
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا پس منظر بیان کرنے والی یہ سطور حال ہی میں شایع ہونے والے ناول '' اک راستہ ہے زندگی'' سے لی گئی ہیں جو ناول نگار رفیع مصطفیٰ نے ان گمنام افراد کے نام منسوب کیا ہے جو بنگلہ دیش کی آزادی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
دل تھام کے غورکیا جائے تو بنگلہ دیش کا قیام دراصل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی دو حصوں میں تقسیم کا حاصل تھا ، جس کے دوران غیر بنگالیوں کی بہت بڑی تعداد اس ہی نوعیت کے فسادات کا شکار ہوئی جس نوعیت کے فسادات ہندوستان کی تقسیم کے وقت رونما ہوئے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس دفعہ مسلمان ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے۔
فسادات کی نذر ہونے والے ان افراد میں مشرقی پاکستان کے شہر باریسال میں مقیم اس ناول کا ایک کردار غفار خان بھی تھا ، جو اپنی جان سے ہاتھ دھونے سے صرف دو سال قبل ہی اپنے بچھڑے ہوئے اکلوتے بھائی پیارے میاں سے 23 سال بعد ملا تھا۔ غفار خان قیام پاکستان سے قبل بچپن میں گھر سے بھاگ کر یو پی سے کلکتہ پہنچا تھا جہاں اس نے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد کے دوران بنگلہ زبان میں ایم اے کر لیا تھا جس کی بنا پر اسے پاکستان بن جانے کے بعد مشرقی پاکستان کے شہر باریسال میں سرکاری ملازمت مل گئی تھی۔ غفار خان کی اپنے جس بچھڑے ہوئے بھائی پیارے میاں سے ملاقات ہوئی تھی وہ مغربی پاکستان میں سندھ کے شہر حیدرآباد سے اسے ڈھونڈتے ہوئے پہنچا تھا۔
اس ناول کی کہانی انھی دو فسادات کے دوران یو پی کے ایک خاندان کے گرد گھومتی ہے جو امیر خسروکے شہر ایٹہ سے بڑی مشکل سے جان بچا کر اتفاقا حیدر آباد آپہنچا تھا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ناول نگار نے اپنے ناول میں اجڑے ہوئے خاندان کی پاکستان میں بقا کے لیے جدوجہدکا نقشہ تو بخوبی کھینچا ہے ہی لیکن اس سے قبل کئی نسلوں سے ایٹہ میں آباد متوسط طبقے کے ارد گرد یو پی کی ثقافت کی منظر کشی بھی اتنے عمدہ طریقے سے کی ہے کہ یو پی سے تعلق رکھنے والے اکثر خاندان ممکن ہے۔
اسے اپنی کہانی سمجھیں۔ ناول کا مرکزی کردار ترکِ وطن کرکے آنے والے خاندان کے سربراہ منو میاں ہیں جن کے ارد گرد گھومنے والے کرداروں میں ان کے بہنوئی پیارے میاں کا کردار اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے ذریعے ناول نگار نے بچوں کی تربیت کے لیے ان پر تشدد کے استعمال سے شخصیت پر رونما ہونے والے انتہائی نقصان دہ اثرات کی طرف توجہ دلائی ہے۔
یہ اثرات پیارے میاں پر ان کی شخصیت مسخ ہونے کی صورت میں اس تشدد کے باعث رونما ہوئے جو والد کے انتقال پر ان کے سرپرست تایا انھیں سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے ان پر کیا کرتے تھے۔ اس رویے کے سبب انھیں اپنے تایا سے نفرت سی ہوگئی تھی۔ ان کے بڑے بھائی غفار خان اس ہی سلوک سے عاجز آکر گیارہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگے تھے۔
شخصیت میں اتار چڑھاؤ کے سبب پیارے میاں کا غصہ اس قدر تیز ہوگیا تھا کہ پاکستان آنے سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے ایک انگریز کو اس کی بیوی کی موجودگی میں گردن مروڑ کر اس وقت ہلاک کردیا تھا جب وہ ان کے ساتھ حقارت آمیز انداز میں پیش آیا تھا۔ یہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ جب انگریز سے ان کا اتفاقا آمنا سامنا ہوا تھا تو اس کے پوچھنے پر انھوں نے اسے اپنا اصلی نام قہار خان بتایا تھا جو اس کی بیوی کو یاد رہ گیا تھا۔ چنانچہ پولیس ہر طرف قہار خاں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی جب کہ پیارے میاں کو دور دور تک سب لوگ صرف اس ہی نام سے جانتے تھے۔
اس دوران پاکستان بن گیا اور وہ یہاں آگئے۔ پیارے میاں کو اپنی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کے سبب معمول کی زندگی گزارنے میں شدید دشواریوں کا سامنا رہا۔ گاہے بگاہے ان کے اچانک گھر چھوڑ کر چلے جانے سے منو میاں کو بھی پریشانی رہی جن کی ہمشیرہ سے پیارے میاں کا رشتہ اس لیے ہوگیا تھا کہ ان کے والد پیارے میاں کے تایا کے دوست تھے ، لیکن بہرحال اپنا دکھ سمجھنے والوں کی کوششوں سے جن میں ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں پیارے میاں اپنی بگڑی ہوئی طبیعت کی سلوٹِیں دورکرنے میں کامیاب ہوگئے۔
انھوں نے اپنے تایا کو بھی نہ صرف معاف کردیا بلکہ انھیں حیدرآباد کے ایک محلے میں واقع اس جھونپڑی سے اٹھا کر گھر لے آئَے جہاں وہ بیماری میں مبتلا کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اپنی طبیعت کے پل صراط سے گزرکر یہاں تک پہنچنے میں پیارے میاں کو بیس سال لگے تھے۔ کہانی کے اس موڑ پر انھیں اپنے بڑے بھائی کا پتہ بھی اتفاقا مل گیا جن سے خط وکتابت کے بعد ان کا جوان بیٹا جب باریسال سے حیدرآباد آیا تو نئی نسل کے درمیان جنم لینے والی رومان اور رقابت کی کہانی نے ناول میں ایک اور چاشنی پیدا کردی۔
رقابت کا سبب ناول کے مرکزی کردار منو میاں کے جوان بیٹا تھا جو بچپن سے ہی اپنی پھوپھی زاد بہن کو پسند کرتا تھا۔ اس کشمکش میں بالاخر بچپن کی محبت کامیاب رہی۔ ہندوستان سے آنے والے اردو بولنے والوں کی نئی نسل کی کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ، اس ناول کا آغاز تقسیم ہند کے وقت رونما ہونے والے ان بھیانک فسادات کی یاد دلاتا ہے جن کے نتیجے میں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوئی تھی۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس پر اس زمانے میں کئی ناول لکھے گئے تھے جن میں سے قرۃ العین حیدرکا'' آگ کا دریا '' اور عبد اللہ حسین کا '' اداس نسلیں'' کلاسیکی درجہ رکھتے ہیں۔
اس دلخراش موضوع پر منٹو نے بھی بہت کچھ لکھا جن کے افسانوں کی گونج آج ستر سال بعد بھی ملک کے ادبی حلقوں میں گاہے بگاہے سنائی دیتی ہے ، لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کے وقت رونما ہونے والے اسی نوعیت کے ایک عظیم تر المیے پر جس نے پاکستان کا چہرہ ہی مسخ کردیا گنے چنے ناول ہی دکھائِی دیتے ہیں۔ ان میں طارق محمود کا ناول '' اللہ میگھ دے'' اور رضیہ فصیح احمد کا ناول ''صدیوں کی زنجیر'' قابل ذکر ہیں جو پچاس سال کی وسعت میں پھیلے ہوئے اس موضوع پر ادب کے وسیع و عریض قبرستان میں اکا دکا چراغوں کی طرح ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
المیہ صرف یہی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کی تقسیم کے نتیجے میں راتوں رات اپنے وطن کی شہریت سے محروم کر دیے جانے والے ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کے بارے میں جن کی تیسری نسل بنگلہ دیش میں ریڈ کراس کے کیمپوں میں جوان ہو رہی ہے شاید ہی کوئی قابل ذکر ادبی تحریر ملتی ہو۔ پاکستان پر جان چھڑکنے والے یہ چند لاکھ بے گھر اور بے وطن افراد کا کیا شمار یہاں تو بے حسی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان پر قربان ہونے والے ہندوستان کے ان بیس کروڑ مسلمانوں کا دکھ درد بانٹنے والا بھی کوئی نہیں جو وہاں دلتوں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ وہ راندہ درگاہ ہیں جن کے آباؤ اجداد تحریک پاکستان کے ہر اول دستے میں شامل تھے اور جنھیں یقین تھا کہ ایک مضبوط اور طاقتور پاکستان ان کے حقوق کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرسکے گا۔ اس تناظر میں رفیع مصطفی کا یہ ناول جس تک رسائی گوگل کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