سیلاب کا بیانیہ
وزیراعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء اعلیٰ اور صوبائی وزراء کوسب سے پہلے تو اپنے قیمتی سوٹ سیلاب زدگان کودے دینے چاہئیں
پاکستان کی تہذیب دنیا کی قدیم تہذیب ہے۔ یہ تہذیب بلوچستان کے مقام مہرگڑھ سے شروع ہوئی ہے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کی تحقیق کے مطابق مہر گڑھ کے بعد موئنجو دڑو کی تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تہذیبوں کی تباہی کی وجوہات کو قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے سائنسی آلات کی ترقی نہ ہونا اور حملہ آوروں کا ان بستیوں کو تاراج کر دینا تھا۔ ایک زمانہ میں زلزلے تباہی لاتے تھے۔ اس خطے کے لوگوں نے زلزلوں کو اپنے سردار کی ناراضی سے تعبیر کیا تھا ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان آفات کو قدرت کی سزا قرار دیا گیا۔
اس تصور کو پھیلانے میں اس گروہ کا کردار تھا جو مذہبی رسومات پر اجارہ داری رکھتا تھا ۔ انگریز حکومت نے پنجاب میں نہری نظام کا نقشہ پھیلایا۔ نہروں کے ذریعہ دریاؤں میں طغیانی کے زور میں کمی آئی، اور زراعت کے پیشہ میں انقلاب برپا ہوا۔ ڈاکٹر عمران علی کی شہرئہ آفاق تحقیق "The Punjab under Imperialism (1885-1997)" میںبرطانوی ہند حکومت کے منصوبہ نہری نظام کے سیاسی مقصد کو عیاں کیا ہے۔اس تحقیق سے قطع نظر نہری نظام کے سیلابوں کی روک تھام کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اکیسویں صدی ایڈوانس سائنس کی صدی کہلائی جاتی ہے۔ اس دور میں ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈیم بننے سے پانی کے بڑے ذخیرے وجود میں آئے اور دریاؤں میں طغیانی سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں میں فرق آیا مگر گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں ہونے والی مختلف تحقیق سے پتہ چلا کہ ڈیم ماحولیات کی تباہی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ڈیموں سے پانی نہروں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس نظام کی دیکھ بھال نہ ہونے سے سیم و تھور نے قیمتی زرعی زمینوں کو بنجر کردیا۔ سمندر میں دریا کا میٹھا پانی نہ جانے یا اس کی مقدار کم ہونے سے سمندری حیات کی افزائش رک گئی۔
بارشوں اور سیلابوں کے دوران سمندر کے پانی نے کناروں سے نکل کر بستیوں کو نقصان پہنچانا شروع کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خطہ بارشوں اور سیلابوں کا مرکز رہا ہے۔ ممتاز صحافی حمید اختر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ 50ء کی دہائی میں سیلابی پانی سے پورا لاہور ڈوب گیا تھا۔ حمید اختر کی ایک ہمشیرہ لاہور کے علاقہ کرشن نگر میں رہتی تھی۔ حمید اختر کو کئی دن تک ہمشیرہ کی اطلاع نہ مل سکی تو ترقی پسند ادیب سبط حسن جو لکھنوی تھے اور طالب علمی کے زمانہ میں اچھے تیراک کہلاتے تھے، پانی میں تیرتے ہوئے حمید اختر کی ہمشیرہ کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور پھر واپس بھی پہنچ گئے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چاروں صوبے کے بیشتر علاقے مسلسل بارش اور سیلابوں سے متاثر ہیں۔ ابھی تک لگائے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر شہر اور گاؤں سیلاب کی زد میں ہیں۔ خیبر پختون خوا میں ڈیرہ اسماعیل خان اور اطراف کے علاقے اور دیہات سیلاب کی زد میں ہیں۔
پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور دیگر ملحقہ اضلاع پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کچی عمارتیں بارش کا پانی ساتھ لے گیا۔ مال مویشی غریب کسان کا واحد اثاثہ ہوتے ہیں جو مرگئے ہیں۔ سندھ میں تباہی کے مناظر زیادہ خوفناک ہیں۔ سندھ میں گھوٹکی ، لاڑکانہ ، سکھر ، بے نظیر آباد اور حیدرآباد ڈویژن میں پانی ہی پانی ہے۔ سندھ میں ایک ماہ سے بارشیں ہورہی ہیں۔ شہروں میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیوریج کا نظام پہلے ہی ناقص تھا ، اب سندھ کے بڑے شہر سکھر ، لاڑکانہ اور حیدر آباد کی سڑکوں پر پانی جمع ہے۔ اس پانی پر ڈنگی، ملیریا اور دست کی بیماریوں کے جراثیم پرواز کرتے ہیں۔
اس سال سب سے زیادہ تباہی بلوچستان میں آئی ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، پٹ فیڈر، خضدار اور لسبیلہ ڈویژن میں سب سے زیادہ خوفناک تباہی مچی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں سب سے بڑی سڑک کوئٹہ کراچی ہائی وے ہے جو دو رویہ اور بقول ایک صحافی اس شاہراہ پر حادثہ نہ ہونا معجزہ سے کم نہیں ہوتا۔ یہ سڑک حکومت کے دعوؤں کے باوجود ٹریفک کے استعمال کے قابل نہیں ہے۔ حکومت نے ایک دفعہ پھر اس سڑک کو بند کیا ہے۔ بلوچستان میں شہر سے ملنے والی پکی سڑکیں موجود نہیں ہیں۔
گاؤں گوٹھ جانے کے راستے ہمیشہ ہی سے مخدوش تھے، اب یہ راستے مکمل طور پر کیچڑ اور ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے استاد مارکسی دانشور ڈاکٹر ریاض احمد نے سب سے پہلے بلوچستان کے سیلاب زدگان کے لیے مہم چلائی۔ معروف سماجی کارکن فیصل ایدھی نے اس امدادی سامان کو دور دراز گوٹھ پہنچانے کا ہدف پورا کیا۔ بلوچستان کے ایک ضلع کے اسسٹنٹ کمشنر نے ٹیلی فون پر ڈاکٹر ریاض سے استدعا کی کہ ان کچے راستوں کو کارآمد بنانے کے لیے ٹریلر اور ہیوی ڈیوٹی بلڈوزر کی ضرورت ہے مگر بلڈوزر کے ڈیزل کے لیے فنڈز موجود نہیں ہیں۔
حکومت بلوچستان ان میں ڈیزل ڈلوانے کے لیے فنڈز کسی اور مقاصد کے لیے استعمال کرچکی ہے۔ بلوچستان میں ہر سڑک کی تعمیر اور مرمت کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس اتنی معمولی باتوں پر توجہ دینے کے لیے وقت نہیں۔ ڈیرہ جمالی کی گیس فیلڈ بگٹی کے علاقے میں ہے۔ غلام رسول ، بلوچ قوم کی بگٹی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اور محکمہ سوئی گیس میں ملازم ہیں۔ ا ن کے پانچ سالہ بچہ لعل کو 10دن سے بخار ہے۔ کمپنی کے ڈاکٹر نے اس بچہ کو کراچی ریفر کیا۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق 5سالہ لعل ٹائی فائیڈ میں مبتلا ہے۔
غلام رسول نے بتایا کہ 15دن قبل ہر طرف بارش تھی۔ انسانوں اور جانوروں کے لیے سیاہ پانی دستیاب تھا۔ اس علاقہ میں ہزاروں بچے بیمار ہوئے۔ لعل خوش قسمت ہیں کہ سوئی کمپنی نے علاج کرایا مگر واپسی پر پھر وہی پانی ان کے لیے دستیاب ہے۔
ماحولیات کی تبدیلی اب معمول کی بات ہے۔ انسانوں نے قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے بہت تحقیق کی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قدرتی آفات غریب اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ حکومت کو سائنسدانوں کے مشورہ سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ مستقبل میں بارشوں سے کم سے کم نقصان ہو۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں جب سندھ اور پنجاب سیلابوں سے متاثر ہوئے اور کراچی ریل کے ذریعہ 15 دن تک لاہور سے کٹا رہا تو بھٹو صاحب نے خود امدادی کاموں کی کمانڈ سنبھال لی تھی۔
وہ لانگ بوٹ پہن کر اپنے ہیلی کوپٹر میں گاؤں گاؤں اور عام آدمی کے ساتھ کھڑے ہوگئے جسکی بنا پر امدادی سرگرمیاں تیز ہوئیں۔ بھٹو صاحب نے اعلان کیا تھا کہ جہاں پانی جائے گا ، وہاں وہ اس سے پہلے وہاں پہنچیں گے۔ سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ کہتے ہیں کہ ٹھٹھہ میں سیلابی پانی کو روکنے کے لیے پشتہ کی تعمیر کے لیے بھٹو صاحب نے دو دن چارپائی پر گزارے۔ وفاقی حکومت نے ایسی ہی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے این ڈی ایم اے کا ادارہ قائم کیا مگر یہ ادارہ سفید ہاتھی بن گیا ہے۔ حکومت نے تباہی کے پندرہ دن بعد ایمرجنسی ڈیکلیئر کی۔
یہ ایمرجنسی پہلے ڈیکلیئر ہونی چاہیے تھی۔ وزیر اعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء اعلیٰ اور صوبائی وزراء کو سب سے پہلے تو اپنے قیمتی سوٹ سیلاب زدگان کو دے دینے چاہئیں۔ وزیر اعظم محض غریبوں کو دلاسہ دینے کے بجائے گندے پانی کے جوہڑ میں اتر جائیں اور تمام وزراء وزیر اعظم کی پیروی کریں تاکہ عوام الناس کو یہ احساس ہو کہ حکمراں ان کے ساتھ ہیں ، یوں حکومت ایک ایسا بیانیہ اختیار کرسکتی ہے جو عمران خان کے ہنگامہ آرائی کے بیانیہ کا توڑ ثابت ہوگا۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تہذیبوں کی تباہی کی وجوہات کو قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے سائنسی آلات کی ترقی نہ ہونا اور حملہ آوروں کا ان بستیوں کو تاراج کر دینا تھا۔ ایک زمانہ میں زلزلے تباہی لاتے تھے۔ اس خطے کے لوگوں نے زلزلوں کو اپنے سردار کی ناراضی سے تعبیر کیا تھا ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان آفات کو قدرت کی سزا قرار دیا گیا۔
اس تصور کو پھیلانے میں اس گروہ کا کردار تھا جو مذہبی رسومات پر اجارہ داری رکھتا تھا ۔ انگریز حکومت نے پنجاب میں نہری نظام کا نقشہ پھیلایا۔ نہروں کے ذریعہ دریاؤں میں طغیانی کے زور میں کمی آئی، اور زراعت کے پیشہ میں انقلاب برپا ہوا۔ ڈاکٹر عمران علی کی شہرئہ آفاق تحقیق "The Punjab under Imperialism (1885-1997)" میںبرطانوی ہند حکومت کے منصوبہ نہری نظام کے سیاسی مقصد کو عیاں کیا ہے۔اس تحقیق سے قطع نظر نہری نظام کے سیلابوں کی روک تھام کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اکیسویں صدی ایڈوانس سائنس کی صدی کہلائی جاتی ہے۔ اس دور میں ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈیم بننے سے پانی کے بڑے ذخیرے وجود میں آئے اور دریاؤں میں طغیانی سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں میں فرق آیا مگر گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں ہونے والی مختلف تحقیق سے پتہ چلا کہ ڈیم ماحولیات کی تباہی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ڈیموں سے پانی نہروں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس نظام کی دیکھ بھال نہ ہونے سے سیم و تھور نے قیمتی زرعی زمینوں کو بنجر کردیا۔ سمندر میں دریا کا میٹھا پانی نہ جانے یا اس کی مقدار کم ہونے سے سمندری حیات کی افزائش رک گئی۔
بارشوں اور سیلابوں کے دوران سمندر کے پانی نے کناروں سے نکل کر بستیوں کو نقصان پہنچانا شروع کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خطہ بارشوں اور سیلابوں کا مرکز رہا ہے۔ ممتاز صحافی حمید اختر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ 50ء کی دہائی میں سیلابی پانی سے پورا لاہور ڈوب گیا تھا۔ حمید اختر کی ایک ہمشیرہ لاہور کے علاقہ کرشن نگر میں رہتی تھی۔ حمید اختر کو کئی دن تک ہمشیرہ کی اطلاع نہ مل سکی تو ترقی پسند ادیب سبط حسن جو لکھنوی تھے اور طالب علمی کے زمانہ میں اچھے تیراک کہلاتے تھے، پانی میں تیرتے ہوئے حمید اختر کی ہمشیرہ کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور پھر واپس بھی پہنچ گئے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چاروں صوبے کے بیشتر علاقے مسلسل بارش اور سیلابوں سے متاثر ہیں۔ ابھی تک لگائے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر شہر اور گاؤں سیلاب کی زد میں ہیں۔ خیبر پختون خوا میں ڈیرہ اسماعیل خان اور اطراف کے علاقے اور دیہات سیلاب کی زد میں ہیں۔
پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور دیگر ملحقہ اضلاع پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کچی عمارتیں بارش کا پانی ساتھ لے گیا۔ مال مویشی غریب کسان کا واحد اثاثہ ہوتے ہیں جو مرگئے ہیں۔ سندھ میں تباہی کے مناظر زیادہ خوفناک ہیں۔ سندھ میں گھوٹکی ، لاڑکانہ ، سکھر ، بے نظیر آباد اور حیدرآباد ڈویژن میں پانی ہی پانی ہے۔ سندھ میں ایک ماہ سے بارشیں ہورہی ہیں۔ شہروں میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیوریج کا نظام پہلے ہی ناقص تھا ، اب سندھ کے بڑے شہر سکھر ، لاڑکانہ اور حیدر آباد کی سڑکوں پر پانی جمع ہے۔ اس پانی پر ڈنگی، ملیریا اور دست کی بیماریوں کے جراثیم پرواز کرتے ہیں۔
اس سال سب سے زیادہ تباہی بلوچستان میں آئی ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، پٹ فیڈر، خضدار اور لسبیلہ ڈویژن میں سب سے زیادہ خوفناک تباہی مچی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں سب سے بڑی سڑک کوئٹہ کراچی ہائی وے ہے جو دو رویہ اور بقول ایک صحافی اس شاہراہ پر حادثہ نہ ہونا معجزہ سے کم نہیں ہوتا۔ یہ سڑک حکومت کے دعوؤں کے باوجود ٹریفک کے استعمال کے قابل نہیں ہے۔ حکومت نے ایک دفعہ پھر اس سڑک کو بند کیا ہے۔ بلوچستان میں شہر سے ملنے والی پکی سڑکیں موجود نہیں ہیں۔
