تباہی بربادی اور ہمارے رویے
تباہی اور بربادی کا عفریت پورے ملک کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہے
پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے چاروں صوبوں میں جو تباہی مچائی ہے، اس کے اعدادو شمار تباہی کی شدت اور اسکیل کو ظاہر کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز نے صورتحال کی سنگینی کو عام لوگوں تک پہنچایا ہے۔
ملک بھر میں لاکھوں گھر، کاروباری عمارتیں تباہ ہوچکے ہیں، انفرااسٹرکچر کی بربادی الگ داستان الم ہے۔ خیبر پختونخوا کے10 اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے اعلامیہ کے مطابق خیبر پختونخوا میںسوات، ڈیرہ اسماعیل خان،ٹانک،لوئر دیر، نوشہرہ ،چارسدہ، صوابی، لوئر کوہستان، شانگلہ اور مردان بے پناہ تباہی ہوئی ہے ۔
دریائے سوات کے قریب قائم درجنوں ہوٹلز، 150 سے زائد مکان، ٹراؤٹ مچھلیوں کی 200سے زائد ہیچریاں، دکانیں اور متعدد پل دریا برد ہو گئے ہیں۔ کالام کا مشہور اور مہنگا ہوٹل بھی دریا برد ہوگیا۔ بحرین، مدین اور مٹہ میں میں بہت نقصان ہوا ہے۔ کالام اور بحرین کا زمینی رابطہ ملک بھر سے ٹوٹ گیا ہے۔
چارسدہ میں سیلابی پانی کے باعث منڈا ہیڈ ورکس کا پل ٹوٹ گیا۔ تحصیل درابن ، پروا ، کلاچی ،درہ زندہ میں سیکڑوں مکان سیلاب کی نذر ، رابطہ سڑکیں تباہ ہوگئی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا 60 فیصد علاقہ پانی میں ڈوب گیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا ائیر پورٹ بھی سیلاب میں ڈوب گیا۔
فلائٹ آپریشن معطل ہے۔ نوشہرہ میں بھی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور لوگوں کو فوری نقل مکانی کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ کوہستان سیلابی ریلے کی زد میں آئے 5 دوست 4 گھنٹے تک مدد کا انتظار کرتے رہے لیکن کے پی حکومت ان بے بس نوجوانوں تک نہ پہنچ سکی اور بلاآخر پانچوں دوست تیز موجوں کی نذر ہوگئے،اطلاعات ہیں کہ ان میں سے ایک کی جان بچ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین نے کے پی حکومت پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ سیلابی ریلے سے مہمند ڈیم بھی متاثر ہوا ہے۔
خیبر پختونخواحکومت نے وزیر اعلیٰ خیبر سیکریٹریٹ پشاورمیں''فلڈ ایمرجنسی کنٹرول روم ''قائم کردیا ہے۔ رجسٹرارپشاورہائیکورٹ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان اور ملاکنڈ ڈویژن سمیت نوشہرہ میں عدالتیں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملاکنڈ کے تمام تعلیمی اداروں کو دو دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ بلوچستان میں بھی تباہی کا دائرہ بہت وسیع ہے، مختلف حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ نوے فیصد بلوچستان سیلاب سے متاثر ہوا، گزشتہ روز وہاں چار ڈیم ٹوٹنے کی اطلاع تھی۔ کوئٹہ بھی سیلاب اور بارش سے متاثر ہوا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے روز کو سندھ کے شہر سکھر میں سیلاب متاثرین سے ملاقات کی اور ان کے مسائل سنے، میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کافضائی جائزہ لیا ہے،ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ انھوں نے سیکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع پردکھ کا اظہارکیا اور کہا کہ سندھ حکومت متاثرین کی بحالی کے لیے بھرپورکام کررہی ہے ،میڈیکل کیمپ میں علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔سندھ حکومت کے لیے 15ارب روپے کی گرانٹ پہلے مرحلے میں دے رہے ہیں جسے ترجیحی بنیاد پر اپنی صوابدید سے صوبائی حکومت خرچ کرے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان سے امداد کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا تھا، اب سندھ سے بھی اس کا آغازکررہے ہیں ۔ انھوں نے کہا سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے مختلف علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں سیلاب سے بہت نقصان ہوا ہے۔ جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10، 10 لاکھ روپے وفاقی حکومت کی طرف سے دیے جارہے ہیں۔ زخمیوں کو بھی معاوضہ ادا کیاجارہاہے ۔متاثرین کے لیے خیموں اور مچھر دانیوں کا بھی انتظام کررہے ہیں۔ 15لاکھ مچھردانیاں سندھ کو اور 5 لاکھ بلوچستان کو دی جا رہی ہیں۔
100 ٹن پانی نیسلے کمپنی نے عطیہ کیا ہے جس میں سے 80 ٹن سندھ اور 20 ٹن بلوچستان کو دیاجائے گا۔ پہلے مرحلے میں بلوچستان کو 60 ٹن پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاچکا ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ 2010میں این ایف سی کا ایوارڈ کااعلان ہوا تھا جس کے تحت محاصل کا 58 فیصد صوبوں کو ملتا ہے جب کہ وفاق کے پاس بچ جانے والے محاصل تنخواہوں اور قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کیے جاتے ہیں ۔18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والا حصہ زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت بھرپور وسائل فراہم کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر کہا کہ وہ مشکل وقت میں اس دورے اورمدد پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں،تمام سیاسی جماعتوں کو اس آفت کا مقابلہ کرنا ہے، یہ ریلیف اور ریسکیو کا وقت ہے، پوری قوم متاثرین کی مدد کے لیے آگے آئے۔متاثرین کو خیموں اور راشن کی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق کے ساتھ مل کر اس مشکل گھڑی میں سب مل کر کام کریں گے۔ انھوں نے میڈیا پر زوردیا کہ وہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو اجاگرکرے اور بین الاقوامی ادارے اور برادری بھی عوام کی مدد کے لیے آگے آئے۔
اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے رہنما راشد سومرو نے کہا کہ اتحادی حکومت متاثرین کی مدد کے لیے مل کر کام کرے گی۔جمعہ کو وزارت داخلہ نے شدید بارشوں اور سیلاب کی ہنگامی صورتحال کے پیش نظرسویلین حکومت کی مدد کے لیے چاروں صوبوں میں پاک فوج تعینات کرنے کی منظوری دیدی۔
آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج تعینات کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو حتمی منظوری کے لیے بھجوا دی گئی ہے۔دریں اثنا اسلام آباد میں غیرملکی سفراء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا سیلاب اور بارشوں سے اب تک 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، گھروں، املاک اور انفراا سٹرکچر کو ہونے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ اربوں میں ہے، اتنی بڑی تعداد میں متاثرین کو کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور خیموں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے،بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے تعاون پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ادھر میڈیا کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ایک خط ارسال کیا ہے ، اس خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت آئی ایم ایف کی شرط پر عمل نہیں کرسکتی، وفاقی حکومت نے ہمارے کسی مطالبے پر عمل نہیں کیا۔ آئی ایم ایف کی شرط پر سرپلس بجٹ نہیں چھوڑ سکتے۔ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے بتایا کہ آئی ایم ایف شرائط کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ کو خط لکھا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ایم او یو پر دستخط کا فیصلہ عظیم تر قومی مفاد میں کیا تھا، وفاقی حکومت نے اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا، سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے اگر پوری اے ڈی پی بھی خرچ کرنا پڑی تو کرینگے، سیلابی صورتحال پر سیاست کی جارہی ہے، موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کو فلڈ ریلف دینا چاہیے، ملاکنڈ، جنوبی اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو تنہا نہیں چھوڑینگے، اس وقت صحت کارڈ کے سسٹم سے عوام مستفید ہورہی ہے، صحت کارڈ کا غلط استعمال کرنیوالے ایک اسپتال کو معطل کردیا گیا تھا، صحت کارڈ میں بے ضابطگیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ہم ہیلتھ کارڈز میں اب اوپی ڈیز اور میڈیسن بھی شامل کرئے گے، ہم پرائیویٹ سیکٹر کو پبلک سیکٹر کا حصہ بنا رہے ہیں، صحت کارڈ کی وجہ سیایل ار ایچ اور ایچ ایم سی 70فیصد اضافی کما رہے ہیں، ہم نے 20اسپتالوں کو آؤٹ سورس کیا ہے، دور دراز کے 58مزید اسپتال کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر چلائے گے۔اس کے جواب میںوفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے طے شدہ شرط پر عملدرآمد نہ کرنے سے متعلق وزارت خزانہ کو لکھے جانے والے خط کو ملک کے خلاف ساز ش قرار دیدیا۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اس سازش کو بھی ناکام بنائیں گے، پی ٹی آئی نے پنجاب کو بھی خط لکھنے کا کہا تھا مگر پنجاب نے انکار کردیا ،دریں اثنا حکومت میں شامل جماعتوں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ملک میں سیلاب کی تباہ کن صورتحال جاری ہے لیکن قوم کی اس مشکل گھڑی میں خیبرپختونخوا کی حکومت نے سیاست کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرط پر عمل سے انکار کیا ہے، خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیرخزانہ کا وفاقی مفتاح اسماعیل کو خط پاکستان کو معاشی بحران کے سیلاب میں ڈبونے کی چال ہے، پی ٹی آئی کو معلوم ہے کہ 29 اگست کو آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہونے جارہا ہے جس میں پاکستان کے ساتھ معاشی پروگرام کی بحالی ہونے جارہی ہے۔ ایسے میں خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے بدنیتی پر مبنی اقدام کیاگیا۔
تباہی اور بربادی کا عفریت پورے ملک کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہے، ایسے حالات میں بھی سیاسی اور گروہی مفادات کو سامنے رکھ کر جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس سے ہماری سیاسی قیادت کی کم فہمی اور عاقبت نااندیشی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کو، پیپلزپارٹی کو یا پی ٹی آئی، انھیں سب سے پہلے اس ریاست اور اس کے عوام کے مفاد کا خیال کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو عوام تو سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
ملک بھر میں لاکھوں گھر، کاروباری عمارتیں تباہ ہوچکے ہیں، انفرااسٹرکچر کی بربادی الگ داستان الم ہے۔ خیبر پختونخوا کے10 اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے اعلامیہ کے مطابق خیبر پختونخوا میںسوات، ڈیرہ اسماعیل خان،ٹانک،لوئر دیر، نوشہرہ ،چارسدہ، صوابی، لوئر کوہستان، شانگلہ اور مردان بے پناہ تباہی ہوئی ہے ۔
دریائے سوات کے قریب قائم درجنوں ہوٹلز، 150 سے زائد مکان، ٹراؤٹ مچھلیوں کی 200سے زائد ہیچریاں، دکانیں اور متعدد پل دریا برد ہو گئے ہیں۔ کالام کا مشہور اور مہنگا ہوٹل بھی دریا برد ہوگیا۔ بحرین، مدین اور مٹہ میں میں بہت نقصان ہوا ہے۔ کالام اور بحرین کا زمینی رابطہ ملک بھر سے ٹوٹ گیا ہے۔
چارسدہ میں سیلابی پانی کے باعث منڈا ہیڈ ورکس کا پل ٹوٹ گیا۔ تحصیل درابن ، پروا ، کلاچی ،درہ زندہ میں سیکڑوں مکان سیلاب کی نذر ، رابطہ سڑکیں تباہ ہوگئی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا 60 فیصد علاقہ پانی میں ڈوب گیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا ائیر پورٹ بھی سیلاب میں ڈوب گیا۔
فلائٹ آپریشن معطل ہے۔ نوشہرہ میں بھی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور لوگوں کو فوری نقل مکانی کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ کوہستان سیلابی ریلے کی زد میں آئے 5 دوست 4 گھنٹے تک مدد کا انتظار کرتے رہے لیکن کے پی حکومت ان بے بس نوجوانوں تک نہ پہنچ سکی اور بلاآخر پانچوں دوست تیز موجوں کی نذر ہوگئے،اطلاعات ہیں کہ ان میں سے ایک کی جان بچ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین نے کے پی حکومت پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ سیلابی ریلے سے مہمند ڈیم بھی متاثر ہوا ہے۔
خیبر پختونخواحکومت نے وزیر اعلیٰ خیبر سیکریٹریٹ پشاورمیں''فلڈ ایمرجنسی کنٹرول روم ''قائم کردیا ہے۔ رجسٹرارپشاورہائیکورٹ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان اور ملاکنڈ ڈویژن سمیت نوشہرہ میں عدالتیں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملاکنڈ کے تمام تعلیمی اداروں کو دو دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ بلوچستان میں بھی تباہی کا دائرہ بہت وسیع ہے، مختلف حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ نوے فیصد بلوچستان سیلاب سے متاثر ہوا، گزشتہ روز وہاں چار ڈیم ٹوٹنے کی اطلاع تھی۔ کوئٹہ بھی سیلاب اور بارش سے متاثر ہوا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے روز کو سندھ کے شہر سکھر میں سیلاب متاثرین سے ملاقات کی اور ان کے مسائل سنے، میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کافضائی جائزہ لیا ہے،ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ انھوں نے سیکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع پردکھ کا اظہارکیا اور کہا کہ سندھ حکومت متاثرین کی بحالی کے لیے بھرپورکام کررہی ہے ،میڈیکل کیمپ میں علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔سندھ حکومت کے لیے 15ارب روپے کی گرانٹ پہلے مرحلے میں دے رہے ہیں جسے ترجیحی بنیاد پر اپنی صوابدید سے صوبائی حکومت خرچ کرے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان سے امداد کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا تھا، اب سندھ سے بھی اس کا آغازکررہے ہیں ۔ انھوں نے کہا سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے مختلف علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں سیلاب سے بہت نقصان ہوا ہے۔ جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10، 10 لاکھ روپے وفاقی حکومت کی طرف سے دیے جارہے ہیں۔ زخمیوں کو بھی معاوضہ ادا کیاجارہاہے ۔متاثرین کے لیے خیموں اور مچھر دانیوں کا بھی انتظام کررہے ہیں۔ 15لاکھ مچھردانیاں سندھ کو اور 5 لاکھ بلوچستان کو دی جا رہی ہیں۔
100 ٹن پانی نیسلے کمپنی نے عطیہ کیا ہے جس میں سے 80 ٹن سندھ اور 20 ٹن بلوچستان کو دیاجائے گا۔ پہلے مرحلے میں بلوچستان کو 60 ٹن پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاچکا ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ 2010میں این ایف سی کا ایوارڈ کااعلان ہوا تھا جس کے تحت محاصل کا 58 فیصد صوبوں کو ملتا ہے جب کہ وفاق کے پاس بچ جانے والے محاصل تنخواہوں اور قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کیے جاتے ہیں ۔18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والا حصہ زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت بھرپور وسائل فراہم کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر کہا کہ وہ مشکل وقت میں اس دورے اورمدد پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں،تمام سیاسی جماعتوں کو اس آفت کا مقابلہ کرنا ہے، یہ ریلیف اور ریسکیو کا وقت ہے، پوری قوم متاثرین کی مدد کے لیے آگے آئے۔متاثرین کو خیموں اور راشن کی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق کے ساتھ مل کر اس مشکل گھڑی میں سب مل کر کام کریں گے۔ انھوں نے میڈیا پر زوردیا کہ وہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو اجاگرکرے اور بین الاقوامی ادارے اور برادری بھی عوام کی مدد کے لیے آگے آئے۔
اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے رہنما راشد سومرو نے کہا کہ اتحادی حکومت متاثرین کی مدد کے لیے مل کر کام کرے گی۔جمعہ کو وزارت داخلہ نے شدید بارشوں اور سیلاب کی ہنگامی صورتحال کے پیش نظرسویلین حکومت کی مدد کے لیے چاروں صوبوں میں پاک فوج تعینات کرنے کی منظوری دیدی۔
آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج تعینات کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو حتمی منظوری کے لیے بھجوا دی گئی ہے۔دریں اثنا اسلام آباد میں غیرملکی سفراء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا سیلاب اور بارشوں سے اب تک 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، گھروں، املاک اور انفراا سٹرکچر کو ہونے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ اربوں میں ہے، اتنی بڑی تعداد میں متاثرین کو کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور خیموں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے،بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے تعاون پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ادھر میڈیا کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ایک خط ارسال کیا ہے ، اس خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت آئی ایم ایف کی شرط پر عمل نہیں کرسکتی، وفاقی حکومت نے ہمارے کسی مطالبے پر عمل نہیں کیا۔ آئی ایم ایف کی شرط پر سرپلس بجٹ نہیں چھوڑ سکتے۔ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے بتایا کہ آئی ایم ایف شرائط کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ کو خط لکھا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ایم او یو پر دستخط کا فیصلہ عظیم تر قومی مفاد میں کیا تھا، وفاقی حکومت نے اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا، سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے اگر پوری اے ڈی پی بھی خرچ کرنا پڑی تو کرینگے، سیلابی صورتحال پر سیاست کی جارہی ہے، موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کو فلڈ ریلف دینا چاہیے، ملاکنڈ، جنوبی اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو تنہا نہیں چھوڑینگے، اس وقت صحت کارڈ کے سسٹم سے عوام مستفید ہورہی ہے، صحت کارڈ کا غلط استعمال کرنیوالے ایک اسپتال کو معطل کردیا گیا تھا، صحت کارڈ میں بے ضابطگیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ہم ہیلتھ کارڈز میں اب اوپی ڈیز اور میڈیسن بھی شامل کرئے گے، ہم پرائیویٹ سیکٹر کو پبلک سیکٹر کا حصہ بنا رہے ہیں، صحت کارڈ کی وجہ سیایل ار ایچ اور ایچ ایم سی 70فیصد اضافی کما رہے ہیں، ہم نے 20اسپتالوں کو آؤٹ سورس کیا ہے، دور دراز کے 58مزید اسپتال کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر چلائے گے۔اس کے جواب میںوفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے طے شدہ شرط پر عملدرآمد نہ کرنے سے متعلق وزارت خزانہ کو لکھے جانے والے خط کو ملک کے خلاف ساز ش قرار دیدیا۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اس سازش کو بھی ناکام بنائیں گے، پی ٹی آئی نے پنجاب کو بھی خط لکھنے کا کہا تھا مگر پنجاب نے انکار کردیا ،دریں اثنا حکومت میں شامل جماعتوں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ملک میں سیلاب کی تباہ کن صورتحال جاری ہے لیکن قوم کی اس مشکل گھڑی میں خیبرپختونخوا کی حکومت نے سیاست کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرط پر عمل سے انکار کیا ہے، خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیرخزانہ کا وفاقی مفتاح اسماعیل کو خط پاکستان کو معاشی بحران کے سیلاب میں ڈبونے کی چال ہے، پی ٹی آئی کو معلوم ہے کہ 29 اگست کو آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہونے جارہا ہے جس میں پاکستان کے ساتھ معاشی پروگرام کی بحالی ہونے جارہی ہے۔ ایسے میں خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے بدنیتی پر مبنی اقدام کیاگیا۔
تباہی اور بربادی کا عفریت پورے ملک کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہے، ایسے حالات میں بھی سیاسی اور گروہی مفادات کو سامنے رکھ کر جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس سے ہماری سیاسی قیادت کی کم فہمی اور عاقبت نااندیشی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کو، پیپلزپارٹی کو یا پی ٹی آئی، انھیں سب سے پہلے اس ریاست اور اس کے عوام کے مفاد کا خیال کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو عوام تو سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