وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا

بلاشبہ وفاقی حکومت، پاک فوج کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے


Editorial August 29, 2022
بلاشبہ وفاقی حکومت، پاک فوج کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان سیلاب زدگان کے لیے 10 ارب جب کہ سندھ کے سیلاب متاثرین کے لیے 15 ارب روپے گرانٹ کا اعلان کر دیا ہے، انھوں نے گرانٹ کا اعلان بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ سیلاب کے علاقے ایسے ہیں جیسے چاروں طرف سمندر بہہ رہا ہے ، موجودہ سیلاب اور طوفانی بارشوں نے 2010 کے سیلاب کی تباہی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہمیں ہمت سے کام لینا ہوگا اور مل کر موجودہ صورتحال سے نمٹنا ہوگا۔

دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ اپنے ہم وطنوں کی حفاظت اور بہبود سب سے مقدم ہے اور جب تک سیلاب سے متاثرہ ہر ایک شخص تک نہ پہنچ جائیں اور اس کی بحالی نہ ہوجائے ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، ان خیالات کا اظہار سپہ سالار نے بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کے موقعے پرگفتگو کے دوران کیا۔

بلاشبہ وفاقی حکومت، پاک فوج کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ حکومت کی جانب سے فلڈ ریلیف کے تحت کی جانے والی کوششوں میں اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالیں بلکہ ممکن ہو تو بساط سے بڑھ کر ایسا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیلاب کے بعد تو سیلاب زدگان کی زندگی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے ، جو پہلے ہی غیر معمولی مہنگائی اور معاشی تنگ دستیوں کے باعث اجیرن بنی ہوئی تھی۔ ٹی وی چینلوں کی اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر سیلاب کے مناظر دیکھ کر تو بے اختیار آنس معین کا شعر یاد آتا ہے۔

وہ جو پیاسا لگتا تھا، سیلاب زدہ تھا

پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کو اس وقت سیلاب نے آن گھیرا ہے ، سیلاب زدگان کو اپنے مردے دفنانے کے لیے خشک جگہ نہیں مل رہی ہے، حاملہ عورتیں پریشانیوں میں گھری بیٹھی ہیں اور سیلاب کے پانی میں سانپ لوگوں اور ان کے جانوروں کو ڈستے پھر رہے ہیں ، یہ انتہائی اذیت ناک صورت حال ہے ، سیلاب کا پانی سب سے پہلے نفسیاتی طور پر لوگوں کو اپاہج کرتا ہے، خاص طور پر موسلادھار بارش تو اور بھی عذاب بن جاتی ہے تو لوگ بے بس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کٹ چکی ہے اور زمینی نلکے بھی ظاہری بات ہے کام نہیں کر رہے تو یہاں صاف پینے کے پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔ پوری پوری بستیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ لوگوں میں بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

بارش میں جوں جوں اضافہ ہو رہا ہے، توں توں سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور دریائے سندھ مزید پانی سندھ کی زمینوں پر پھیلا دے گا جس سے آنے والے دنوں میں مزید تباہی ہوسکتی ہے۔ محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک پاکستان تین تربیلا ڈیموں کے برابر پانی سمندر میں پھینک چکا ہے ، پہلے ہی سندھ میں کپاس اور گنے کی فصل تباہ ہوگئی ہے جب کہ گندم کے کھلے ذخائر پر اس قدر بارش برسی ہے کہ بند بوریوں میں سے گندم کے دانے پھوٹ پڑے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت انسانوں پر تو پھر بھی کچھ توجہ دی جا رہی ہے لیکن جانوروں کا بہت برا حال ہے۔ ان تک خشک چارہ اور طبی امداد پہنچانا بہت مشکل ہو چکا ہے ۔

موسمیاتی حکام کا ماننا ہے کہ مغربی ہواؤں کی تازہ لہر نے کراچی کو بچا لیا ، کیونکہ اس لہر نے مون سون سسٹم کو کوہ سلیمان کے اوپر سے گھما کر دریائے کابل اور دریائے سوات کی جانب موڑ دیا اور اب نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ افغانستان میں بھی دریائے کابل کے ساتھ ساتھ سیلابی صورت حال ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو کراچی میں مزید دو دو سو میٹر بارش کا امکان تھا جس سے وہاں کے مکینوں کا کچومر نکل جانا تھا۔ بلوچستان میں انگور کی فصل پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے اور اب پورے پاکستان کے لیے پنجاب کو غذائی اجناس پیدا کرنا پڑیں گی، جس کی وجہ سے آیندہ سال بھی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں تیزی نظر آئے گی۔ پہلے ہی خبریں آرہی ہیں کہ ٹماٹر چارسو روپے کلو تک پہنچ سکتا ہے۔

حالیہ مون سون کا سارا رخ سندھ اور بلوچستان کی جانب رہا ہے جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سطح سمندر کا درجہ حرارت بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے تمام تر نمی کا رخ اس جانب رہا ہے۔

ابھی تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ کراچی میں ہونے والی بارشوں کا نوے فیصد حصہ سمندر پر برسا ہے، وگرنہ اگر سو فیصد بادل کراچی پر برستے تو سونامی ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی تھی۔ یہی حال سندھ کے بعض علاقوں کا ہے جیسا کہ پڈ عیدن کا علاقہ جہاں پر ریکارڈ بارشوں کا زور رہا ہے، ایک خطرہ یہ ہے کہ جونہی پانی کو زمین جذب کرلے گی تو سندھ اور بلوچستان میں خشک سالی کا راج ہو سکتا ہے جس کے سبب علیحدہ سے ایک نئی مشکل پیدا ہو جائے گی۔ محکمہ موسمیات کے حکام کے مطابق مون سون سیزن کا انجام 15ستمبر تک ہو جائے گا۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو ابھی سے ایسے انتظامات کرنا چاہئیں کہ وہاں کے دیہی علاقے خشک سالی کا شکار نہ ہو جائیں۔

پاکستان کے مختلف چھوٹے، بڑے شہروں ، قصبوں میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے امدادی کیمپ لگا دیے گئے ہیں ، لیکن عوام ایسی اشیاء بھی بطور عطیہ دے رہے ہیں جو سیلاب زدگان کے کسی کام کی نہیں ہیں۔ سیلاب زدگان کو جن اشیا کی فوری ضرورت ہے وہ خشک ایندھن ، لکڑی ، مٹی کا تیل وغیرہ ہیں، کیونکہ چولہے تک جلنے کی پوزیشن میں نہیں، پینے کا صاف پانی، خشک خوراک ، چونکہ پکا ہوا کھانا صرف ایک وقت کام آئے گا جب کہ خشک خوراک دو تین وقت کام دے سکتی ہے، چادریں ، کمبل یا رضائیوں کی جگہ صرف صاف چادریں، سلے ہوئے کپڑے جو فوری پہنے جا سکیں،کپڑے سینے کی سہولت کہیں میسر نہیں ہے، پلاسٹک کے جوتے ، عام جوتے وہاں قابل استعمال نہیں ہیں، جگہ جگہ کھڑے پانی میں عام جوتے کی سلائی کھل جاتی ہے، خشک دودھ ،چھوٹے بچوں کے لیے، جانوروں کے لیے خشک چارہ اور خیمے۔

سب کے علم میں ہے کہ جنوبی پنجاب تباہ ہو چکا ہے، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وہاں نہیں جا رہے، وہ ملک کے مختلف علاقوں میں پارٹی جلسوں سے مسلسل خطاب کر رہے ہیں ، کاش وہ خود وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ساتھ لیتے اور تونسہ، ڈی جی خان، راجن پور وغیرہ کا دورہ کرتے۔ جتنے وسائل اور رقم وہ جلسوں پر خرچ کر رہے ہیں وہ سیلاب زد گان کی مدد کے لیے خرچ کرتے تو کتنا اچھا ہوتا ،اس سے ثابت ہوتا کہ عمران خان کے دل میں اقتدار کی نہیں واقعی مصیبت زدہ عوام کی محبت ہے ۔ ان کی بے نیازی، بے توجہی اور سیلاب زدگان سے منہ پھیرے رکھنا ناقابل فہم اور ناقابل توجیہہ ہے۔

کوئی گہرے پانیوں میں ڈوب کر ابھرا نہ تھا

کوئی ساحل پر کھڑا بس ہاتھ ملتا رہ گیا

پہلے چارپائیوں کے نیچے پانی تھا، اب سندھ کے اونچے علاقے خیرپور میں ٹیلوں پر بیٹھے لوگوں کی چارپائیوں سے آٹھ آٹھ انچ اوپر پانی چل رہا ہے، لوگ خشک زمین دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔

یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ فوری طور پر ڈیمز ، پلوں، سڑکوں اور عمارتوں کی ناقص تعمیر کا نوٹس لیتے ہوئے ذمے داران کے خلاف کارروائی کرے۔ اب تک ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے، محکمہ موسمیات و ماحولیات کی پیش گوئیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آبادیوں کے لیے محفوظ منصوبہ بندی کرے، اگر پانی کی گزرگاہوں پر تجاوزات ہیں، تو انھیں فوراً ختم کیا جانا چاہیے، نکاسیِ آب کا نظام بہتر ہونا چاہیے اور سب سے اہم بات یہ کہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کے عوام مسلسل کرب و اذیت سے گزر رہے ہیں۔

وہ اپنے پیاروں کے بچھڑنے اور مال مویشیوں کی ہلاکت پر سخت غمگین ہیں۔ پھر آنے والے دنوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے، تو اگر اب بھی حکمرانوں اور مقتدر حلقوں نے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھائیں، خدانخواستہ یہاں پھر کوئی بڑی تباہی ہوئی، تو یہاں کے عوام اور ان کی آنے والی نسلیں اْنہیں کبھی معاف نہیں کریں گی ، یہی وقت ہے کہ ہم سب مل کر سیلاب زدگان کی مدد کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں