آمریت یا جمہوریت

پاکستان کو ایک تماشا بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اگر یہ لوگ پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے تو اس کے خیرخواہ ہوتے

nasim.anjum27@gmail.com

آج جو حالات ہمارے سامنے ہیں، ان کی نشوونما کے لیے خاص لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ مغرب میں تو ایسا ہی ہوتا ہے ، برسوں پہلے منصوبہ بندی کر لی جاتی ہے، پھر اچانک دھماکا کردیا جاتا ہے۔ کبھی خوشگوار تبدیلی کے ساتھ تو کبھی مسلم ممالک کو تہ و بالا کرکے لوگوں کو ہراساں کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔

قانون کی پاس داری اپنے ملک کے علاوہ ہر جگہ نظر آتی ہے، غریب و امیر یا طاقتور کے لیے دو قانون ہرگز نہیں ہوتے ہیں، ہمارے ملک میں ہزاروں بے قصور جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر سزا کاٹنے پر مجبور ہیں اور جو قاتل، چور، ڈاکو، اغوا کنندگان ہیں انھیں باعزت رہا کردیا جاتا ہے۔ 100، 100 لوگوں کے قاتل کو بھی رہائی کا پروانہ دینے کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی جاتی ہیں۔

آج کل عورت کے احترام کی بات کی جا رہی ہے، اس کی وجہ وہ بااثر اور بڑے عہدوں پر براجمان ہیں لیکن اسی ملک میں عورت کا بھرپور طریقے سے استحصال کرنا، اغوا کرنا، قتل کرنا، اس کی لاش کے ٹکڑے کرکے پھینک دینا، برہنہ لاش کو کتوں کے آگے ڈالنا ، ایسی وارداتیں اور بھیانک جرائم سامنے آتے ہیں کہ صاحبان دل تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔

اس وقت قانون عدالتیں اور پولیس اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتی ہے جس کی رو سے قاتل کو چوراہے پر لٹکا دیا جائے اسے عبرت ناک موت دی جائے۔ یہ تضاد ایک اسلامی ریاست میں کیوں کر جائز ہے۔ آج بھی نور مقدم کا قاتل اپنے انجام کو نہیں پہنچا اور بھی بے شمار واقعات ہیں۔

ہمارے ہاں اسلامی قوانین پر عمل تو دورکی بات ہے معاشرتی اقدارکا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔ نشہ دولت کا ہو، شہرت کا ہو یا اقتدار کا انسان کو اندھا کر دیتا ہے وہ اپنے اس انجام کو بھول کر جو مکافات عمل کی شکل میں اس کا پیچھا کرتا ہے (اور اللہ کا عذاب نازل ہوکر رہتا ہے) تعیشات زندگی کے مزے لوٹتا ہے ، طاقت کے بل پر ایسے ایسے احکامات صادر کرتا ہے جس کے تحت رعایا اپنے آپ کو بے بس پاتی ہے۔

یہ ملک پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے اس کے پرکھوں کی قربانیوں کا ثمر ہے، جس ملک کے لیے لاکھوں مسلمان شہید ہوئے اپنے بھرے پرے گھروں کو چھوڑ کر خالی ہاتھوں اپنے آزاد وطن کے لیے روانہ ہوگئے، لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ تعمیر وطن کے معماروں کو چین و سکھ سے محروم کردیا گیا۔

آج مہنگائی آسمان تک پہنچ چکی ہے، بجلی کے بل آسمانی بجلی میں بدل کر عوام پر گرے ہیں ، ان کا سب کچھ خاکستر ہوگیا لیکن حکومت کو ذرہ برابر پرواہ نہیں۔ غیر ملکی دورے کرنا صاحب اقتدار اپنا حق سمجھتے ہیں، ساتھ میں اپنے چاہنے والوں کو بھی لے جاتے ہیں۔ یہ پیسہ عوام کا ہے، دکھ جھیلیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں، غریب اور متوسط طبقے کی تنخواہ یا اجرت ہوتی ہی کتنی ہے؟

