سیلابی صورتحال اور ناقص حکومتی منصوبہ بندی
پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ زنگ آلود ہوچکا ہے، بیوروکریسی ذہنی پسماندگی کا شکار ہے
مون سون سیزن کی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی کی سنگینی کو عیاں کردیا ہے۔
ماحولیات کے ماہرین عرصہ دراز سے ان خطرات سے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں، اس موضوع پرعالمی سیمینارز اور کانفرنسز بھی ہوتی رہتی ہیں،کرہ ارض کو بچانے کے لیے عہد و پیماں بھی ہوتے ہیں، اربوں ڈالرز کے فنڈز بھی مختص کیے جاتے ہیں لیکن اس ساری مشق کے نتائج زیادہ اچھے نہیں نکل رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں دنیا کے امیر اور صنعتی ملکوں کا حصہ زیادہ ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پسماندہ اور غریب ملکوں کے حکمرانوں اور ریاستی عہدیداروں نے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور امیر ملکوں سے ملنے والے فنڈز کا درست استعمال نہیں کیا بلکہ ریاستی مشینری اور حکمران قیادت کی ذہنی پسماندگی، دولت کی ہوس، اقربا پروری، دوست نوازی اور بے حسی نے غریب ملکوں کے وسائل کو لوٹا،اپنے ملکوں کو دوسروں کے لیے چرا گاہ بنایا، ماحولیاتی آلودگی روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ، جس کے نتیجے میں قدرتی آفات ہر سال بڑھتی چلی جارہی ہیں۔
پاکستان بھی ایسے ہی ملکوں میں شامل ہے جہاں نیچر کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا اور یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے۔ پاکستان گلوبل وارمنگ کے اثرات اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکمرانوں کا رویہ اور کردار غفلت،کوتاہی، کم فہمی اور بے حسی پر مبنی ہے۔ حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب نے ملک کے انتظامی ڈھانچے کی قلعی کھول دی ہے۔
آبادیاں، کمرشل عمارتیں، زرعی زمینیں پانی کی یلغار نے تباہ کردیں لیکن پورا ریاستی نظام بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں مرکزی، صوبائی اور شہری اداروں کی بھرمار ہے، لاکھوں کی تعداد میں افسر اور اہلکار ہیں، پاکستان کے ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے انھیں اربوں روپے تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں دیے جارہے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی حالیہ سیلاب اور بارشوں نے سب پر عیاں کردی ہے۔
آج کے جدید سائنسی دور میں آندھی،طوفان ، بارش، سیلاب وغیرہ کا مقابلہ کرنا خاصا آسان ہوچکا ہے ، کیونکہ موسم اور سیزنزکی ساری صورتحال پہلے ہی معلوم ہوجاتی ہے، اب تو آنے والے کئی برسوں کا ریکارڈ بآسانی مرتب کیا جا سکتا ہے، کتنی گرمی پڑے گی، کتنی سردی پڑے گی، کتنی بارش ہوگی، پہاڑوں سے پانی کا بہاؤ کس قدر بڑھے اور دریاؤں کی کیا صورتحال ہوگی۔
یہ سب کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ہو رہا ہے،ہم بھی ان سے یہ جدید نظام لے کر ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اسپارکو، محکمہ موسمیات اور دیگر سائنسی اداروں کے نظام کو باہم مربوط کر کے ریکارڈ مرتب کیا جاسکتا ہے اور اسٹرٹیجی بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ انٹرنیٹ اور موبائل پر یہ ساری معلومات دستیاب ہیں، تو پھر ہمارے سرکاری ادارے اور انتظامی محکمے پیشگی حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کرتے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے سے سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔
زمین بردگی کا شکار ہو رہی ہے، جس سے زمین کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ موسموں کے مزاج بدل گئے ہیں، گرمی میں سردی اور سردی میں گرمی کی کیفیت شروع ہو جاتی ہے۔ یہ حقائق ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ آبی، زمینی اور فضائی آلودگی اور تیزی سے ناپید ہونے والے جنگلات ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا نہ کی تو ہمیں مستقبل میں ماحولیاتی تغیر کے منفی اثرات کے طور پر ہولناک تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جو خطرہ ہمارے سرپر منڈلا رہا ہے اور جس طرح تباہی ہمارے در پر دستک دے رہی ہے۔
ہمیں اس کا ابھی انفرادی سطح پر ادراک نہیں اور نہ ہم اس طرف کوئی توجہ ہی دے رہے ہیں۔ کرہ ارض پر زندگی کی بقا کے لیے جنگلات کی اہمیت اسی طرح ہے جیسے انسان آکسیجن، پانی اور خوراک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور ان سب کے حصول کے لیے زمین اور ماحول بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ تشویشناک حد تک کم ہے ، ہم جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے اس خطے میں ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے ۔
پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ زنگ آلود ہوچکا ہے، بیوروکریسی ذہنی پسماندگی کا شکار ہے،جس کی وجہ سے سرکاری اداروں کی کارکردگی زوال پذیر ہوتے ہوتے صفر تک پہنچ چکی ہے۔سرکاری افسر جدید نظریات کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں، یہی حال پاکستان کی سیاسی قیادت کا ہے۔ اوسط درجے کی ذہانت غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دینے سے قاصر ہوتی ہے، ایسے افسر اور سیاستدان ذاتی مفادات کے لیے کچھ بھی کرنے پر تیار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی رک رہی ہے نہ سرکاری اور وقف املاک کی الاٹمنٹ رک رہی ہے۔
غیرقانونی عمارتیں بھی اسی لیے قائم ہوتی ہیں کیونکہ ایسی عمارتوں کی منظوری دینے والے سرکاری افسروں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا ہے، اسی وجہ سے ہمارے اداروں کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے کیونکہ نکھٹو اور کند ذہن سرکاری افسر اور حکمران اسے ضروری نہیں سمجھتے۔ بھارت کے شہر نوائیڈا میں دوکثیر المنزلہ رہائشی عمارتوں کو 9سال کی قانونی جنگ کے بعد گزشتہ روز گرایا گیا ہے۔
یہ دونوں 40 منزلہ عمارتیں ہیں، ان عمارتوں کو دھماکا خیز مواد کی مدد سے صرف 9سیکنڈ میں گرایا گیا ، اصل بات یہ ہے کہ ان عمارتوں کو گرانے سے پہلے قریبی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مکمل اقدامات کیے گئے تھے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 103میٹر بلند جڑواں عمارتیں گرانے سے پہلے قریبی عمارتوں کے رہائشیوں کو 5گھنٹے کے لیے گھروں سے باہر رکھا گیا، عمارتیں گرانے کے وقت اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت بند کر دی گئی ،دونوں عمارتوں کا 80ہزار ٹن ملبہ اگلے 3ماہ میں ٹھکانے لگایا جائے گا۔ بھارت میں غیر قانونی تعمیرات گرانے کی یہ اب تک کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔
تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی سپریم کورٹ نے پچھلے سال دونوں عمارتیں گرانے کا حکم دیا تھا، یہ بھارت میں گرائی جانے والی سب سے بلند عمارتیں ہیں جن میں فلیٹ خریدنے والوں کو 12فیصد سود سمیت مکمل رقم واپس کی جا چکی ہے۔
بھارت نے دہلی کوآلودگی سے پاک کرنے کے لیے آیندہ تین سالوں میں 600ملین ڈالرخرچ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے، جس کے لیے شہر کی زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ کو برقی توانائی فراہم کی جائے گی۔ڈائیلاگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کمیشن کی وائس چیئرمین جیسمین شاہ کا کہنا ہے کہ دہلی کا شمارعالمی درجہ بندی میں آلودہ شہروں کی فہرست میں ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے2025 تک اپنی 80فیصد بسوں کو الیکٹرک بنانے کے ساتھ ہی مزید چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے۔جیسمین شاہ نے کہا کہ بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک چوتھائی حصے کے طور پر شمسی توانائی پرانحصار کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا جارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں دہلی میں رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے12فیصد الیکٹرک گاڑیاں ہیں۔
چین میں شدید گرمی کی طویل لہر اور سنگین خشک سالی سے کاروباری سرگرمیاں اور لوگوں کی روز مرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ چینی خبررساں ادارے نے محکمہ موسمیات کے حوالے سے بتایا کہ ملک کے متعدد علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ1961میں اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھے جانے کے آغاز سے اب تک یہ گرمی کی شدید ترین لہر ہے جس کے باعث معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ گرمی کی جاری لہر کئی روز تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق سیچوان صوبے اور پن بجلی پر انحصار کرنے والے ملک کے دیگر اندرونی علاقوں میں بجلی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ مقامی حکام نے بعض کارخانوں کو وسط اگست سے بند کروا رکھا ہے۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ ہوبئے اور جیانگشی صوبوں میں دریائے یانگزے کے ساتھ ساتھ واقع فارمنگ کی صنعتیں خشک سالی سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ ادھر اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے متعدد اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جن میں بارش برسانے کے لیے راکٹس چھوڑنا بھی شامل ہے۔
سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو ابھی سے بہتر منصوبہ بندی کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہو گا ورنہ ہر مشکل وقت میں شہری یونہی پریشان حال اور حکمران چندہ اور امداد مانگ کر عوامی خدمت کے بلند بانگ دعوے کرتے رہیں گے۔
ماحولیات کے ماہرین عرصہ دراز سے ان خطرات سے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں، اس موضوع پرعالمی سیمینارز اور کانفرنسز بھی ہوتی رہتی ہیں،کرہ ارض کو بچانے کے لیے عہد و پیماں بھی ہوتے ہیں، اربوں ڈالرز کے فنڈز بھی مختص کیے جاتے ہیں لیکن اس ساری مشق کے نتائج زیادہ اچھے نہیں نکل رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں دنیا کے امیر اور صنعتی ملکوں کا حصہ زیادہ ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پسماندہ اور غریب ملکوں کے حکمرانوں اور ریاستی عہدیداروں نے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور امیر ملکوں سے ملنے والے فنڈز کا درست استعمال نہیں کیا بلکہ ریاستی مشینری اور حکمران قیادت کی ذہنی پسماندگی، دولت کی ہوس، اقربا پروری، دوست نوازی اور بے حسی نے غریب ملکوں کے وسائل کو لوٹا،اپنے ملکوں کو دوسروں کے لیے چرا گاہ بنایا، ماحولیاتی آلودگی روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ، جس کے نتیجے میں قدرتی آفات ہر سال بڑھتی چلی جارہی ہیں۔
پاکستان بھی ایسے ہی ملکوں میں شامل ہے جہاں نیچر کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا اور یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے۔ پاکستان گلوبل وارمنگ کے اثرات اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکمرانوں کا رویہ اور کردار غفلت،کوتاہی، کم فہمی اور بے حسی پر مبنی ہے۔ حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب نے ملک کے انتظامی ڈھانچے کی قلعی کھول دی ہے۔
آبادیاں، کمرشل عمارتیں، زرعی زمینیں پانی کی یلغار نے تباہ کردیں لیکن پورا ریاستی نظام بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں مرکزی، صوبائی اور شہری اداروں کی بھرمار ہے، لاکھوں کی تعداد میں افسر اور اہلکار ہیں، پاکستان کے ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے انھیں اربوں روپے تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں دیے جارہے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی حالیہ سیلاب اور بارشوں نے سب پر عیاں کردی ہے۔
آج کے جدید سائنسی دور میں آندھی،طوفان ، بارش، سیلاب وغیرہ کا مقابلہ کرنا خاصا آسان ہوچکا ہے ، کیونکہ موسم اور سیزنزکی ساری صورتحال پہلے ہی معلوم ہوجاتی ہے، اب تو آنے والے کئی برسوں کا ریکارڈ بآسانی مرتب کیا جا سکتا ہے، کتنی گرمی پڑے گی، کتنی سردی پڑے گی، کتنی بارش ہوگی، پہاڑوں سے پانی کا بہاؤ کس قدر بڑھے اور دریاؤں کی کیا صورتحال ہوگی۔
یہ سب کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ہو رہا ہے،ہم بھی ان سے یہ جدید نظام لے کر ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اسپارکو، محکمہ موسمیات اور دیگر سائنسی اداروں کے نظام کو باہم مربوط کر کے ریکارڈ مرتب کیا جاسکتا ہے اور اسٹرٹیجی بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ انٹرنیٹ اور موبائل پر یہ ساری معلومات دستیاب ہیں، تو پھر ہمارے سرکاری ادارے اور انتظامی محکمے پیشگی حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کرتے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے سے سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔
زمین بردگی کا شکار ہو رہی ہے، جس سے زمین کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ موسموں کے مزاج بدل گئے ہیں، گرمی میں سردی اور سردی میں گرمی کی کیفیت شروع ہو جاتی ہے۔ یہ حقائق ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ آبی، زمینی اور فضائی آلودگی اور تیزی سے ناپید ہونے والے جنگلات ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا نہ کی تو ہمیں مستقبل میں ماحولیاتی تغیر کے منفی اثرات کے طور پر ہولناک تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جو خطرہ ہمارے سرپر منڈلا رہا ہے اور جس طرح تباہی ہمارے در پر دستک دے رہی ہے۔
ہمیں اس کا ابھی انفرادی سطح پر ادراک نہیں اور نہ ہم اس طرف کوئی توجہ ہی دے رہے ہیں۔ کرہ ارض پر زندگی کی بقا کے لیے جنگلات کی اہمیت اسی طرح ہے جیسے انسان آکسیجن، پانی اور خوراک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور ان سب کے حصول کے لیے زمین اور ماحول بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ تشویشناک حد تک کم ہے ، ہم جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے اس خطے میں ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے ۔
پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ زنگ آلود ہوچکا ہے، بیوروکریسی ذہنی پسماندگی کا شکار ہے،جس کی وجہ سے سرکاری اداروں کی کارکردگی زوال پذیر ہوتے ہوتے صفر تک پہنچ چکی ہے۔سرکاری افسر جدید نظریات کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں، یہی حال پاکستان کی سیاسی قیادت کا ہے۔ اوسط درجے کی ذہانت غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دینے سے قاصر ہوتی ہے، ایسے افسر اور سیاستدان ذاتی مفادات کے لیے کچھ بھی کرنے پر تیار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی رک رہی ہے نہ سرکاری اور وقف املاک کی الاٹمنٹ رک رہی ہے۔
غیرقانونی عمارتیں بھی اسی لیے قائم ہوتی ہیں کیونکہ ایسی عمارتوں کی منظوری دینے والے سرکاری افسروں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا ہے، اسی وجہ سے ہمارے اداروں کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے کیونکہ نکھٹو اور کند ذہن سرکاری افسر اور حکمران اسے ضروری نہیں سمجھتے۔ بھارت کے شہر نوائیڈا میں دوکثیر المنزلہ رہائشی عمارتوں کو 9سال کی قانونی جنگ کے بعد گزشتہ روز گرایا گیا ہے۔
یہ دونوں 40 منزلہ عمارتیں ہیں، ان عمارتوں کو دھماکا خیز مواد کی مدد سے صرف 9سیکنڈ میں گرایا گیا ، اصل بات یہ ہے کہ ان عمارتوں کو گرانے سے پہلے قریبی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مکمل اقدامات کیے گئے تھے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 103میٹر بلند جڑواں عمارتیں گرانے سے پہلے قریبی عمارتوں کے رہائشیوں کو 5گھنٹے کے لیے گھروں سے باہر رکھا گیا، عمارتیں گرانے کے وقت اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت بند کر دی گئی ،دونوں عمارتوں کا 80ہزار ٹن ملبہ اگلے 3ماہ میں ٹھکانے لگایا جائے گا۔ بھارت میں غیر قانونی تعمیرات گرانے کی یہ اب تک کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔
تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی سپریم کورٹ نے پچھلے سال دونوں عمارتیں گرانے کا حکم دیا تھا، یہ بھارت میں گرائی جانے والی سب سے بلند عمارتیں ہیں جن میں فلیٹ خریدنے والوں کو 12فیصد سود سمیت مکمل رقم واپس کی جا چکی ہے۔
بھارت نے دہلی کوآلودگی سے پاک کرنے کے لیے آیندہ تین سالوں میں 600ملین ڈالرخرچ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے، جس کے لیے شہر کی زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ کو برقی توانائی فراہم کی جائے گی۔ڈائیلاگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کمیشن کی وائس چیئرمین جیسمین شاہ کا کہنا ہے کہ دہلی کا شمارعالمی درجہ بندی میں آلودہ شہروں کی فہرست میں ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے2025 تک اپنی 80فیصد بسوں کو الیکٹرک بنانے کے ساتھ ہی مزید چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے۔جیسمین شاہ نے کہا کہ بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک چوتھائی حصے کے طور پر شمسی توانائی پرانحصار کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا جارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں دہلی میں رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے12فیصد الیکٹرک گاڑیاں ہیں۔
چین میں شدید گرمی کی طویل لہر اور سنگین خشک سالی سے کاروباری سرگرمیاں اور لوگوں کی روز مرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ چینی خبررساں ادارے نے محکمہ موسمیات کے حوالے سے بتایا کہ ملک کے متعدد علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ1961میں اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھے جانے کے آغاز سے اب تک یہ گرمی کی شدید ترین لہر ہے جس کے باعث معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ گرمی کی جاری لہر کئی روز تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق سیچوان صوبے اور پن بجلی پر انحصار کرنے والے ملک کے دیگر اندرونی علاقوں میں بجلی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ مقامی حکام نے بعض کارخانوں کو وسط اگست سے بند کروا رکھا ہے۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ ہوبئے اور جیانگشی صوبوں میں دریائے یانگزے کے ساتھ ساتھ واقع فارمنگ کی صنعتیں خشک سالی سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ ادھر اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے متعدد اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جن میں بارش برسانے کے لیے راکٹس چھوڑنا بھی شامل ہے۔
سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو ابھی سے بہتر منصوبہ بندی کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہو گا ورنہ ہر مشکل وقت میں شہری یونہی پریشان حال اور حکمران چندہ اور امداد مانگ کر عوامی خدمت کے بلند بانگ دعوے کرتے رہیں گے۔