ملک کو ایک تعلیمی آئین بھی درکار ہے
یہ باعث افسوس اور شرمندگی ہے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے فروغ کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کا...
KARACHI:
یہ باعث افسوس اور شرمندگی ہے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے فروغ کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین موجود ہے، مگر وفاقی یا صوبائی وزارت تعلیم کے پاس تعلیم کے فروغ کے لئے کوئی آئین موجود نہیں۔
کوئی بھی ملک جس نظام کے ذریعے طلباء تک علم منتقل کرتا ہے، اسے ملک کا تعلیمی نظام کہتے ہیں۔ بہت ہی سادہ انداز میں بیان کیا جائے تو ایک نظام تعلیم، علم (نصاب )، ایڈمنسٹریشن (معلم ) اور طالب علم کی تکون پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان سب کو جوڑے رکھنے والی چیز مقصدیت ہے۔ ایسی کوئی مشترکہ مقصدیت پاکستان کے پہلے تعلیمی آئین کی بنیاد ہو سکتی ہے، بشرطیکہ یہ بنیاد ملک کے سیاسی اور انتظامی آئین سے مطابقت رکھتی ہو اور چونکہ اس مقصدیت نے ایک تعلیمی آئین کی بنیاد بننا ہے لہذا اسے بہت اعلی اور جامع بھی ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ علم اور سائینس کی کوئی جامع تعریف ہی سامنے نہیں تھی لہذا حصول علم، نصاب علم اور ابلاغ علم کی کوئی اعلی اور مشترک مقصدیت آنکھوں سے اوجھل رہی ہے۔ ہم اپنی درسگاہوں میں ہر روز کروڑوں طلباء کو ایک ایسے عملِ محض سے دو چار کرتے ہیں جس میں عمومی طور پر ادھوری حقیقت بتائی جاتی ہے، نتیجتاً ہمارے موجودہ نظام تعلیم نے علم کو معلوماتstore رکھنے اور بہ عوض محض نوکری کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اس حوالے سے منزل کا تعین نہ ہونے کے باعث ہمارے معاشرے میں علمی اور عملی سطح پر اخلاقی پسماندگی، مالی بے ضابطگی، معاشرتی بے راہ روی اور دہشت گردی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال میسر رہتی ہے۔
صحیح اسلامی تعلیمی آئین کروڑوں لوگوں کا مسئلہ ہے۔ صورت ِ حال کو بہتر بنانے کے لئے پوری تعلیمی تکون کی مقصدیت کو باہم منسلک کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ تعلیمی تکون کی مقصدیت کو علمی اور عملی سطح پر باہم منسلک کرنے والی اکائی اللہ تعالی کی ذات کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہمارا مقصد ایسی ہی کسی نصابی مقصدیت اور دیگر تبدیلیوں کے خدو خال واضح کرنا ہے جن سے علم، حصول علم اور ابلاغ علم تینوں یکساں طور پر اللہ تعالی کی ذات پر مرتکز ہوں۔ اس حوالے سے ہماری ناقص رائے کے مطابق ایک ایسے نظریاتی میکانزم کو موجودہ نظامِ تعلیم میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو بشرطِ صاف نیت، خود کار طریقے سے کام کرنے کا اہل ہو اور اس کے لئے کسی چیک اور نگرانی کی بھی ضرورت پیش نہ آئے، طالب علم اخلاقی ترقی کا وہ کمال بھی حاصل کر لیں جو کبھی ہمارا ور ثہ ہوا کرتا تھا۔ مستزاد یہ کہ اس نظام کی ترویج کے لئے علیحدہ سے دفاتر اور نوکر شاہی کا تکلف بھی نہ کرنا پڑے۔ ذیل میں اصولی شکل میں تعلیمی آئین کی وہ علمی اور عقلی بنیادیں بیان کی جارہی ہیں کہ جنہیں اگر اختیار کیا جائے تو علم، حصول علم اور ابلاغ علم تینوں یکساں طور پر اللہ تعالی کی ذات پر مرتکز ہو سکتے ہیں۔
علم
علم دراصل کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کے تمام مثبت اور منفی پہلوئوں پر وہ فیصلہ کن دسترس ہے جس سے اللہ کی ذات اس کائنات کی ہر شئے پر مکمل اختیار حاصل کئے ہوئے ہے۔ منفی اور مثبت کی بنیاد اللہ تعالی کی مرضی ہے، جو چیز اللہ کی مرضی کے مطابق ہے وہ اللہ کے لئے مثبت اور جو اس کے برعکس ہے وہ اللہ کے لئے منفی ہے۔ قرآن، حدیث، مادہ سمیت گویا یہ پوری کائنات علم کا وہ بنیادی مظہر ہے جس میں اللہ تعالی کی علمی اور تکنیکی دسترس پنہاں ہے۔ جوں جوں کائنات کی اشیاء پر غور کیا جائے، ایمان و عمل، علم و تکنیک میں اضافہ ممکن ہے۔
انسانی علم
کسی بھی مادی اور غیر مادی چیز کے منفی یا مثبت پہلوئوں کی وہ نفع مند دسترس یا اطلاق انسانی علم کہلائے گا جس سے انسانی زندگی کے متعلقات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ علم کی اصطلاح قرآن مجید میں مختلف علوم کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ لہذا انسانی حوالے سے علم نہ تو دنیاوی ہے نہ دینی، علم اپنی کلیت میں ایک اکائی ہے، انسانی نیت اسے دینی یا دنیاوی بناتی ہے۔ علم کی اس توجیح کے ساتھ، مدرسہ اور سکول دونوں کی طرز فکر ہمہ جہت ہوگی اور اصل ترقی کے امکانات بڑھیں گے، دونوں ہمہ جہت حکمت ِ عملی کے تحت آگے بڑھیں گے۔ ایک صرف مذہب پر مرکوز نہ ہو گا اور نہ ہی دوسرا صرف مادی اشیاء کو موضوع ِ بحث بنائے رکھے گا۔
سائنس
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرما یا کہ ''بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے''۔ اس اندازے کو ایک با قاعدہ طریقے سے جاننا سائنس کہلاتا ہے۔ یوں تحقیقی اور علمی انکشاف کے بعد ایک طالب ِ علم کے مثبت طرزعمل اختیار کرنے کا امکان بڑھ جائے گا، نتیجتاً حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی درست ہو گی۔ تسخیر کائنات کے لئے سائنس کا یہی وہ موجودہ طریقہ کار تھا جو اس دور کے انسان کو اللہ تعالی نے اپنی تخلیقات کا مطالعہ کر نے کے لئے دیا ہے جبکہ اس سے پہلے کے انسان جو کسی بھی سطح پر تسخیر کائنات میں مصروف تھے چونکہ اللہ تعالی کی تخلیقات کے نظم کے مطابق کوشش نہیں کر رہے تھے، ناکام رہے۔ بلکہ آج بھی جہاں جہاں انسان کا نام نہاد باقاعدہ طریقہ کار اللہ تعالی کی تخلیقات کے نظم کے مطابق نہیں ہوتا وہاں ہمیں اکثر Noise Pollution, Air Pollution, Land Pollution وغیرہ وغیرہ کی اطلاع ملتی ہے۔
موضوعاتی تنوع
سائنس کی اس تعریف کے تحت آپ نصاب میں انسانی زندگی سے متعلق کسی بھی موضوع کو کسی اشد ضرورت کے تحت کسی بھی تناظر میں زیرِ بحث لا سکتے ہیں۔ سائنس کی یہ تعریف صرف مادی اشیا ء تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی تمام غیر مادی اشیاء پر بھی محیط ہے۔ سیاست، مذہبِ، بین المذاہب موازنہ یا اس جیسے اور موضوعات، معاشرت، ثقافت کچھ بھی، کیونکہ اسلام میں ظلم اور جبر کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے سب پر ان کے منفی اور مثبت پہلوئوں اور اثرات، ارتقاء و ابتدا اور دیگر انسانی امکانات کے حوالوں سے بحث ممکن ہو گی۔ یوں نصابی تنوع کا مسئلہ پیدا نہیں گا۔
کتاب
نصابی کتب باقاعدہ طور پر مرتب شدہ مواد جو معلومات کی موثر ترسیل کے لئے اس لئے مرتب کی جائیں گی کہ اللہ تعالی کی ذات طلبہ کو Possess کر لے اور وہ اس اثر کے تحت اپنے ذمہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور علمی اور تکنیکی اختراع کا امکان بہتر کر پائیں۔ مجوزہ نصابی مقصدیت کے لئے موجودہ کتب کو صرف درست انداز میں مرتب کرنا ہو گا مثلا ً حرکت کے موضوع پر Research نیوٹن نے کی ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ حرکت کے تمام قوانین اللہ تعالی کے بنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں کرنا یہ ہے کہ جو چیز جس کی ہے اسی کے حوالے سے کتابوں میں بیان کر دینی ہے۔
تعلیم
تعلیم دراصل تفویض علم کا ایک ایسا منظم عمل ہو گا جس کا مقصد طالب ِ علم کو کائنات میں اللہ تعالی کی علمی اور تکنیکی دسترس سے متاثر کرتے ہوئے اسے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہترین ادائیگی کے ساتھ ساتھ علم اور تکنیک میں اختراع کی خا طر تیار کرنا ہے۔
مخلوط طرز تعلیم
اسلام کی عمومی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ اسلام حتی الوسع مخلوط طرزِ تعلیم کے خلاف ہے، مگر کسی اشد ضرورت کے تحت اگر محتاط انداز میں تمام ممکنہ احتیاطیں برت کر ایسا ہو تو کوئی ہرج بھی نہیں ہے مگر اشد ضرورت نہ ہونے پر مخلوط طرزِ تعلیم سے اجتناب ہی کیا جائے۔
اوپر دی گئی تجاویز سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارا نظام ِ تعلیم صحیح اسلامی خطوط پر استوار ہو گا۔ سکول اور مدرسہ میں مادی اشیاء کے علم کی کتابیں ایک جیسی ہو جائیں گی یوں کم از کم اس ایک حوالے سے مدرسے اور سکول ایک ہو جائیں گے۔
farhatalibaig431@yahoo.com
یہ باعث افسوس اور شرمندگی ہے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے فروغ کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین موجود ہے، مگر وفاقی یا صوبائی وزارت تعلیم کے پاس تعلیم کے فروغ کے لئے کوئی آئین موجود نہیں۔
کوئی بھی ملک جس نظام کے ذریعے طلباء تک علم منتقل کرتا ہے، اسے ملک کا تعلیمی نظام کہتے ہیں۔ بہت ہی سادہ انداز میں بیان کیا جائے تو ایک نظام تعلیم، علم (نصاب )، ایڈمنسٹریشن (معلم ) اور طالب علم کی تکون پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان سب کو جوڑے رکھنے والی چیز مقصدیت ہے۔ ایسی کوئی مشترکہ مقصدیت پاکستان کے پہلے تعلیمی آئین کی بنیاد ہو سکتی ہے، بشرطیکہ یہ بنیاد ملک کے سیاسی اور انتظامی آئین سے مطابقت رکھتی ہو اور چونکہ اس مقصدیت نے ایک تعلیمی آئین کی بنیاد بننا ہے لہذا اسے بہت اعلی اور جامع بھی ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ علم اور سائینس کی کوئی جامع تعریف ہی سامنے نہیں تھی لہذا حصول علم، نصاب علم اور ابلاغ علم کی کوئی اعلی اور مشترک مقصدیت آنکھوں سے اوجھل رہی ہے۔ ہم اپنی درسگاہوں میں ہر روز کروڑوں طلباء کو ایک ایسے عملِ محض سے دو چار کرتے ہیں جس میں عمومی طور پر ادھوری حقیقت بتائی جاتی ہے، نتیجتاً ہمارے موجودہ نظام تعلیم نے علم کو معلوماتstore رکھنے اور بہ عوض محض نوکری کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اس حوالے سے منزل کا تعین نہ ہونے کے باعث ہمارے معاشرے میں علمی اور عملی سطح پر اخلاقی پسماندگی، مالی بے ضابطگی، معاشرتی بے راہ روی اور دہشت گردی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال میسر رہتی ہے۔
صحیح اسلامی تعلیمی آئین کروڑوں لوگوں کا مسئلہ ہے۔ صورت ِ حال کو بہتر بنانے کے لئے پوری تعلیمی تکون کی مقصدیت کو باہم منسلک کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ تعلیمی تکون کی مقصدیت کو علمی اور عملی سطح پر باہم منسلک کرنے والی اکائی اللہ تعالی کی ذات کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہمارا مقصد ایسی ہی کسی نصابی مقصدیت اور دیگر تبدیلیوں کے خدو خال واضح کرنا ہے جن سے علم، حصول علم اور ابلاغ علم تینوں یکساں طور پر اللہ تعالی کی ذات پر مرتکز ہوں۔ اس حوالے سے ہماری ناقص رائے کے مطابق ایک ایسے نظریاتی میکانزم کو موجودہ نظامِ تعلیم میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو بشرطِ صاف نیت، خود کار طریقے سے کام کرنے کا اہل ہو اور اس کے لئے کسی چیک اور نگرانی کی بھی ضرورت پیش نہ آئے، طالب علم اخلاقی ترقی کا وہ کمال بھی حاصل کر لیں جو کبھی ہمارا ور ثہ ہوا کرتا تھا۔ مستزاد یہ کہ اس نظام کی ترویج کے لئے علیحدہ سے دفاتر اور نوکر شاہی کا تکلف بھی نہ کرنا پڑے۔ ذیل میں اصولی شکل میں تعلیمی آئین کی وہ علمی اور عقلی بنیادیں بیان کی جارہی ہیں کہ جنہیں اگر اختیار کیا جائے تو علم، حصول علم اور ابلاغ علم تینوں یکساں طور پر اللہ تعالی کی ذات پر مرتکز ہو سکتے ہیں۔
علم
علم دراصل کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کے تمام مثبت اور منفی پہلوئوں پر وہ فیصلہ کن دسترس ہے جس سے اللہ کی ذات اس کائنات کی ہر شئے پر مکمل اختیار حاصل کئے ہوئے ہے۔ منفی اور مثبت کی بنیاد اللہ تعالی کی مرضی ہے، جو چیز اللہ کی مرضی کے مطابق ہے وہ اللہ کے لئے مثبت اور جو اس کے برعکس ہے وہ اللہ کے لئے منفی ہے۔ قرآن، حدیث، مادہ سمیت گویا یہ پوری کائنات علم کا وہ بنیادی مظہر ہے جس میں اللہ تعالی کی علمی اور تکنیکی دسترس پنہاں ہے۔ جوں جوں کائنات کی اشیاء پر غور کیا جائے، ایمان و عمل، علم و تکنیک میں اضافہ ممکن ہے۔
انسانی علم
کسی بھی مادی اور غیر مادی چیز کے منفی یا مثبت پہلوئوں کی وہ نفع مند دسترس یا اطلاق انسانی علم کہلائے گا جس سے انسانی زندگی کے متعلقات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ علم کی اصطلاح قرآن مجید میں مختلف علوم کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ لہذا انسانی حوالے سے علم نہ تو دنیاوی ہے نہ دینی، علم اپنی کلیت میں ایک اکائی ہے، انسانی نیت اسے دینی یا دنیاوی بناتی ہے۔ علم کی اس توجیح کے ساتھ، مدرسہ اور سکول دونوں کی طرز فکر ہمہ جہت ہوگی اور اصل ترقی کے امکانات بڑھیں گے، دونوں ہمہ جہت حکمت ِ عملی کے تحت آگے بڑھیں گے۔ ایک صرف مذہب پر مرکوز نہ ہو گا اور نہ ہی دوسرا صرف مادی اشیاء کو موضوع ِ بحث بنائے رکھے گا۔
سائنس
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرما یا کہ ''بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے''۔ اس اندازے کو ایک با قاعدہ طریقے سے جاننا سائنس کہلاتا ہے۔ یوں تحقیقی اور علمی انکشاف کے بعد ایک طالب ِ علم کے مثبت طرزعمل اختیار کرنے کا امکان بڑھ جائے گا، نتیجتاً حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی درست ہو گی۔ تسخیر کائنات کے لئے سائنس کا یہی وہ موجودہ طریقہ کار تھا جو اس دور کے انسان کو اللہ تعالی نے اپنی تخلیقات کا مطالعہ کر نے کے لئے دیا ہے جبکہ اس سے پہلے کے انسان جو کسی بھی سطح پر تسخیر کائنات میں مصروف تھے چونکہ اللہ تعالی کی تخلیقات کے نظم کے مطابق کوشش نہیں کر رہے تھے، ناکام رہے۔ بلکہ آج بھی جہاں جہاں انسان کا نام نہاد باقاعدہ طریقہ کار اللہ تعالی کی تخلیقات کے نظم کے مطابق نہیں ہوتا وہاں ہمیں اکثر Noise Pollution, Air Pollution, Land Pollution وغیرہ وغیرہ کی اطلاع ملتی ہے۔
موضوعاتی تنوع
سائنس کی اس تعریف کے تحت آپ نصاب میں انسانی زندگی سے متعلق کسی بھی موضوع کو کسی اشد ضرورت کے تحت کسی بھی تناظر میں زیرِ بحث لا سکتے ہیں۔ سائنس کی یہ تعریف صرف مادی اشیا ء تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی تمام غیر مادی اشیاء پر بھی محیط ہے۔ سیاست، مذہبِ، بین المذاہب موازنہ یا اس جیسے اور موضوعات، معاشرت، ثقافت کچھ بھی، کیونکہ اسلام میں ظلم اور جبر کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے سب پر ان کے منفی اور مثبت پہلوئوں اور اثرات، ارتقاء و ابتدا اور دیگر انسانی امکانات کے حوالوں سے بحث ممکن ہو گی۔ یوں نصابی تنوع کا مسئلہ پیدا نہیں گا۔
کتاب
نصابی کتب باقاعدہ طور پر مرتب شدہ مواد جو معلومات کی موثر ترسیل کے لئے اس لئے مرتب کی جائیں گی کہ اللہ تعالی کی ذات طلبہ کو Possess کر لے اور وہ اس اثر کے تحت اپنے ذمہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور علمی اور تکنیکی اختراع کا امکان بہتر کر پائیں۔ مجوزہ نصابی مقصدیت کے لئے موجودہ کتب کو صرف درست انداز میں مرتب کرنا ہو گا مثلا ً حرکت کے موضوع پر Research نیوٹن نے کی ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ حرکت کے تمام قوانین اللہ تعالی کے بنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں کرنا یہ ہے کہ جو چیز جس کی ہے اسی کے حوالے سے کتابوں میں بیان کر دینی ہے۔
تعلیم
تعلیم دراصل تفویض علم کا ایک ایسا منظم عمل ہو گا جس کا مقصد طالب ِ علم کو کائنات میں اللہ تعالی کی علمی اور تکنیکی دسترس سے متاثر کرتے ہوئے اسے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہترین ادائیگی کے ساتھ ساتھ علم اور تکنیک میں اختراع کی خا طر تیار کرنا ہے۔
مخلوط طرز تعلیم
اسلام کی عمومی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ اسلام حتی الوسع مخلوط طرزِ تعلیم کے خلاف ہے، مگر کسی اشد ضرورت کے تحت اگر محتاط انداز میں تمام ممکنہ احتیاطیں برت کر ایسا ہو تو کوئی ہرج بھی نہیں ہے مگر اشد ضرورت نہ ہونے پر مخلوط طرزِ تعلیم سے اجتناب ہی کیا جائے۔
اوپر دی گئی تجاویز سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارا نظام ِ تعلیم صحیح اسلامی خطوط پر استوار ہو گا۔ سکول اور مدرسہ میں مادی اشیاء کے علم کی کتابیں ایک جیسی ہو جائیں گی یوں کم از کم اس ایک حوالے سے مدرسے اور سکول ایک ہو جائیں گے۔
farhatalibaig431@yahoo.com