آہ کامریڈ زبیر رحمن مزدور سیاست کا ایک بڑا نام

یہ نوجوان مشرقی پاکستان بعد ازاں بنگلہ دیش کا نام اختیار کرنے والے ملک سے آیا تھا

یہ 1973 کا زمانہ تھا ، جب ایک 25 سالہ نوجوان کراچی میں وارد ہوا ، یہ نوجوان مشرقی پاکستان بعد ازاں بنگلہ دیش کا نام اختیار کرنے والے ملک سے آیا تھا۔ دراز قامت ، خوبصورت آنکھوں والے اس نوجوان کا نام سید زبیر رحمن تھا۔

اس نوجوان نے 1948 غازی پور، اتر پردیش بھارت میں جنم لیا تھا ، والد سید خاندان سے تعلق رکھنے کے باعث روحانیت پر مکمل یقین رکھتے تھے اور لوگوں کا روحانی علاج بھی کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے ہزاروں مریدین بھی تھے۔ اس نوجوان نے اپنے تمام تر تعلیمی مراحل اس وقت کے مشرقی پاکستان ہی میں طے کیے تھے۔

بہرکیف کراچی آمد کا مقصد اس نوجوان کا یہ تھا کہ اب یہ کراچی میں ہی مستقل قیام کرے گا۔ اس نوجوان کو نامور ترقی پسند رہنما ڈاکٹر اعزاز نذیر کی تلاش تھی ، جن کے بارے میں یہ فقط اتنی ہی معلومات رکھتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب ایک مکمل صحت مند جسم کے مالک ہیں اور دیکھنے میں افریقی معلوم ہوتے ہیں۔ اس نوجوان کی محنت رنگ لائی اور یہ ان کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

کراچی آمد سے قبل گویا زمانہ طالب علمی ہی سے یہ نوجوان ترقی پسند نظریات سے مکمل آگاہی حاصل کرچکا تھا۔ چنانچہ کراچی آ کر اس نوجوان نے وقت ضایع کیے بنا مزدور سیاست کا آغاز کردیا۔ یہ کراچی کی مزدور بستیوں میں جاتے اور مزدوروں کی نظریاتی تربیت کرتے۔ انھوں نے مختلف علاقوں میں اسٹڈی سرکل بھی قائم کیے۔ یوں سید زبیر رحمن اب مزدوروں میں مقبول ہوچکے تھے۔ زبیر رحمن نے کالعدم کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں بھی شمولیت اختیار کر لی تھی۔

میری اولین ملاقات زبیر رحمن سے ایم آرڈی تحریک بحالی جمہوریت کے دور میں ہوئی ، وہ آمر جنرل ضیا الحق کی آمریت کا بدترین دور تھا، زبیر رحمن اس تحریک میں پیش پیش تھے اور انھوں نے لانڈھی میں داؤد چورنگی کے مقام پرگرفتاری بھی پیش کی تھی جہاں انھیں جلوس کی شکل میں شدید نعرے بازی کے دوران لایا گیا تھا۔ زبیر رحمن اپنی سیاسی زندگی میں تین بار گرفتار ہوئے اور رہائی کے بعد دوبارہ اسی جذبے سے سرشار ہو کر اپنے سیاسی امور انجام دیتے ، وہ مالی طور پر مستحکم نہ تھے۔

اس کے باوجود جب بھی کسی جگہ احتجاجی مظاہرے کے لیے جمع ہوتے تو ہم ان سے فرمائش کرتے کہ کامریڈ چائے پینی ہے تو ضرور ہماری فرمائش پوری کرتے۔ بلاشبہ زبیر رحمن ہمارے سینئر تھے عمر میں، سیاست میں بھی اور کالم نگاری میں بھی۔ زبیر رحمن ہر ایک جدوجہد میں پیش پیش ہوتے۔

چنانچہ جب 10 مارچ 1987 کو نامور ترقی پسند رہنما جام ساقی کو رہائی کے بعد مولوی عثمان پارک میں ایک جلسہ عام کی شکل میں استقبالیہ دیا گیا تو زبیر رحمن کئی روز قبل ہی اس جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے وہ مزدور بستیوں میں جا کر مزدور ساتھیوں کو اس جلسے میں جانے کے لیے متحرک کرتے رہے، یوں ان کی و دیگر بہت سارے لوگوں کی محنت رنگ لائی اور جلسہ بے حد کامیاب رہا اور وہ جلسہ ایک مثال بن گیا۔


زبیر رحمن کی عادت تھی کہ وہ ایک ڈائری ہمہ وقت اپنے پاس رکھتے تھے، وہ ایک خوش اخلاق انسان تھے ہر ایک سے ملنساری سے پیش آتے۔ انھوں نے کافی تاخیر سے شادی کی کوئی 48 برس کی عمر میں۔ یہاں بھی انھوں نے نظریات کو ترجیح دی اور شادی کے انتخابات میں نامور ترقی پسند رہنما سائیں عزیز اللہ کی صاحب زادی تارا کا انتخاب کیا۔

میں کوئی دو بار زبیر رحمن سے ملاقات کے لیے ان کے گھر شاہ فیصل کالونی گیا تو تارا نے ہمیں ایک بھائی کا ہی درجہ دیا اور ہر قسم کی کھانے پینے میں خاطر مدارت کی۔ یوں بھی تارا باجی ترقی پسند نظریات سے تو مکمل آگاہ ہیں ہی البتہ وہ لذیز کھانے تیار کرنے میں مکمل مہارت رکھتی ہیں جب کہ زبیر رحمن کی اکلوتی اولاد ان کی ایک بیٹی روزا ہے۔ یہ نوجوان ہونے کے باوجود ترقی پسند نظریات سے مکمل روشناس ہے۔

کیوں نہ ہو جب کہ اس کے نانا سائیں عزیز اللہ ہوں، والد زبیر رحمن ہوں، ماں تارا خاتون ہوں تو اس بچی روزا کا ترقی پسند نظریات پر مکمل عبور ہونا حیرت کی بات نہیں۔ زبیر رحمن اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنے کے قائل نہ تھے اور جہاں اصول کی بات ہوتی وہ اپنے موقف پر قائم رہتے۔

یہی وجہ تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پارٹی قیادت سے اختلاف کے باعث انھوں نے پارٹی چھوڑ دی۔ البتہ 2017 میں انھوں نے دوبارہ سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی، اس سلسلے میں انھوں نے بنگلہ دیش کا دورہ بھی کیا۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ میں دوبارہ سے کمیونسٹ پارٹی میں پھر سے شمولیت اختیار کرلوں لیکن میرا موقف دو ٹوک تھا کہ میں دوبارہ کمیونسٹ پارٹی میں شرکت نہیں کرسکتا کیونکہ میں 2016 میں پارٹی قیادت کے رویے کے باعث پارٹی چھوڑ چکا ہوں، پھر جب میں نے پارٹی چھوڑنے کی وجوہات ان کے گوش گزار کیں تو انھوں نے میرے موقف کو درست قرار دیا۔

زبیر رحمن کی کالم نگاری کا اگر تذکرہ کیا جائے تو وہ 1998 میں جب سے روزنامہ ایکسپریس کا اجرا ہوا تو انھوں نے کالم نگاری کا آغاز کیا اور پھر تا دم مرگ کالم لکھتے رہے، تحقیق کے بعد لکھنے کے قائل تھے۔ ان کے کالم معلوماتی ہوتے اور قارئین بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے جیسے کہ راقم نے سطور بالا میں ذکر کیا کہ زبیر رحمن ہر معاملے میں میرے سینئر تھے۔

عمر میں سیاست میں اور کالم نگاری میں بھی وہ میرے سینئر تھے، ہر ایک سیاسی جدوجہد میں ہم نے ان کی زیر قیادت ہی حصہ لیا۔ زبیر رحمن کی یہ خوبی ہر دور میں رہی ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد میں آگے آگے ہوتے اور مکمل حد تک ساتھیوں کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کرتے۔ وہ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ترجمان ''یونین نیوز'' سے بھی پانچ برس قبل وابستہ ہوگئے تھے۔

یہاں بھی ان کا ساتھ تاحیات رہا چونکہ ہم دونوں یونین نیوز کے ایڈیٹوریل میں بھی شامل تھے گوکہ میں اب بھی شامل ہوں تو یوں زبیر رحمن سے ہماری ملاقات نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے آفس میں اکثر ہوتی۔ ان کی گفتگو بڑی مدلل ہوتی۔ تحریر کے ساتھ ساتھ وہ تقریر میں بھی ماہر تھے اور اپنے زور خطابت کے خوب جوہر دکھاتے۔ ذاتی حیثیت میں اگر بات کروں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک بڑے قریبی دوست و بھائی سے محروم ہوگیا ہوں۔

بہرکیف راقم نے ان کی چند یادوں کا ہی ذکر کیا ہے۔ خداوند کریم سے دعا گو ہوں کہ ان کی شریک حیات تارا باجی، بیٹی روزا و ان کے تمام قریبی احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ بلاشبہ زبیر رحمن کا یوں کوچ کرجانا بڑا صدمہ و نقصان ہے۔
Load Next Story