اس کا شکم بھوکا اور اس کے بچے تعلیم سے محروم رہتے ہیں، بہت سے سفید پوش سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں، یہ عزت دار مساجد کے دروازوں یا فٹ پاتھ پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ حکومت کیا سوچ کر مہنگائی کر رہی ہے؟ ماہانہ تنخواہ میں اضافہ اور روزگار کے مواقع مہیا کیے بغیر گرانی صبح و شام انسانوں کے تن من کو سیاہ ناگ کی طرح ڈس رہی ہے۔

ایک طرف مہنگائی کی دیمک نے جسم کو کھوکھلا کردیا ہے تو دوسری طرف سیاسی بحران اور الزامات، پکڑ دھکڑ نے بہت سے گھروں کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا ہے، انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے اگر تعلیم کو عام اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دینے کے بجائے کتابیں اور اخلاقیات و تہذیب کا درس دینے کا اہتمام کیا جاتا تو یہ نوجوان سوشل میڈیا پر اپنا قیمتی وقت اور سنہرا مستقبل کیونکر برباد کرتے؟ اور وڈیروں، زمینداروں کی خدمت کرنے، ان کے جوتے کھانے اور ان کی جیلوں میں قید نہیں کیے جاتے اور نہ ہی سہولت کار کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوتے۔


وہ بھی انسان ہیں ان کے بھی حقوق ہیں لیکن نوکر شاہی سسٹم نے انھیں جانور سے بدتر سمجھ کر ان پر بدترین ظلم کیا ہے۔ مدارس اور اسکولوں کو اسی لیے بند کروایا گیا کہ ہاری اور کسان کے بچے علم حاصل کرکے آگہی کی دولت سے مالا مال نہ ہو جائیں اور ہماری برابری پر اتر آئیں۔

امرا اور طاقتور جو چاہیں وہ کریں انھیں کوئی روکنے والا نہیں؟ وہ قانون سے بالاتر ہیں، ہزاروں لوگ اپنی اولادوں کے قتل پر واویلا کر رہے ہیں۔ مقتول کو سزائیں دلانے کے در پر ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوتی ہے، شنوائی ہوتی ہے تو مقتدر حضرات کی، جو شرفا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانوں کو ظلم کی بھٹی میں جھونک کر پوری دنیا کو تماشا دکھاتے اور ملک کو بدنام کرتے ہیں۔

کاش صاحب ثروت اور بااختیار کہلانے والے اپنے کرتوتوں پر بھی غور کریں۔ کتنے لوگوں کو وہ قتل کرچکے ہیں اور بے شمار لوگوں کی زمینوں و جائیدادوں پر قبضہ اور ان کے گھروں کے مکینوں کو بے دخل کرکے اپنی مرضی کا فیصلہ محض دولت کی بنا پر حاصل کرلیتے ہیں پاکستان کا ہر ادارہ ناانصافی اور بددیانتی کا پیامبر ہے، آج پوری دنیا محو تماشا ہے کہ یہ ایک اسلامی ملک اور اس کی حکومت ہے۔

اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے پاکستانی عوام کو ایک ایسا لیڈر عمران خان کی شکل میں نصیب کیا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، شہرت، عزت اور دولت سے مالا مال ہے اور سب سے بڑی بات اپنے لوگوں اور اپنے ملک کا خیرخواہ، وطن عزیز کی ترقی میں پیش پیش۔ آج پوری دنیا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔

پاکستان کو ایک تماشا بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اگر یہ لوگ پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے تو اس کے خیرخواہ ہوتے۔ جب کوئی برا وقت پڑتا ہے تو وہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور وہیں پرسکون زندگی بسر کرتے ہیں۔ آخر ایسے شخص پر دہشت گردی کا مقدمہ کیوں کر بن سکتا تھا؟ جن پر پہلے مقدمات ہیں ان کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان کو مات دے دی جائے اور ساری عمر اور نسل در نسل وہی حکومت کریں ۔ بقول علامہ اقبال:

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے

قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
Load Next Story