مسائل کو حل کیجیے بڑھائیے نہیں
ورثے میں ملے اس برطانوی نوآبادیاتی مزاج کو بدلنا ہوگا، آقائی مزاج والے اس رویے کو بدلنا ہوگا
جب مشرقی پاکستان کا سقوط ہو رہا تھا ، اسی وقت قدرتی آفات نے بھی تباہی مچائی ہوئی تھی، سائیکلون نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا تھا اور لاکھوں اپنی جان سے گئے تھے۔ مشرقی پاکستان میں 12 نومبر 1970 کو ایک سائیکلون ٹکرایا۔ اس نے آٹھ ہزار مربع میل کے علاقے پر تباہی مچائی۔ یہ اس علاقے میں صدیوں بعد آنے والی اتنی بڑی قدرتی آفت تھی۔
ڈھائی لاکھ لوگ اس میں لقمہ اجل بنے۔ یحییٰ خان اس وقت چین کے دورے پر تھے۔ طوفان سے دو روز بعد بیجنگ سے ڈھاکا پہنچے، رات بھر رہے اور گزشتہ روز مغربی پاکستان چلے گئے۔ اس سائیکلون کا شکار بننے والوں سے عدم توجہی ایک بڑا سیاسی ایشو بنی۔ ڈھاکا میں اپوزیشن کے اخبارات نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ نہ صرف وہ مدد نہیں کر رہی بلکہ عالمی ریلیف ایجنسیوں کی کوششوں میں بھی خلل ڈال رہی ہے۔ یہی کچھ صورتحال آج کل بلوچستان کی ہے۔
ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مقدمات اور گرفتاریوں کا کھیل چل رہا ہے ، اس کے نتیجے میں میڈیا میں بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے 34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں 18 اگست تک 225 اموات ہو چکی تھیں۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے کے علاوہ ایم ایٹ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہے۔ سیلاب اور متوقع بارشوں کے پیش نظر بلوچستان بھر میں ایک ہفتے کے لیے تعلیمی اداروں میں 27 اگست تک تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں سیلاب سے نقصان پہنچنے والے انفرا اسٹرکچر کی بات کریں تو قدرتی آفات کے ادارے کے مطابق 26 ہزار مکانات، 710 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 18 پل اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔ حکام کے مطابق نصیر آباد کے علاقے ربی میں قومی شاہراہ مکمل طور پر زیر آب ہے اور کوئٹہ کا زمینی راستہ سکھر قومی شاہراہ سے منقطع ہے۔
صوبہ بلوچستان میں مون سون کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ کوہ سلیمان سے ملحقہ علاقوں میں مسلسل آٹھ سے 10 گھنٹے تک طوفانی بارش نے موسیٰ خیل، بارکھان اور کوہلو کے اضلاع کو متاثر کیا ہے۔ بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی بحالی کے لیے کم از کم 35 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بارش ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل یاسر دشتی نے بتایا کہ سلیمان پہاڑی سلسلے میں گزشتہ روز آٹھ سے 10 گھنٹے مسلسل اور طوفانی بارش ہوئی جس کی وجہ سے پہاڑوں سے آنے والے پانی نے ریلوں کی شکل میں آبادیوں کا رخ کرلیا ، لیکن حکومت اور اپوزیشن آپس میں برسر پیکار ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی فلاحی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب اس طوفانی بارش کے باوجود بلوچستان میں دہشت گرد عناصر سرگرم ہیں اور مختلف قوم پرست جماعتیں ان شورش پسند عناصر کے ساتھ ہیں۔ شورش پسند سیکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دینا چاہتے۔
بلوچستان میں بھارت نے قیام پاکستان کے بعد سے یہاں تنازعات کی بنیاد رکھ دی تھی ۔ غلام محمد سے لے کر آج تک سب نے ہی اس جلتی پر تیل ڈالا ہے اور اس بھڑکتی آگ کو بجھنے نہیں دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان حقوق بلوچستان پیکیج دینا چاہا لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ تمام سول اور غیر سول ادوار میں جنرل ضیاء الحق کا دور بلوچستان کے لیے امن کا دور رہا ، جب وہ برسر اقتدار آئے تو انھوں نے بلوچستان میں جاری آپریشن ختم کردیا اور وہاں عام معافی کا اعلان کردیا لیکن بلوچستان کی فلاح کا کوئی بڑا منصوبہ انھوں نے بھی نہیں شروع کیا۔
جنرل (ر) رحیم الدین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، وہ 1978 سے 1984 تک گورنر بلوچستان رہے ، ان کی گورنری کا دور طویل ترین تھا۔ انھوں نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر کے صوبے میں آپریشن بند کیے۔ فراری باغیوں کے پاس جا کر متاثرین کے لیے معاوضوں کا اعلان کیا اور 1980 تک بغاوت کو کچلنے میں جنرل رحیم کامیاب ہوگئے۔ آج بھی ایسی ہی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
جنگ اور آپریشن سے معاملات خراب ہی ہوتے ہیں ۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ مقامی آبادی کا اعتماد حاصل ہو، اس کے لیے مقامی افراد کی بھرتی مصلحت کا تقاضا ہے۔ ہماری یہ تجویز بھی ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی نگرانی کے لیے اہل مکران کو تربیت دے کر بھرتی کیا جائے وہ سمندر سے خوب واقف ہیں ، سمندر ان کا دوست ہے وہ اس کے مزاج اور موڈ سے خوب واقف ہیں، وہ زیر آب ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بروقت بھانپ لیتے ہیں اگر انھیں بھرتی کا موقع دیا جائے گا تو انھیں بھی مادر وطن کی حفاظت کا موقع ملے گا۔
بلوچستان اور دیگر صوبوں میں احساس محرومی بڑھتا ہے، دوسری جانب غیر ملکی نشریاتی ادارے اس احساس محرومی کو دشمنی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ورثے میں ملے اس برطانوی نوآبادیاتی مزاج کو بدلنا ہوگا، آقائی مزاج والے اس رویے کو بدلنا ہوگا اور بلوچستان بھر میں سڑکوں اور ریل کا نظام پھیلانا ہوگا وہاں کے تفریحی مقامات پر ہوٹلز اور ریسٹورنٹ بنانے ہوں گے اور اس کے لیے مقامی آبادی کو سرمایہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فراہم کریں ، تاکہ ان کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیاد مواقع ملیں ۔
ڈھائی لاکھ لوگ اس میں لقمہ اجل بنے۔ یحییٰ خان اس وقت چین کے دورے پر تھے۔ طوفان سے دو روز بعد بیجنگ سے ڈھاکا پہنچے، رات بھر رہے اور گزشتہ روز مغربی پاکستان چلے گئے۔ اس سائیکلون کا شکار بننے والوں سے عدم توجہی ایک بڑا سیاسی ایشو بنی۔ ڈھاکا میں اپوزیشن کے اخبارات نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ نہ صرف وہ مدد نہیں کر رہی بلکہ عالمی ریلیف ایجنسیوں کی کوششوں میں بھی خلل ڈال رہی ہے۔ یہی کچھ صورتحال آج کل بلوچستان کی ہے۔
ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مقدمات اور گرفتاریوں کا کھیل چل رہا ہے ، اس کے نتیجے میں میڈیا میں بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے 34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں 18 اگست تک 225 اموات ہو چکی تھیں۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے کے علاوہ ایم ایٹ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہے۔ سیلاب اور متوقع بارشوں کے پیش نظر بلوچستان بھر میں ایک ہفتے کے لیے تعلیمی اداروں میں 27 اگست تک تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں سیلاب سے نقصان پہنچنے والے انفرا اسٹرکچر کی بات کریں تو قدرتی آفات کے ادارے کے مطابق 26 ہزار مکانات، 710 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 18 پل اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔ حکام کے مطابق نصیر آباد کے علاقے ربی میں قومی شاہراہ مکمل طور پر زیر آب ہے اور کوئٹہ کا زمینی راستہ سکھر قومی شاہراہ سے منقطع ہے۔
صوبہ بلوچستان میں مون سون کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ کوہ سلیمان سے ملحقہ علاقوں میں مسلسل آٹھ سے 10 گھنٹے تک طوفانی بارش نے موسیٰ خیل، بارکھان اور کوہلو کے اضلاع کو متاثر کیا ہے۔ بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی بحالی کے لیے کم از کم 35 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بارش ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل یاسر دشتی نے بتایا کہ سلیمان پہاڑی سلسلے میں گزشتہ روز آٹھ سے 10 گھنٹے مسلسل اور طوفانی بارش ہوئی جس کی وجہ سے پہاڑوں سے آنے والے پانی نے ریلوں کی شکل میں آبادیوں کا رخ کرلیا ، لیکن حکومت اور اپوزیشن آپس میں برسر پیکار ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی فلاحی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب اس طوفانی بارش کے باوجود بلوچستان میں دہشت گرد عناصر سرگرم ہیں اور مختلف قوم پرست جماعتیں ان شورش پسند عناصر کے ساتھ ہیں۔ شورش پسند سیکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دینا چاہتے۔
بلوچستان میں بھارت نے قیام پاکستان کے بعد سے یہاں تنازعات کی بنیاد رکھ دی تھی ۔ غلام محمد سے لے کر آج تک سب نے ہی اس جلتی پر تیل ڈالا ہے اور اس بھڑکتی آگ کو بجھنے نہیں دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان حقوق بلوچستان پیکیج دینا چاہا لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ تمام سول اور غیر سول ادوار میں جنرل ضیاء الحق کا دور بلوچستان کے لیے امن کا دور رہا ، جب وہ برسر اقتدار آئے تو انھوں نے بلوچستان میں جاری آپریشن ختم کردیا اور وہاں عام معافی کا اعلان کردیا لیکن بلوچستان کی فلاح کا کوئی بڑا منصوبہ انھوں نے بھی نہیں شروع کیا۔
جنرل (ر) رحیم الدین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، وہ 1978 سے 1984 تک گورنر بلوچستان رہے ، ان کی گورنری کا دور طویل ترین تھا۔ انھوں نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر کے صوبے میں آپریشن بند کیے۔ فراری باغیوں کے پاس جا کر متاثرین کے لیے معاوضوں کا اعلان کیا اور 1980 تک بغاوت کو کچلنے میں جنرل رحیم کامیاب ہوگئے۔ آج بھی ایسی ہی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
جنگ اور آپریشن سے معاملات خراب ہی ہوتے ہیں ۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ مقامی آبادی کا اعتماد حاصل ہو، اس کے لیے مقامی افراد کی بھرتی مصلحت کا تقاضا ہے۔ ہماری یہ تجویز بھی ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی نگرانی کے لیے اہل مکران کو تربیت دے کر بھرتی کیا جائے وہ سمندر سے خوب واقف ہیں ، سمندر ان کا دوست ہے وہ اس کے مزاج اور موڈ سے خوب واقف ہیں، وہ زیر آب ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بروقت بھانپ لیتے ہیں اگر انھیں بھرتی کا موقع دیا جائے گا تو انھیں بھی مادر وطن کی حفاظت کا موقع ملے گا۔
بلوچستان اور دیگر صوبوں میں احساس محرومی بڑھتا ہے، دوسری جانب غیر ملکی نشریاتی ادارے اس احساس محرومی کو دشمنی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ورثے میں ملے اس برطانوی نوآبادیاتی مزاج کو بدلنا ہوگا، آقائی مزاج والے اس رویے کو بدلنا ہوگا اور بلوچستان بھر میں سڑکوں اور ریل کا نظام پھیلانا ہوگا وہاں کے تفریحی مقامات پر ہوٹلز اور ریسٹورنٹ بنانے ہوں گے اور اس کے لیے مقامی آبادی کو سرمایہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فراہم کریں ، تاکہ ان کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیاد مواقع ملیں ۔