گاؤں گوٹھ جانے کے راستے ہمیشہ ہی سے مخدوش تھے، اب یہ راستے مکمل طور پر کیچڑ اور ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے استاد مارکسی دانشور ڈاکٹر ریاض احمد نے سب سے پہلے بلوچستان کے سیلاب زدگان کے لیے مہم چلائی۔ معروف سماجی کارکن فیصل ایدھی نے اس امدادی سامان کو دور دراز گوٹھ پہنچانے کا ہدف پورا کیا۔ بلوچستان کے ایک ضلع کے اسسٹنٹ کمشنر نے ٹیلی فون پر ڈاکٹر ریاض سے استدعا کی کہ ان کچے راستوں کو کارآمد بنانے کے لیے ٹریلر اور ہیوی ڈیوٹی بلڈوزر کی ضرورت ہے مگر بلڈوزر کے ڈیزل کے لیے فنڈز موجود نہیں ہیں۔
حکومت بلوچستان ان میں ڈیزل ڈلوانے کے لیے فنڈز کسی اور مقاصد کے لیے استعمال کرچکی ہے۔ بلوچستان میں ہر سڑک کی تعمیر اور مرمت کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس اتنی معمولی باتوں پر توجہ دینے کے لیے وقت نہیں۔ ڈیرہ جمالی کی گیس فیلڈ بگٹی کے علاقے میں ہے۔ غلام رسول ، بلوچ قوم کی بگٹی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اور محکمہ سوئی گیس میں ملازم ہیں۔ ا ن کے پانچ سالہ بچہ لعل کو 10دن سے بخار ہے۔ کمپنی کے ڈاکٹر نے اس بچہ کو کراچی ریفر کیا۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق 5سالہ لعل ٹائی فائیڈ میں مبتلا ہے۔
غلام رسول نے بتایا کہ 15دن قبل ہر طرف بارش تھی۔ انسانوں اور جانوروں کے لیے سیاہ پانی دستیاب تھا۔ اس علاقہ میں ہزاروں بچے بیمار ہوئے۔ لعل خوش قسمت ہیں کہ سوئی کمپنی نے علاج کرایا مگر واپسی پر پھر وہی پانی ان کے لیے دستیاب ہے۔
ماحولیات کی تبدیلی اب معمول کی بات ہے۔ انسانوں نے قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے بہت تحقیق کی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قدرتی آفات غریب اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ حکومت کو سائنسدانوں کے مشورہ سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ مستقبل میں بارشوں سے کم سے کم نقصان ہو۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں جب سندھ اور پنجاب سیلابوں سے متاثر ہوئے اور کراچی ریل کے ذریعہ 15 دن تک لاہور سے کٹا رہا تو بھٹو صاحب نے خود امدادی کاموں کی کمانڈ سنبھال لی تھی۔
وہ لانگ بوٹ پہن کر اپنے ہیلی کوپٹر میں گاؤں گاؤں اور عام آدمی کے ساتھ کھڑے ہوگئے جسکی بنا پر امدادی سرگرمیاں تیز ہوئیں۔ بھٹو صاحب نے اعلان کیا تھا کہ جہاں پانی جائے گا ، وہاں وہ اس سے پہلے وہاں پہنچیں گے۔ سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ کہتے ہیں کہ ٹھٹھہ میں سیلابی پانی کو روکنے کے لیے پشتہ کی تعمیر کے لیے بھٹو صاحب نے دو دن چارپائی پر گزارے۔ وفاقی حکومت نے ایسی ہی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے این ڈی ایم اے کا ادارہ قائم کیا مگر یہ ادارہ سفید ہاتھی بن گیا ہے۔ حکومت نے تباہی کے پندرہ دن بعد ایمرجنسی ڈیکلیئر کی۔
یہ ایمرجنسی پہلے ڈیکلیئر ہونی چاہیے تھی۔ وزیر اعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء اعلیٰ اور صوبائی وزراء کو سب سے پہلے تو اپنے قیمتی سوٹ سیلاب زدگان کو دے دینے چاہئیں۔ وزیر اعظم محض غریبوں کو دلاسہ دینے کے بجائے گندے پانی کے جوہڑ میں اتر جائیں اور تمام وزراء وزیر اعظم کی پیروی کریں تاکہ عوام الناس کو یہ احساس ہو کہ حکمراں ان کے ساتھ ہیں ، یوں حکومت ایک ایسا بیانیہ اختیار کرسکتی ہے جو عمران خان کے ہنگامہ آرائی کے بیانیہ کا توڑ ثابت ہوگا۔