہے وہاں اسے آزماتا بھی ہے۔ان آزمائشوں میں سے ایک آزمائش بچوں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی معذوری بھی ہے۔ ان معذور بچوں کو اصطلاح میں خصوصی بچے کہتے ہیں اور ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کو خصوصی تعلیم کہتے ہیں۔

جسمانی طور پر معذور بچے کسی عضو کے نہ ہونے یا کمزور ہونے کی وجہ سے عام طور پر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ جب نارمل بچوں کو ایسے کام کرتے دیکھتے ہیں جن کو وہ جسمانی کمزوری کی بنا پر کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہی پریشانی اور کمتری کا احساس ان کی شخصیت کی نمو میں منفی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بچے انفرادی توجہ کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور اگر پیار سے ان کی دیکھ بھال کی جائے تو انہیں باآسانی معاشرے کے نارمل افراد کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ جسمانی طور پر معذور بچے اکثر ذہنی طور پر تندرست ہوتے ہیں اور اگر ان کی ذہنی صلاحیتوں کی طرف خاطر خواہ توجہ دی جائے تو یہ غیر معمولی نتائج دیتے ہیں۔

اب یہ والدین اور معلم کے اوپر ہے کہ وہ کس طرح سے ان بچوں کے اندر سے کمتری کے احساس کو ختم کر کے انہیں ذہنی طور پر کارآمد بناتے ہیں۔ اس میں ان کو ورزشوں اور کھیلوں کے ذریعے نارمل ہونے کا احساس دلانا بھی ہو سکتا ہے اور کونسلنگ کی مدد سے رہنمائی فراہم کرنا بھی۔ والدین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسمانی طور پر معذور بچے کے طبعی رجحان اور ذہنی سطح کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے ایسی سرگرمیوں کا انتخاب کریں کہ جسمانی معذوری ان کی کامیابی کی راہ میں دیوار نہ بننے پائے اور نتیجتاً وہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکیں۔ جسمانی طور پر معذور بچوں کو مختلف کھیلوں اور ورزشوں کی بدولت معاشرے کے مفید افراد بنایا جا سکتا ہے اور ان کے عذر کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔



اگر ان بچوں کو اپنی نگرانی میں مخصوص ورزشیں اور اصلاحی کھیل کروائے جائیں تو جہاں یہ بچے والہانہ ان سرگرمیوں میں حصہ لیں گے اور لطف اندوز ہوں گے وہیں ان کو خود اعتمادی حاصل ہو گی اور اسی خود اعتمادی کے نتیجے میں وہ مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو سکیں گے۔ ذیل میں دی گئی چند ورزشیں اور کھیل ایسے ہیں جن کو اختیار کرنے سے ان خصوصی بچوں کی جسمانی طور پر اصلاح کے ساتھ ساتھ ذہنی تفریح بھی ہوتی ہے اور ان کی جسمانی اہلیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ان ورزشوں کو اختیار کرنے سے ان کو نارمل بچوںکے شانہ بشانہ کھڑا کیا جا سکتا ہے اور مفید شہری بنایا جا سکتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں کو اختیار کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خصوصی بچوں کو یہ سرگرمیاں اپنی نگرانی میں کروائی جائیں۔

جسمانی طور پر معذور بچوں کی ورزشیں

٭بچے کو ویل چیئر پر بٹھایا جائے۔اس کے سامنے گیند ویل چیئر کے قریب نیچے زمین پر رکھ دی جائے اور بچے کو کہا جائے کہ وہ ہاتھ پائوں کی مدد سے اس کو اٹھانے کی کوشش کرے۔اس طرح کرنے سے بچے کے بازوئوں اور ٹانگوں کی ورزش ہو گی۔

٭بچے کو فومی گدے پر لٹا کر کہا جائے کہ وہ اپنے جسم کو پھیلائے اور اکٹھا کرے۔اس طرح کرنے سے بچے کی پیٹھ اور پیٹ کی ورزش ہو گی۔

٭ بچے کو سیدھا لٹایا جائے اور اس کو کہا جائے کہ وہ کہنیوں اور ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا زور لگاتے ہوئے کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ اس سے بچے کے بازوئوں اور کندھوں کی ورزش ہو گی۔

٭ بچے کو گدے پر لٹایا جائے اور اس کے سامنے رسہ باندھا جائے وہ رسے کو پکڑتے ہوئے ہاتھوں کی مدد سے زور لگا کر جسم کو کھینچنے کی کوشش کرے۔اس سے بچے کی پیٹھ، چھاتی اور پیٹ کی ورزش ہو گی۔



٭بازو اور چھاتی کی ورزش کے لیے بچے کو زینے کے نزدیک لٹا دیا جائے۔ بچہ زینے کو پکڑکر آہستہ آہستہ اوپر جانے کی کوشش کرے۔

٭بچے کو سہارا دے کر رسے کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے۔ بچہ توازن بر قرار رکھتے ہوئے ہاتھ اور ٹانگوں کی قوت استعمال کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو کھڑا رکھنے کی کوشش کرے گا جس سے اس کی ٹانگوں ، بازو ئوں اور توازن کی ورزش ہو سکے گی۔

٭ لکڑی کے چورس شہتیر پر جس پر فوم رکھا ہوا ہو بچے کو لٹا دیا جائے، جو کم از کم زمین سے تین یا چار انچ اونچا ہو۔ یاد رہے کہ بچے کو چھاتی کے بل لٹایا جائے۔ بچہ ہاتھ اور گھٹنوں کی مدد سے آگے کو حرکت کرے۔ یہ عمل بار بار دہرایا جائے اس سے بچے کی پیٹ اور کندھے کی ورزش ہو گی۔

اس کے علاوہ متعدد مزید ورزشیں وقت اور دستیاب سہولیات کے پیش نظر کروائی جا سکتی ہیں۔ معلمین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خصوصی بچوں پر نارمل بچوں کی نسبت زیادہ توجہ دیں تاکہ یہ بچے صحیح معنوں میں معاشرے کا کار آمد حصہ بن سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں